از:- (مولانا ڈاکٹر ) ابوالکلام قاسمی شمسی
بھارت ایک جمہوری ملک ہے، جس میں ائین کی حکومت ہے ، اور ائین کو بالادستی حاصل ہے ، بھارت کے ائین کے دفعہ 25 /اور 26 / میں اقلبیتوں کو مذہبی ازادی اور دفعہ 29/ اور 30 / میں اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور اپنی پسند کے ادارے قائم کرنے اور ان کو چلانے کی ازادی دی گئی ہے ، اسی کے تحت ملک کی تمام اقلیتوں نے مذہبی تعلیم کے لیے ادارے قائم کیے ہیں ، اور ان کو چلا رہے ہیں ، مسلم اقلیت کے لوگوں نے بھی اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں اور ان کو چلا رہے ہیں ، ان ہی تعلیمی اداروں میں سے مدارس بھی ہیں ، وہ ادارے جہاں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے ، ایسے تعلیمی ادارے کو مدارس کہتے ہیں ، اس طرح ہندوستان کے دینی مدارس ملک کے ائین کے مطابق ہیں ،اور آئین کے دائرے میں تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں
بھارت کی ازادی کے بعد یہاں تعلیم سے متعلق دو ایکٹ نافذ کیے گئے ، ایک رائٹ ٹو ایجوکیشن اور دوسرا نئی تعلیمی پالیسی ، رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کے بہت سے دفعات ایسے تھے ، جن کی وجہ سے اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کو مدارس چلانے میں دشواری آسکتی تھی ، چنانچہ اکابر علماء نے اس جانب توجہ دی ،اور ان کی کوششوں سے حکومت نے مدارس اسلامیہ کو رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ سے مستثنی قرار دیا ، چنانچہ مدارس اس ایکٹ سے مستثنی ہیں ، جبکہ نئی تعلیمی پالیسی میں مدارس کا کوئی ذکر نہیں ہے
موجودہ وقت میں ملک میں مسلم سماج کے درمیان دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت کے لئے دو قسم کے مدارس چل رہے ہیں ، ایک وہ مدارس ہیں جو کسی مدرسہ بورڈ سے ملحق ہیں اور مدرسہ بورڈ ایکٹ کے مطابق ان کا نصاب اور ان کا نظام چل رہا ہے ، ایسے مدارس حکومت کے تعاون سے چلتے ہیں ، جبکہ دوسرے قسم کے وہ مدارس ہیں جو ازاد ہیں ، حکومت سے تعاون نہیں لیتے ہیں اور نہ کسی بورڈ سے ملحق ہیں ، یہ آزادانہ طور مسلمانوں کے تعاون سے چلائے جارہے ہیں
رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ اور نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے بعد آزاد مدارس کے ذمہ داروں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ائندہ مدارس کو چلانے میں دشواری آسکتی ہے ، اس لیے انہوں نے وقت سے پہلے تیاری شروع کردی تھی ، ملک کے ائین میں دیئے گئے حقوق کے علاوہ اکثر مدارس کے ذمہ داروں نے ضرورت کے مطابق اپنے مدارس کے نظام اور اس کے نصاب کو درست کیا ، ساتھ ہی ساتھ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ اور ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق مدارس کا رجسٹریشن کرایا ، تاکہ کسی طرح کی کوئی پیچیدگی سامنے نہ آئے ، اس کے باوجود بعض اسٹیٹ میں مدارس حکومت کے نشانے پر ہیں ، بہت سے مدارس جو کسی مجبوری کی وجہ سے رجسٹریشن نہیں کرا سکے ، بعض صوبہ کی حکومت ایسے مدارس کو غیر قانونی قرار دے کر ان کو بند کر رہی ہے ، یہی نہیں ، بلکہ بہت سے مدارس پر تالے لگا دیئے گئے ہیں ، یہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے، کیونکہ ملک کا آئین مدارس کو چلانے کی اجازت دیتا ہے ، اور غیر رجسٹرڈ کو غیر قانونی قرار دینا ملک کے آئین کے خلاف ہے
ایسے وقت میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ذمہ داران مدارس اس جانب توجہ دیں ، جو مدارس رجسٹرڈ نہیں ہیں ، ان کا رجسٹریشن کرا ئیں ، ایسے مدارس جو رجسٹرڈ ہیں ، پھر بھی ان کے ساتھ غلط رویہ اختیار کیا جارہا ہے ، تو ذمہ داران مدارس کا وفد محکمہ تعلیم کے افسران اور دیگر اعلی ذمہ داران سے ملاقات کر کے میمورنڈم دیں ، ساتھ ہی ظلم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا بھی حق ہے ، اس لئے ذمہ داران مدارس عدالت سے رجوع اور قانونی چارہ جوئی کریں ، حوصلہ سے کام لیں ، نیز ملکی ضابطہ کے مطابق جو کمی ہو اس کو دور کرنے کی جانب توجہ دی جائے ، ہمیں چاہیے کہ ہم ہر موقع پر حوصلہ سے کام لیں ، پریشان نہ ہوں ، بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں ، اللہ تعالی مدارس کی حفاظت فرمائے ، جزاکم اللہ خیرا