جب اورنگزیب نے مندروں کو جائیدادیں عطاکیں
از:- معصوم مرادآبادی
میں نے حال ہی میں مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کا سفر کیا ہے، جو مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے نام سے موسوم ہے۔اس سفر کابڑا مقصد اورنگزیب عالمگیر کی تربت پر حاضری دینا تھا، جسے مسمار کرنے کے مطالبات ایک بار پھر زور پکڑ رہے ہیں۔اورنگ آبادکے دونوجوان صحافی شارق نقشبندی اور احمدتوصیف مجھے اپنی گاڑی میں بٹھاکر اورنگ آباد سے تیس کلومیٹر دور خلدآباد لے گئے، جہاں حضرت نظام الدین اولیاء کے اجل خلیفہ شیخ برہان الدین اور آپ کے خلیفہ زین الدین داؤد شیرازی کے مزارات کے پہلو میں اورنگزیب کی ایک معمولی سی قبر ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ جہاں تمام مغل بادشاہوں کی تربتوں پر نہایت عالیشان مقبرے تعمیر کئے گئے ہیں تو وہیں اورنگزیب کی تربت کچی اور کھلے آسمان کے نیچے ہے۔نہ تو یہاں کوئی مقبرہ ہے اور نہ کوئی تام جھام۔ دراصل اورنگزیب نے احمد نگر میں اپنی موت (3/مارچ1707)سے قبل یہ وصیت کی تھی کہ انھیں حضرت زین الدین داؤد شیرازی کی پائینتی میں دفن کیا جائے۔ اورنگزیب اپنی زندگی میں اکثر یہاں آتے تھے اور بڑا سکون محسوس کرتے تھے۔اورنگزیب کے مزار کی موجودہ جالی اوراحاطہ بندی لارڈ کرزن کی فرمائش پر حیدرآباد کے نواب میر عثمان علی خاں نے کرائی تھی جو سنگ مرمر کی ہے۔ اورنگ زیب کے مزار کے سرہانے ان کی مختصر تاریخ ولادت اور وفات درج ہے۔اسی احاطے میں دوسرے مزارات کے علاوہ ان کے شہزادے اعظم شاہ کی بھی قبر ہے، جنھوں نے اپنی ماں دلرس بیگم کی یاد میں اورنگ آباد میں بی بی کا مقبرہ تعمیر کرایا تھا، جسے چھوٹا تاج محل بھی کہا جاتا ہے۔
یوں تو فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں اورنگزیب کو ہندو دشمن قرار دے کر عرصے سے نشانہ بنارہی ہیں، لیکن اس بار وہ ایک پروپیگنڈہ فلم ’چھاوا‘ کے حوالے سے منظر عام پرآئے ہیں جس میں انھیں بھر پور نفرت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔اس فلم کے منظرعام پر آنے کے بعد اورنگ زیب کو بدی کی قوت ثابت کرنے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگایا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ مہاراشٹر اسمبلی میں سماجوادی پارٹی کے رکن ابوعاصم اعظمی کے ایک بیان کے بعد جو طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ابوعاصم اعظمی نے محض اتنا کہا تھا کہ’’اورنگ زیب کے دور اقتدار میں ہندوستان سونے کی چڑیا کہلاتا تھا اور اس کی سرحدیں برما اور افغانستان تک تھیں۔“اس بیان پر ان کی اس حد تک گھیرا بندی کی گئی کہ انھیں اپنا بیان واپس لینا پڑا۔ پھر بھی انھیں کسی ضابطہ کے بغیر اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے معطل کردیا گیا۔دراصل مہاراشٹر میں اس وقت بی جے پی کی مخلوط سرکار داخلی پرانتشارکا شکارہے۔ اس کے ایک وزیردھننجے منڈے کو ایک سرپنچ قتل کیس میں نام آنے پر مستعفی ہونا پڑا ہے۔ نظم ونسق کاحال یہ ہے کہ ایک خاتون مرکزی وزیر کو اپنی بیٹی کے ساتھ ہوئی چھیڑ چھاڑ کے خلاف خود تھانے میں جاکر ایف آئی آر درج کرانی پڑی ہے۔ایسے میں اصل مسئلہ سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے اورنگ زیب سے بہتر موضوع کون سا ہوسکتا تھا۔
جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے مسلم حکمرانوں کا نام ونشان مٹانے پر کمربستہ ہے۔ ان کی یادگاریں مٹائی جارہی ہیں اور ان کے ناموں سے موسوم جگہوں کے نام تبدیل کئے جارہے ہیں۔یہاں دہلی میں بی جے پی کے دوارکان پارلیمنٹ نے تغلق روڈ پر الاٹ کی گئی اپنی کوٹھیوں پر تغلق روڈ کے بجائے وویکانند روڈ لکھ دیاہے۔یہ کام نئی دہلی میونسپل کارپوریشن کی اجازت کے بغیر کیا گیا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اورنگ آباد ضلع کا نام تبدیل کرکے چھترپتی سمباجی نگر کردیا گیا ہے۔میں نے اپنے سفر کے دوران اس شہر میں سب سے بڑی تبدیلی یہ محسوس کی کہ جہاں جہاں اورنگ آباد لکھا ہوا تھا وہاں وہاں سیاہی پھیر کرچھترپتی سمبا جی نگر لکھ دیا گیا ہے۔چھترپتی سمباجی دراصل چھترپتی شیواجی کے بیٹے تھے، جنھیں اورنگزیب نے بوجوہ قتل کردیا تھا۔اورنگ زیب کی زندگی کا بیشتر حصہ جنوبی ہند کو فتح کرتے ہوئے گزرا۔ ان کی قلمرو میں ہندوستان کا سب سے زیادہ حصہ تھا۔انھوں نے ہندوستان پر تقریباً پچاس برس حکومت کی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک بادشاہ کے طور پرانھوں نے وہ سب کیا جو وہ اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے کرسکتے تھے۔ انھوں نے اپنے والد شاہجہاں کومعزول کرکے قید کیا۔ اپنے بھائی داراشکوہ کا اس کے فاسد عقیدے کی وجہ سے سرقلم کرادیا اور اس کا جسد خاکی بغیر سر کے ہمایوں کے مقبرے میں دفن ہوا، لیکن جہاں تک ان پر ہندو دشمنی کا الزام ہے تو اس کی تردید اس بات سے ہوسکتی ہے کہ انھوں نے اپنے دور میں کم ازکم سو مندروں کو جائدادیں عطا کیں اور بہتر نظم ونسق چلایا۔ یوں تو کئی غیر مسلم مورخین نے اپنی کتابوں میں اس کی نشان دہی کی ہے مگر میں یہاں مشہور مورخ بی این پانڈے کا حوالہ دینا چاہوں گا، جو ایک زمانے میں اڑیسہ کے گورنر تھے اور اپنے دور کی اہم علمی اورسیاسی شخصیت تھے۔اس وقت بی این پانڈے کی لکھی ہوئی ایک مختصر کتاب ”ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایات“ پیش نظر ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ 1988میں خدابخش لائبریری پٹنہ نے شائع کیا تھا، جو ایک سرکاری ادارہ ہے۔ اس کتاب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔وہ لکھتے ہیں:
”جس طرح شیوا جی کے متعلق انگریز مورخوں نے غلط فہمیاں پیدا کیں، اسی طرح اورنگ زیب کے متعلق بھی۔بچپن میں، میں نے بھی اسکولوں کا لجوں میں اسی طرح کی تاریخ پڑھی تھی اور میرے دل میں بھی اس طرح کی بدگمانی تھی۔ لیکن ایک واقعہ پیش آیاجس نے میری رائے قطعی بدل دی۔ میں تب الہ آباد میونسپلٹی کا چیئرمین تھا۔ تربینی سنگم کے قریب سومیشور ناتھ مہادیو کا مندر ہے۔ اس کے پجاری کی موت کے بعد مندر اور مندر کی جائیداد کے دو دعویدارکھڑے ہوگئے۔ دونوں نے میونسپلٹی میں اپنے نام داخل خارج کی درخواست دی۔ ان میں سے ایک فریق نے کچھ دستاویزیں بھی داخل کی تھیں۔ دوسرے فریق کے پاس کوئی دستاویز نہ تھی۔ جب میں نے دستاویز پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ وہ اورنگزیب کا فرمان تھا۔ اس میں مندر کے پجاری کو ٹھاکر جی کے بھوگ اور پوجا کے لیے جاگیر میں دو گاؤں عطا کیے گئے تھے۔ مجھے شبہ ہوا کہ یہ دستاویز نقلی ہیں۔ اورنگزیب تو بت شکن تھا۔ وہ بت پرستی کے ساتھ کیسے اپنے کو وابستہ کرسکتا تھا؟ میں اپنا شک رفع کرنے کے لیے سیدھا اپنے چیمبر سے اٹھ کرسر تیج بہادر سپرو کے یہاں گیا۔ سپرو صاحب فارسی کے عالم تھے۔ انھوں نے فرمان کو پڑھ کر کہا کہ یہ فرمان اصلی ہیں۔ میں نے کہا ”ڈاکٹر صاحب، عالمگیر تو مندر توڑتا تھا، بت شکن تھا، وہ ٹھاکر جی کے بھوگ اور پوجا کے لیے کیسے جائیداد دے سکتا ہے؟“سپرو صاحب نے منشی کو آوازدے کر کہا ”منشی جی، ذرا بنارس کے جنگم باڑی شیو مندر کی اپیل کی مثل تو لاؤ۔“
منشی جی مثل لے کر آئے توڈاکٹر سپرو نے دکھایا کہ اس میں اورنگ زیب کے چار فرمان تھے جن میں جنگموں کو معافی کی زمین عطا کی گئی تھی۔ڈاکٹر سپرو ہندوستانی کلچر سوسائٹی کے صدر تھے، جس کے عہدے داروں میں ڈاکٹر بھگوان داس، سید سلیمان ندوی،پنڈت سندر لال اور ڈاکٹر تارا چند تھے۔ میں بھی اس کا ایک ممبر تھا۔ ڈاکٹر سپرو کی صلاح سے میں نے ہندوستان کے خاص خاص مندروں کی فہرست مہیا کی، اور ان سب کے نام یہ خط لکھا کہ اگر آپ کے مندروں کو اورنگزیب یا مغل بادشاہوں نے کوئی جاگیر عطا فرمائی ہو(خصوصاً اورنگزیب)تو ان کی فوٹو کاپیاں مہربانی کرکے بھیجیں۔ دوتین مہینے کے انتظار کے بعدہمیں مہاکال مندراجین،بالا جی مندرچترکوٹ، کاماکھیہ مندر گوہاٹی، جین مندر گرنار، دلواڑا مندر آبواورگرودواررام رائے دہرہ دون وغیرہ سے اطلاع ملی کہ ان کو جاگیریں اورنگ زیب نے عطا کی تھیں۔ مورخوں کی تاریخ کے مطابق ایک نیا اورنگ زیب ہماری آنکھوں کے سامنے ابھر آیا۔“(’ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایات‘ صفحہ17اور 18،ناشرخدابخش اورینٹل لائبریری، پٹنہ)
بی این پانڈے کی کتاب سے لیا گیا یہ اقتباس اورنگ زیب کے اصل کردار کو واضح کرتا ہے۔ یہ حوالہ اتنا مضبوط اور موثر ہے کہ اس کے بعد کسی دوسرے حوالے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس وقت ملک میں جو ماحول ہے، وہاں کوئی عقل کی بات سننے والا ہی نہیں ہے۔ سب کچھ جھوٹ اور نفرت کی بنیاد پر ہورہا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا، کیونکہ اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح اس ملک کی تاریخ و تہذیب سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹایا جائے۔اس مہم کا سب سے بڑا نشانہ مسلم حکمراں اور ان کی بنائی ہوئی عمارتیں ہیں۔