امارت شرعیہ کا وقار اپنوں کی وجہ سے داؤ پر

از: احمد حسین قاسمی

امارت شرعیہ اپنی تاریخ و خدمات، نفاذ شریعت اور اسلامی فکرکے آئینے میں پورے ملک کے اندر معروف و مشہور ہے، جس کی خدمات کا سلسلہ ایک صدی سے زائد عرصے پر پھیلا ہوا ہے،دینی و ملی کاموں سے ادنی دلچسپی رکھنے والے مسلمان بھی امارت شرعیہ کے نام سے واقف ہیں ،یہ بھی ایک سچی حقیقت ہے کہ ملک کے جتنے بڑے ادارے اور تعلیم گاہیں تھیں وہ گزشتہ کچھ برسوں میں مختلف اسباب و وجوہ کی بنا پر تقسیم در تقسیم ہو گئیں، بندے کی نظر میں مسلمانوں کی دو اہم تنظیمیں ایک امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ اور دوسری جماعت اسلامی اپنے اخلاص، منفرد طریقہ کار،شفاف نظام اور بے لوث خدمات کی وجہ سے کسی قدرمتحدہ طور پر کام کر رہی ہیں؛ جس میں ان دنوں امارت شرعیہ ملت کی بد نصیبی سے اختلاف و تقسیم کے نرغے میں ہے،خود اس میں ایک مدت تک کام کرنے والے اعلی عہدے داران اپنی سبکدوشی اور معزولی کے بعد بغاوت پر آمادہ ہو گئے ہیں، اب اللہ ہی اس کا محافظ ہے۔

29/رمضان کا سانحہ اور سازشوں کا تسلسل:

جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ بہار کی ریاست پٹنہ جہاں پھلواری شریف میں امارت شرعیہ کا مرکزی دفتر ہے29/ مارچ کو عین اس وقت جب کہ امارت شرعیہ نے اپنی جرأت و عزیمت کا اظہار کرتےہوئے ریاستی حکومت کی افطار پارٹی کا بائیکاٹ کیا اور اس سے تین دنوں قبل ریاستی سطح پر وقف ترمیمی قانون کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے ساتھ دھرنا دیا تھا، ماہ رمضان کے بالکل اخیر میں امارت شرعیہ کے مرکزی دفتر پر حکومتی دستے کے ذریعے قبضے کا سانحہ پیش آیا، قبضے میں ناکامی کے بعد اسی دن چار ٹرسٹیوں کے ذریعے جناب مولانا انیس الرحمن صاحب نے خود کو امیر شریعت نامزدکرلیا اوردوسری طرف جناب مولانا شبلی القاسمی ایک مفروضہ امارت شرعیہ کے مستقل ناظم قرار دے دیے گئے۔ اوراس کےبعدخبریں مسلسل گردش میں ہیں، جس کی ایک کڑی مورخہ ٢٢/مئی کو مولانا مظہر الحق آڈیٹوریم پٹنہ میں منعقدہ اجلاس کی صورت میں پیش آئی ، جہاں امارت شرعیہ کے مرکزی دفتر سےدور حج بھون کے پاس امارت کے منتخب اراکین ارباب حل و عقد کے علاوہ غیر متعلق لوگوں کو جمع کیا گیا اور انجام کو خاطر میں لائے بغیر امارت شرعیہ جیسی عظیم تنظیم کے قلب و جگر پر خنجر مارتے ہوئےمولانا انیس الرحمن صاحب کو ایک دوسرا امیر بنانے کا اعلان کردیا گیا۔

امت میں بے چینی اور اضطراب:

اس غیرمتوقع اور افسوسناک واقعے سے پورے ملک کے مسلمان خاص طور پر بہار اڑیسہ، وجھارکھنڈ اور مغربی بنگال کے سنجیدہ اور فکرمندمسلمانوں میں سخت بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہے،اس لیے کہ یہ تنظیم ملی مسائل کو لے کر ایک زندہ اور متحرک تنظیم ہے جو قوت فکر و عمل سے ہمیشہ تازہ دم رہتی ہے، مختلف علماء، ائمہ اور دانشوران کے فون آرہے ہیں؛ جو حقیقت حال کو جاننے کے لیے بہت پریشان ہیں۔

امارت شرعیہ کی حالیہ کارکردگی اور فریق مخالف کی سازش:

اس قضیہ نامرضیہ میں اس ادارے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس غیر معمولی سانحہ کے باوجود اس کے پاؤں میں ذرہ برابر لغزش نہیں آئی اور اس نے سابقہ تمام تحریکوں کی طرح اس بار بھی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی آواز پر ملک کی دوسری تمام تنظیموں سے بڑھ کر حصہ لیا اور پورے بہار کے طول و عرض میں بیسیوں اضلاع کے ہیڈ کوارٹر میں وقف بل کہ قانون بننے کے بعد بڑے پیمانے پر مؤثر اورکامیاب ریلیاں نکالیں اورحکومت کے ظالمانہ رویے کے خلاف بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کیے؛ جو ہر لحاظ سے ملت کے نزدیک قابل ستائش ہے۔مگر اس پورے مرحلے میں ملت کے غور کرنے کے لیے قابل توجہ امر یہ ہے کہ ایک جانب امارت شرعیہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف منظم انداز میں مرحلہ وار احتجاجی کام انجام دے رہی ہے ؛مگر دوسری جانب مخالف طبقہ اس تحریک میں امارت شرعیہ کو قوت پہنچانے کی جگہ اس کی جڑوں کو کمزور کرنے اور اسے توڑنے کے لیے پورطورپرکمربستہ ہے،اور طرفہ تماشہ یہ کہ وہ چند علما اور افراد جنہیں کسی نہ کسی وجہ سے امارت شرعیہ یا اس کے موجودہ امیر شریعت سے کوئی رنجش ہے وہ اس اختلاف میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔

اس اختلاف کے اصل دوچہرے ہیں جناب مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب سابق ناظم امارت شرعیہ اور دوسرے جناب مولانا شبلی القاسمی سابق قائم مقام ناظم امارت شرعیہ ۔

پہلاچہرہ جناب مولانا انیس الرحمن قاسمی،منظر پس منظر :

امارت شرعیہ کے اک طےشدہ ضابطہ کے تحت 2019 کے اواخر میں جناب مولانا انیس الرحمن قاسمی اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد امارت شرعیہ سے ریٹائرڈ ہو گئے،امارت شرعیہ کی برکت سے اللہ تعالی نے ان کا اقبال بلند کیا اور ملک کے طول و عرض میں وہ جانے پہچانے گئے،افتاء و قضا کا کام امارت شرعیہ کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس میدان سے موصوف کو کئی علمی خدمات کا موقع بھی میسر آیا؛ جس کی وجہ سے وہ ارباب علم و فضل کے درمیان قدر کی نگاہوں سے دیکھے جانے لگے،جو اپنی سبکدوشی کے بعد پرسکون انداز میں آل انڈیا ملی کونسل اور امارت میں رہ کر اپنے ذاتی قائم کردہ مختلف اداروں کی خدمت میں مصروف ہو گئے،حسب موقع اخبارات میں ان کی جانب سے بیانات اور خبریں شائع ہوتی رہتی تھیں،موصوف آٹھویں امیر شریعت کےانتخاب کےموقع پر امیر شریعت کے امیدوار بن کر موجودہ امیر شریعت جناب مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کے مدمقابل آخر تک کھڑے رہے جبکہ تین امیدوار فقیہ العصر حضرت مولانا خالدسیف اللہ صاحب رحمانی، جناب مفتی محمد نذرتوحید مظاہری اور جناب مولانا شمشاد رحمانی موجودہ نائب امیر شریعت نے اپنا نام بالترتیب واپس لے لیا،سب کو معلوم ہے انتشار کے اس زمانے میں یہ انتخاب مشکل مرحلوں سے گزر کر انجام کو پہنچا تھا،اختلاف اس قدر شدید تھا کہ کسی ایک شخصیت پر تمام اراکین ارباب حل و عقد کا اتفاق نہ ہو سکا، بصورت دیگر اظہار رائے دہی کا طریقہ اختیار کیا گیا اور سب سے زیادہاربا حل وعقد کی رائے موجودہ امیر شریعت کے حق میں آئی اور وہ آٹھویں امیر شریعت کے طور پر منتخب ہوئےاور ان کے بعد جناب مولانا انیس الرحمن صاحب کو ووٹ ملے، انتخابی اجلاس کےاختتام پر ملک کے نامور علماء کرام اورامارت کے منتخب سینکڑوں اراکین ارباب حل و عقد کی موجودگی میں جناب مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب نے موجودہ امیر شریعت جناب مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کے ہاتھ پر بیعت امارت کی اور اپنی جانب سے سمع وطاعت کا پورا یقین دلایا، اس کے بعد موجودہ امیر شریعت امارت شرعیہ کے ذمہ داران، قضاۃ ،کارکنان، مبلغین اور پورے کارواں کو لے کر ملی کاموں اورحکومت کی جانب سےپےدرپے پیش آمدہ تحریکات میں مصروف ہو گئے، جس سے ہم تمام واقف ہیں،انتخاب کے بعد امیرشریعت ثامن باضابطہ جناب مولانا انیس الرحمن صاحب کے گھرتشریف لے گئے ان سےملاقات اور گفتگو شنید بھی کی اور ان کا اعتماد بھی حاصل کیا۔

دوسرا چہرہ جناب مولانا شبلی القاسمی، منظرپس منظر :

محترم موصوف سے ایک دنیا واقف ہے آپ پٹنہ شہر کے کنارے کربلا نامی محلے کی ایک مسجد میں امام تھے جہاں وہ ایک مدت سے عمارت شریعہ کی جانب سے مکتبی وظیفہ بھی پاتے رہے، امیر شریعت صاحب حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ نے آپ کوامارت شرعیہ میں شعبہ امور مساجد کام کرنےکی غرض سے لایا، امارت شرعیہ میں نائب ناظم کے عہدے کے بعد عدم اعتماد کی وجہ سے قائم مقام ناظم کے عہدے پر ہی کئی سال رہے اور انتخاب کے موقع پر سارے قضیے میں پیش پیش تھے، جب موجودہ امیر شریعت کا انتخاب عمل میں آگیا تو انہوں نے آپ کو سابقہ عہدے پر باقی رکھتے ہوئے کام لیا ؛مگر بعض وجوہات جس کا علم لوگوں کو ہے گزشتہ رمضان کی ٣/ تاریخ کو امارت شرعیہ میں موجود ذمہ داران سے مشورہ کر کےامیرشریعت نے انہیں عہدے سے معزول کردیا، آپ نے امیر شریعت سے ایک مہینہ غورو فکر کرنے کی مہلت مانگی تو حضرت امیر شریعت نے آپ کو وہ مہلت بھی دی اور ساتھ میں چھ مہینے کی تنخواہ کا وعدہ بھی فرمایا۔

جناب مولانا شبلی القاسمی کا معاندانہ رویہ:

مگر یہ ایک مہینے کی مہلت صرف انہوں نے اس لیے مانگی تاکہ وہ سازش رچنے میں کامیاب ہو سکیں اور اپنے ہمنوا کو جمع کر کے اورحکومت کی مددسےامارت شرعیہ پر قبضہ جماسکیں، موصوف نے 29/ مارچ کو جس منظم انداز میں حکومت کی مدد اور مخالفین کے تعاون سے جو چال چلی تھی، اللہ نے اسے ناکام کر دیا، امارت شرعیہ جیسے قدیم ادارے پر وہ حملہ جناب مولانا شبلی صاحب اور جناب مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب کی ذات پر وہ بدنما داغ ثابت ہوا جس سے پیداہونے والی سبکی وخفگی کوبرداشت کرنا ان کے لیے آسان نہ تھا تو اب بلا کسی شرعی و دستوری جوازکے امارت شرعیہ کی تقسیم پر آمادہ ہو گئے۔

امیر شریعت کو نہیں امارت شرعیہ کو نقصان پہنچایاجارہاہے :

امیر شریعت اگرچہ نظام امارت میں مرکزی نقطہ کی حیثیت رکھتے ہیں؛ تاہم امارت شرعیہ صرف امیرشریعت کا نام نہیں ہے، امارت شرعیہ ایک دستور، اصول اور ضابطے کا نام ہے،یہ ادارہ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ کا تسلسل ہے ،یہ ادارہ سینکڑوں علماء اور ملی قائدین کی عظیم روایات کا محافظ ہے، یہ ادارہ ہمارے اکابرواسلاف کی بےشمار قربانیوں کا امین اور تاریخ دعوت و عزیمت کا پاسبان ہے، اس کے تحت غیر معمولی شعبے اور اہم ترین شخصیات ہیں، اس اختلاف کی زد میں ملت کے کاموں کا بھی بڑا خسارہ ہوگا اور امت کی عظیم شخصیات بھی ضائع ہوں گی ، دارالقضاء، دارالافتاء،شعبہ دعوت و تبلیغ، شعبہ تنظیم ، شعبہ دینی تعلیم، شعبہ عصری تعلیم، شعبہ صحت، شعبہ خدمت خلق ،شعبہ تحفظ مسلمین ،مسلم پرسنل لاء کاتحفظ اور اسلامی بیت المال قائم ہیں، اختلافات کا لازمی نتیجہ ہے کہ یہ سب ہو کر رہ جائیں گے،سیکڑوں باصلاحیت علماء، قضاۃ اور کارکنان اس سے وابستہ ہیں انہیں ذہنی انتشار میں مبتلا کر دیا جائے گا اور بالاخر امت کا کام غیر معمولی طور پر متاثر ہوگااور سب سے بڑھ کرچار ریاستوں کے کروڑوں مسلمانوں کاملی وجود اور اسلامی تشخص اس عظیم تنظیم سےوابستہ ہے جو اس اختلاف کے نتیجے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔یہ وہ پہلو ہیں جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے!۔

اگر جناب مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب اپنے غلط اقدام سے باز نہیں آتے ہیں توسب سےاہم یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ چار ریاستوں میں ملی تحریک کا کام اب کیسے انجام پائے گا اور اس کی کیا شکل ہوگی؟
کیا مولانا شبلی القاسمی صاحب اپنے نکالے جانے پر دوبارہ فقط ایک عہدہ کو حاصل کرنے اور جناب مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب امیر شریعت کے منصب تک پہنچنےکے لیے اتنے بڑے اور قدیم ادارےکوداؤ پرلگادیں گے؟ اور ملت کے مشترکہ عظیم سرمائے کو اپنی انا کی تسکین کے لیے پامال کردیں گے؟اور بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کے ہزاروں علماء ائمہ کرام ملت کے درد رکھنے والے خواص اور دانشوران خاموش رہیں گے؟نہیں ہرگز نہیں۔

امیر شریعت کی معزولی کا دعوی بے بنیاد اور باطل

امارت شرعیہ 100 سالوں سے ایک ضابطے اور اصول کے تحت چلتی آرہی ہے،ہمارے بزرگوں نے اس تنظیم کو انجمن کی حیثیت سے نہیں ؛بلکہ ایک اسلامی نظام اور نفاذ شریعت کے مرکزکی حیثیت سے خلافت راشدہ کے منہج پر قائم فرمایا تھا، جب ایک مرتبہ ارباب حل و عقد کے ذریعے کوئی امیر شریعت منتخب ہو جاتے ہیں؛ تو جب تک ان سے کھلم کھلا کفر ،اعلانیہ فسق اور جنون جیسی چیزظاہر نہ ہو اس وقت تک انہیں کوئی اس منصب سے ہٹا نہیں سکتا اور امارت شرعیہ کا اصول ہے کہ امیر شریعت کے نصب و عزل (انتخاب ومعزولی)کا اختیار صرف اور صرف اراکین ارباب حل و عقد کوہے، کوئی اور مجلس یا دوسرے افراد انہیں جمع ہو کر ان کے عہدے سے ہرگزمعزول نہیں کر سکتے ہیں یہ بھی دستور امارت کا اٹوٹ حصہ ہے۔جب بعض علمائے کرام نے بار بار اٹھائے جانے والے ہیں چند سوالات موجودہ امیر شریعت سے کیے تو آپ نے ہر ایک سوال کا تفصیل سے جواب دیا اور علمائے کرام مطمئن ہوئے۔پوری امارت شرعیہ کے حضرات قضاۃ، علماء، مبلغین اور کارکنان سمیت چاروں ریاستوں کے ہزاروں مسلمان جناب مولانا انیس الرحمن قاسمی اور جناب مولانا شبلی القاسمی صاحب سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر اپ کے سوالات میں معقولیت ہے تو اپ ٹیبل پر بیٹھے اور مذاکرات کریں،مگر یہ آپ کے لیے کسی طرح جائز نہیں کہ آپ کہیں سے بھی کچھ افراد کو جمع کر کے کسی کو امیر شریعت بنادیں ؟ آپ کو یہ جواب دینا ہوگا کہ امارت شرعیہ کے اراکین ارباب حل و عقد میں سے کتنے افراد آپ کے یہاں جمع ہوئےتھے؟ آپ نے کن بنیادوں پر امارت شرعیہ کے وجود کے ساتھ کھلواڑ کیا؟

ملت اسلامیہ ملی اتحاد کے توڑنے والے کو کبھی معاف نہیں کرے گی:

آنے والے 25 مئی کو اللہ نے چاہا تو امارت شرعیہ کے اراکین مجلس ارباب حل و عقد اور شام کے دوسرے اجلاس میں شریک ہونے والی ریاست بہار کی نمائندہ شخصیات اس غلط حرکت کی مذمت کرتے ہوئے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کریں گے اور ملت کے شیرازہ کو منتشر کرنے والے حضرات کے بارے میں حتمی فیصلہ سنائیں گے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔