حضرت جمالی کی شان امتیازی:ا ردوزبان وادب کے حوالے سے
از:- عین الحق امینی قاسمی
اردو منزل،خاتوپور ،بیگوسرائے
ہندستان کو اپنے جن علماء ربانیین پر فخر حاصل ہے اور جنہوں نے ملک کے ایک کامیاب شہری اورمحب وطن کی حیثیت سے علم وادب کی آبیاری کی ہے،ان میں ایک ممتاز نام حضرت مولانا محفوظ الرحمان شاہین جمالی رحمۃاللہ علیہ کا بجا طور پر نام لیا جاسکتا ہے ،جنہوں نےعالم دین ،محدث،مفسر،شاعر،ادیب،پیر ومرشد اور چترویدی کے طور پر شہرت پائی تھی۔ ان کی حیات مستعار کی یوں تو کئی جہتیں ہیں ؛مگر زیر نظر تحریر میں ان کی ادبی خدمات کے حوالے سے ذکر خیر کی سنجیدہ کوشش کی جائے گی تاکہ نئی نسل،حضرت کی ادبی خدمات اور فکر ونظر کی گہرائیوں کو جان سکے، نئی پود کو یہ بھی معلوم ہو کہ ہمارے اکابرین میں بالخصوص حضرت شاہین جمالی رحمہ اللّٰہ نے ملک و بیرون ملک نہ صرف اپنے اسلاف سے حاصل شدہ مذہبی روایات کو فروغ دیا ہے ،بلکہ اپنے نثر ونظم اور قلمی کاوشات کے ذریعہ اردوزبان وادب کوبھی امتیازی جہت بخشنے کا کام کیا ہے۔
حضرت کے تعلق سے عام طور پر جدید فضلا صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ ایک جید عالم دین تھے، جب کہ سچائی یہ ہے کہ ان میں بیک وقت کئی رنگ تھے ،وہ وقت کے مسند نشیں محدث بھی تھے،تفسیر قرآن کریم میں وہ بحیثیت مفسر کنہیات تک پہنچنے کی کامیاب کوشش فرماتے تھے،وہ زمانہ شناس پیر و مرشد بھی تھے ،جن سے بیمار دل کو سکون جاں میسر آتارہا ،ان کے اندر بہت بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ دیگر دھرموں کے گرنتھوں کی گہرائی کے جان کار ہی نہیں ،بلکہ مدمقابل کو قائل کر لینے اور رام کردینے کی خوبیوں سے بھی بدرجہ اتم مالامال تھے۔ ان کی بہت سی تصنیفات نے زمانے کے اندھیروں کو روشنی بخشنے میں کردار ادا کیا ہے ،تاہم "کیا اسلام پر اعتراض ہے ” نے بہت سے کمزور افکار وخیال کو راہ مستقیم فراہم کیا اور کج فہمی کو راست فہم وشعور کی دولت بخشی۔مولانا عبد الجبار سابع قاسمی زید مجدہ نے مذکورہ کتاب کے حوالے سے ایک جگہ لکھا ہے :
"اسلام پر جدید ذہن کے شبہات اور غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے ایسی مکمل تحقیقی کتاب جو اپنے موضوع پر اب تک کی شائع شدہ تمام کتابوں سے منفرد خصوصیات کی حامل ہے۔ تقابلی مطالعہ اور علوم جدیدہ کے تازہ حقائق و انکشافات کے ساتھ تورات ، زبور، انجیل، وید ، اتھروید ، سام وید ، یجروید، گیتا ، رامائن کی اصل عبارتوں کے حوالے سےقاری کو معلومات کی نئی دنیا میں (یہ کتاب ) پہنچا دیتی ہےاور دل کو یقین واطمینان سے لبریز کر دیتی ہے۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اب تک اس کے دس سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اردو ، ہندی ، گجراتی اور انگلش میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں”
اردو زبان وادب میں مولانا کی درجن بھر سے زائد کتابیں ہیں ،جن میں تین طلاق علم وتحقیق کے اجالے میں ۔دارالعلوم کی تاریخ سیاست۔دیوبند کے چند بزرگ اور ہم عصر۔انقلاب توحید۔رضا خانی ترجمہ قرآن کا تقابلی مطالعہ۔غیر اسلامی مذاہبِ کے اسلامی احکام۔مساجد میں عورتوں کی نماز۔شیخ شیرازی اور ان کی شان امتیازی۔فتاوی عصریہ ودلائل شرعیہ۔ازالۃالخفا عن الذبح للشفا۔المسک الذکی علی جامع الترمذی وغیرہ ایسی مستند کتابیں ہیں ،جن پر اکابرین نے زبان وادب اور استدلالات وصداقت کی مہر ثبت کی ہے۔ یہ وہ کتابیں ہیں جو نہ صرف زبان وادب کی شاہکار ہیں ،بلکہ مصنف نے موضوع کا حق اداکر حقائق وواقعات کو واضح کرنے کی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں،جب کہ بہت سی دستاویزی اور قیمتی غیر مطبوعہ کتابیں مکتبہ نعیمیہ دیوبند کی ملکیت میں موجود ہیں جوآنے والے ماہ وسال میں جلدیا بدیر شائع ہوکر یقیناً دادتحسین حاصل کریں گی۔
حضرت مولانا نے شاعری میں طبع آزمائی کاآغاز تعلیم کے بعد سے ہی شروع کردیا تھا ،تاہم مولانا جمال احمد خستہ کی شاگردیت قبول کرنے کے بعد آپ نے صنف سخن وری میں مضبوطی سے قدم رکھا ،مولانا جمال احمد خستہ آپ کے ادب نواز استاذ رہے ہیں جن سے آپ نے بہ طور خاص شعر وشاعری کی دنیا میں ایک مقام حاصل کیا ،آپ نے شاگردیت کو جاودانی عطاکرنے کی غرض سے اپنا تخلص ہی "جمالی” رکھ لیا جب کہ مزید "فرزند خستہ” نے "شاہین” لقب عطا کر آپ کی "شہرت ومعروفیت "کو چار چاند لگا دیا۔آپ کے کلام میں جمالیات کا پہلو نمایاں ہے اور یہ چیزیں بیان وخطابت میں بھی محسوس کی جاتی تھیں،ایک عرصے تک آپ نے اردو زبان میں خطابت کو امتیاز بخشا ،آپ کی گفتگو عام عوام کے علاوہ خواص کے لئے بھی معلومات کا خزینہ ہوتی تھی،مختلف پہلوؤں سے مجلس کو کامیاب بنا دینا آپ کا امتیاز رہا ،بالخصوص زبان کی چاشنی ،فکری وسعت اور الفاظ کے زیر وبم سے مجلس کا اصلاحی رنگ گہرا رہتا تھا۔
حضرت مولانا نے زمانہ طالب علمی میں دارالعلوم دیوبند کے کے اندر "پرواز ” کے نام سے ایک دیواری پرچہ جاری کیا تھاجو آج تک پابندی سے شائع ہوکر طالبان علوم نبوت کو سیراب کررہا ہے ۔اس طرح تاحیات انہوں نے قلم قرطاس کو ہم آہنگ رکھا،اور ہمیشہ وہ کچھ نہ کچھ نیا کرنے کا کارنامہ انجام دیتے رہے ۔چنانچہ مدرسہ اصغریہ دیوبند میں تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ "ماہنامہ اتباع سنت ” پابندی سے نکالتے رہے ،اتباع سنت کی اشاعت نے آپ کے جو ہر قلم کو آشکارا کیا اور خوبصورت نثر میں آپ کی دیدہ وری سے قارئین اسیر ہوتے رہے۔ میرٹھ قیام کے قبل سے آپ نے ایک دوسرا رسالہ” دیوبند ٹائمس "کے نام سےوہیں دیوبند سےجاری کیا تھا ،جس کی ادارت کی ذمہ داری بھی تقریباً چالیس سال تک بخوبی نبھاتے رہے ،ان کا ادارتی مضمون دیوبند ٹائمس کا مقبول وپسندیدہ کالم ہواکرتاتھا ،جس کا قارئین کو شدت سےانتظار رہتا،اگر صرف ادارتی مضامین اور رشحات کو جمع کردیا جائے تو اردو ادب کا شہ پارہ کئی ضخیم جلدوں میں تیار ہوسکتا ہے۔
اخیر میں حرف آخر کے طور پر حضرت مولانا شاہیں جمالی کے منظوم کلام کی معنویت وآفرینت کا عکس بھی ملاحظہ فرمائیں:
خوف و وحشت کا ہے عفریت مسلط سب پر
پھر بھی ظلمت حالات سے مایوس نہیں
ہے یقیں مجھ کو یہ ٹوٹے گا طلسم شب تار
ان اندھیروں سے اجالوں کی کرن پھوٹے گی
وقت کی فرعونیت اور گپ اندھیروں سے مولانا کبھی مایوس نہیں ہوئے ،بلکہ انہوں نے مظلوموں کو حوصلہ دیا اور دنیا کے ظالموں کو یہ بتایا کہ
جھوٹ اک برف کی سل ہے جو پکھل جائے گی
ظلم چڑھتا ہوا دریا ہے اتر جائے گا
حق و انصاف کا جب نور سحر پھیلے گا
خود وجود شب تاریک بکھر جائے گا
مولانا جمالی کا کمال ہنر مندی کہئے کہ انہوں نے باتوں بات میں کاری ضرب لگا کر جفاکاروں کی نہ صرف خبر لی ہے ،بلکہ وقت کے فرعون کو موسی کے آنے کی خبر بھی دی ہے:
وقت کافرعون ہو مغرور و جفا کار بھی ہو
کس طرح ضرب عصاء سے بھلا بچ پائے گا
جب بھی باطل کے اندھیروں کا تسلط ہوگا
کوئی موسیٰ ید بیضاء لئے آجائے گا
غرض!یہ اور اس طرح کے بہت سے نمونہ کلام ہیں جن سے مولانا کی ندرت پسندی ،ہنر مندی ،اقبال مندی اور صنف شاعری کا عروج نظر آتا ہے. مولانا شاہین جمالی کی
ادبی خدمات ،ایک مستقل باب ہے ،ان کی زندگی کا یہ پہلو بھی دیگر پہلوؤں کی طرح درخشاں ہے ،ضرورت ہے کہ ان کی ادبی خدمات کو سامنے لایا جائے تاکہ نئی نسل ان سے فیض یاب ہوسکے۔