تذکیر اور تدبیر
تذکیر اور تدبیر
عمر فراہی
کسی شاعر نے لکھا ہے کہ
مگر! رفتار مدہم ہے مجھے محسوس ہوتا ہے
میں تم کو بھول جانے کے مسلسل مرحلے میں ہوں
عشق اور محبت میں جب لوگ اپنے محبوب کی بیوفائی کا شکار ہوتے ہیں تو اپنی بیزاری کا اظہار اسی طرح کے شکایت آمیز شاعرانہ لہجے میں کرتے ہیں لیکن یہاں شاعر یہ بھول گیا کہ بھول جانا یا محبت ہو جانا دو دونی چار کی طرح علم ریاضی کا عمل نہیں ہے ۔ بھول جانا یا کسی سے محبت اور عشق ہو جانا کائنات کا ایک حادثاتی عمل ہے جو دنیا کے مختلف انسانوں کے فطری اور قدرتی مزاج اور دلچسپی پر منحصر کرتا ہے ۔
کسی نے ارسطو کے حوالے سے لکھا ہے کہ
”جب تُم آدم بیزار ہو جاؤ، دُنیا سے اُکتا جاؤ، اور اُداسی تُمہارے جسم میں سَرایت کرنے لگے تو موسیقی سُنو اور رقص کرو“
اگر یہ بات ارسطو نے کہی ہے تو مان لیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا اور سماج میں بیزار انسان جب لوگوں سے دکھی اور مایوس ہونے لگتا ہے تو وہ کسی ارسطو کی نصیحت کا محتاج نہیں ہوتا ۔ وہ فطرتاً اس دکھ کو بھلانے کیلئے لوگوں سے الگ تھلگ ہوکر کسی اور دنیا میں کھو جانا چاہتا ہے لیکن یہ ضروری بھی نہیں کہ دنیا کا ہر آدمی موسیقی اور رقص کا ہی رسیا ہو اور وہ اپنے غم کو بھلانے کیلئے موسیقی اور رقص کی طرف ہی مائل ہو ۔اکثر دنیا بیزار اور ہر طرف سے مایوسی کے شکار لوگ خودکشی بھی کر لیتے ہیں اور جو کچھ لوگ اچھے اور برے کی تمیز نہیں رکھتے وہ شراب اور نشے کی طرف بھی مائل ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔شہروں میں فحاشی اور بئیر بار انڈسٹری کی رونق انہیں سے ہے ۔کچھ لوگ جو صرف موسیقی کی حد تک ہی محدود رہ کر اپنا غم ہلکا کر لیتے ہیں ایسے لوگ ادب نواز اور کسی حد تک سماج اور معاشرے کی اتھل پتھل کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور پھر ان میں سے کچھ شریف قسم کے لوگوں کا ذہن موسیقی غزل گیت اور سنگیت کی طرف مائل ہوتا ہے ۔جو لکھ سکتے ہیں ایسے مصنفین اپنی ذاتی روداد تو نہیں لکھ پاتے لیکن وہ جو لوگوں کے احساسات کو رقم کرتے ہیں کہیں نہ کہیں اس میں ان کے اپنے درد کا احساس بھی چھپا ہوتا ہے ۔ جو نہیں لکھ سکتے وہ کہانیوں افسانوں ناولوں اور گیتوں کے ساتھ کتابی دنیا میں مصروف ہو کر اپنی تنہائی کو کتابوں کے حوالے کر دیتے ہیں ۔انہیں کچھ وقت کیلئے ہی سہی محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اس خیالی دنیا میں حقیقت تک رسائی حاصل کر لی ہے یا اپنے بے وفا محبوب سے چھٹکارہ حاصل کر لیا ہے اور وہ اپنے اس خیالی دنیا میں کبھی کبھی اپنے محبوب کو لفظی دھمکیا بھی دیتے ہیں ۔جیسا کہ میں نے اوپر کسی بیزار عاشق کے حوالے سے لکھا ہے کہ
مگر رفتار مدھم ہے مجھے محسوس ہوتا ہے
میں تم کو بھول جانے کے مسلسل مرحلے میں ہوں
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر ارسطو آج ہوتا تو ایسے دنیا بیزار یا فریب خوردہ لوگوں کو کیا مشورہ دیتا ۔یقینا وہ کہتا کہ تم فیس بک وہاٹس آپ اور انسٹا گرام پر اکاؤنٹ کھول لو اور صبح شام کچھ نہ کچھ پوسٹ کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہا کرو ۔یہ مشورہ بھی کسی کو دینے کی ضرورت نہیں ۔ ادب مزاج فریب خوردہ محترم اور محترماؤں کی ایک بڑی تعداد آج سوشل میڈیا پر کسی کی نصیحت کے بغیر اپنے دل کی بھڑاس اگل رہی ہے۔کچھ تو ایسے ہیں جن کی چوبیس گھنٹے میں ایک نہیں دو نہیں پانچ پانچ چھ چھ پوسٹ نظر آتی ہیں پھر بھی ان کے دل کو سکون اور تسلی مل پاتی ہے یا نہیں اس کا پتہ بھی کوئی ارسطو ہی لگا سکتا ہے ۔اس کے بعد بھی انہیں شکایت ہے کہ انہیں نیند نہیں آتی ۔
ایسے لوگوں کے بارے میں میں نے ایک مولوی صاحب سے مشورہ کیا کہ حضرت کچھ مسلم نوجوان اور دوشیزائیں کچھ زیادہ ہی سوشل میڈیا پر مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور اگر موسیقی غزل گیت یا کسی ناول اور تبصرے میں فحاشی نہ ہو تو کسی کو ان کے اس عمل سے روکنا بھی فطرت کے خلاف ہے اور چبرا روکا گیا تو ممکن ہے وہ ڈپریشن کا شکار ہونے لگیں ۔ اس لئے اگر لوگ اپنے غم کو ہلکا کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے دیں ۔ہاں جو چوبیس گھنٹوں میں پانچ چھ پوسٹ کرتے ہیں وہ ایک ترتیب اور معمول بنا لیں تو انہیں نیند نہ آنے کی بھی شکایت نہیں رہے گی اور فرض عبادتوں سے بھی فیض یاب ہوتے رہیں گے ۔میں نے کہا وہ کیسے ۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی پوسٹ تہجد کی نماز پڑھ کر شروع کریں اور عشاء کی نماز تک ہر نماز بعد ایک تبصرہ پوسٹ کرکے کچھ لایک کمنث اور تبصروں کو دیکھ کر دس اگیارہ بجے تک سو جایا کریں ۔ان چھ وقت کی نمازوں کی پابندی سے ادائیگی کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ شیطان ایسے لوگوں کو سوشل میڈیا سے ہی بیزار کر دے ۔میں یہاں ارسطو سے زیادہ مولوی صاحب کی بات سے اس لئے متفق ہوں کیوں کہ ایک بار اسی طرح کا معاملہ امام ابوحنیفہ ر ع کے سامنے آیا تھا ۔کہتے ہیں کہ ایک بار ایک شخص ان کے پاس آیا ۔اس نے کہا کہ حضرت میں اپنی ایک قیمتی چیز کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں کوئی ایسا وظیفہ بتائیں کہ وہ مل جاۓ ۔ابو حنیفہ نے کہا کہ جاؤ تم نفل نماز پڑھنا شروع کر دو ۔ابھی وہ شخص کچھ رکعت ہی پڑھا سکا تھا کہ اسے وہ جگہ یاد آ گئی جہاں اس نے اپنی چیز رکھی تھی ۔وہ شخص ابوحنیفہ کے پاس آیا کہ حضرت آپ کو کیسے پتہ کہ اس طرح نماز پڑھنے سے وہ چیز مجھے مل جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ شیطان کو تمہارا عبادت میں مشغول رہنا اچھا نہیں لگا اور اس نے فوراً تمہیں وہ مقام یاد دلا دیا تاکہ تم اور عبادت نہ کر سکو ۔یہ ایک طئے شدہ حقیقت بھی کہ اللہ نے ہر مسئلے کا حل تدبیر کے ساتھ ساتھ تذکیر میں بھی رکھا ہے لیکن لوگ توکل کی بجائے اپنے مسائل کا حل صرف اسباب اور تدبیر میں ہی تلاش کرتے ہیں !