از:- سرفرازاحمد قاسمی حیدرآباد
مذہب اسلام،امریکہ سمیت دنیا بھرمیں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پھیل رہا ہے اور یکے بعد دیگرے اسلام کے مغرب و یورپ کے علاوہ دیگر ممالک میں انتہائی تیزی کے ساتھ پھیلنے کے واقعات مسلسل سامنے آتے رہے ہیں اور اب تک غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد مشرف بہ اسلام ہوچکی ہے اور قبول اسلام کا یہ سلسلہ تمام عالم میں آج بھی پورےآب وتاب کے ساتھ جاری و ساری ہے،آئے دن مختلف ممالک کے مختلف شہروں سے اسلامو فوبیا کی خبریں وقتا فوقتا آتی رہتی ہیں جو بڑی تکلیف دہ ہوتی ہیں،ایسے میں دیگر مذاہب کو چھوڑکر اسلام کے دامن میں پناہ لینے کی خبر اگر میڈیا کے ذریعے آنے لگے تو یہ انتہائی خوش کن اور حوصلہ بخش ہیں،ہندوستان سمیت عالمی طاقتیں جس طریقے سے اسلام اور مسلمانوں پر یلغار کررہی ہیں اور مسلمانوں کو پریشان کرنے،خوف و دہشت میں مبتلا کرنے اور دوسرے نمبر کا شہری بنانے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں، ایسے میں اسطرح کی خبروں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے،گذشتہ دنوں امریکہ سے یہ خبر آئی کہ کینیڈا براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی سیریز’ دی اسٹیٹ آف اسٹریچوئلٹی ود لیزا’ میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ وہاں قیدیوں میں آخر اسلام کیوں کر اتنا مقبول ہو رہا ہے؟ سی بی سی نے طیبہ فاؤنڈیشن کے بانی ڈائریکٹر رامی نسور سے بات کی یہ تنظیم امریکی جیلوں میں قیدیوں کے لئے فاصلاتی تعلیم کا پروگرام فراہم کرتی ہے،رامی نسور نے بتایا کہ ہم نے تقریبا 15 سال پہلے اس تنظیم کا آغاز کیا تھا،کیونکہ یہ وہ بنیادی ضرورت تھی جس کا قیدی بارہا مطالبہ کرتے رہے تھے، طیبہ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر نے مزید بتایا کہ اسلام،امریکہ کی جیلوں میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب ہے،انہوں نے کہا کہ ہم نے 13 ہزار سے زائد افراد کو تعلیمی اور تربیتی مواد فراہم کیا،جن میں سے تقریبا 90 فیصد نے اسلام قبول کیا اور بیشتر نے جیل میں رہتے ہوئے یہ کام کیا، رامی نسور کا کہنا ہے کہ جیل میں جسمانی اور روحانی طور پر قید ہونے کی وجہ سے بہت سے قیدی اسلام کو اپنا کر روحانی آزادی حاصل کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں نظم و ضبط کا ایک طریقہ کار ہے، جیسے پانچ وقت کی نمازیں ہیں، سی بی سی نے اسلام قبول کرنے والے ایسے ہی ایک قیدی سے بھی بات کی،محمدامین اینڈرسن کو 30 سال قید کی سزا ہوئی تھی اور انہوں نے ایک سال بعد یعنی دوسرے سال ہی اسلام قبول کرلیا تھا،محمد امین نے بتایا کہ جب میں جیل آیا تھا، تو میں نے اپنی انسانیت کھودی تھی،میں حیوان تھا لیکن جیل میں آ کر میں نے اپنی انسانیت کو دوبارہ حاصل کیا اور اس کا سہرا اسلام کو جاتا ہے،اسلام قبول کرنے والے قیدی امین فیلڈیلفیا کے رہائشی اور ایک پادری کے بیٹے تھے،لیکن نوجوانی میں ہی منشیات کی لت میں مبتلا ہو گئے تھے،بعدازاں وہ ایک گینگ کا حصہ بن گئے اور قتل جیسا ہولناک جرم بھی کیا،گرفتار ہوئے اور 30 سال قید کی سزا کاٹنے جیل پہنچے،جہاں انہیں اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع ملا اور انہوں نے اپنی زندگی ایمان اور روحانیت پر غور کرنا شروع کیا تو اسلامی تعلیمات میں ذہنی جسمانی اور روحانی سکون پایا،محمد امین نے اسلام قبول کرنے میں دیر نہیں لگائی اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے اور اب وہ دوسرے قیدیوں کو اسلام کی حقانیت سے روشناش کرا رہے ہیں،عہد جدید میں بھی ایسے کئی خوش نصیبوں کی مثالیں ملتی ہیں جنھیں رب تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے اسلام کی نعمت سے مالامال کیا،محمد علی باکسر اوریوسف یوحنا (محمد یوسف) کی مثالیں تو اب پرانی ہوگئیں،حال ہی میں جورام وین کلیورن (Klaveren Van Joram) پر جب اسلام کے حقائق منکشف ہوئے اور حقیقتیں آشکار ہوئیں تو اسلام مخالف کتاب لکھنے والا ہالینڈ کا یہ سیاستدان بھی مسلمان ہوگیا اور ہالینڈ کی سب سے بڑی مسلمان مخالف سیاسی جماعت کے سابق رکن نے اسلام قبول کرلیا،جورام وین کلیورن نیدر لینڈ کی دائیں بازو کی سب سے بڑی انتہا پسند جماعت کے دوسرے سیاستدان ہیں جو مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ اسلام مخالف جذبات کی حامل ڈچ سیاسی جماعت ”پارٹی فار فریڈم ” کے سربراہ گیرٹ وائلڈرز ہیں جنھوں نے رحمۃ اللعالمین، محسن انسانیت ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کرانے کا اعلان کیا تھا۔ وین کلیورن اپنے لیڈر گریٹ وائلڈرز کے دست راست اور پارٹی آف فریڈم سے رکن اسمبلی تھے،40 سالہ وین کلیورن نے سات برس تک اسمبلی میں اسلام مخالف بل پیش کیے اور مہم چلائی جن میں برقعہ سمیت دیگر اسلامی روایات پر پابندی عائد کرنا بھی شامل ہے۔ وین کلیورن سے قبل اسی سیاسی جماعت کے رکن آرناڈوارن ڈرون نے اسلام قبول کیا تھا۔
گزشتہ رمضان میں برطانیہ جیسے ملک میں ایک تاریخ رقم کی گئی،شاہی قلعہ ونڈ سرکیسل کی ہزار سالہ تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کےلئے افطار کا اہتمام کیا گیا،مسلم ممالک کی طرح مغربی دنیا میں بھی رمضان المبارک جیسے مقدس ماہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے،امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی غیر مسلم ممالک کے سربراہان مملکت کی جانب سے مسلمانوں کےلئے افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے،برطانیہ میں شاہی قلعہ ونڈ سرکیسل کی تاریخ ہزار سال سے زائد طویل ہے اور اس ہزار سالہ تاریخ میں یہاں پہلے کبھی افطار پارٹی نہیں ہوئی تھی،تاہم گزشتہ روز یہ تاریخ بھی رقم ہو گئی اور اس ونڈ سرکیسل میں پہلی بار مسلمانوں کے لئے افطار کا اہتمام کیا گیا،برطانوی میڈیا کے مطابق صدیوں پرانے اس قلعے میں افطار کے لئے سینٹ جارج ہال میں دریاں اور سفید چادریں بچھانے کے بعد دسترخوان بچھائے گئے تھے،یہ ہال سرکاری مہمانوں کےلئے مختص ہے،دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے اورمشروبات رکھے گئے تھے،اس تاریخی افطار ڈنر میں تقریبا 350 مسلمان شریک تھے، افطار سے قبل ونڈ سرکیسل کی فضا میں پہلی بار اذان مغرب کی مشہور کن صدا بھی گونجی،اذان کی آواز سنتے ہی روزہ داروں نے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے کھجوروں سے روزہ کھولا،اس افطارپارٹی کا اہتمام ایک چیریٹی ادارے کی جانب سے کیا گیا تھا،جس کا مقصد مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے،مسلمان شرکا نے شاہی قلعے میں افطار کی اجازت دینے پر شاہ چارلس کا شکریہ ادا کیا،دوسری جانب امریکی صدارتی محل وائٹ ہاؤس میں بھی افطار پارٹی اب ایک روایت بن چکی ہے،اس کی بنیاد آج سے 220 سال قبل امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفر سن نے رکھی تھی انہوں نے 1805 میں وائٹ ہاؤس میں پہلی بار مسلمان صومالی سفیر کےلئے ماہ رمضان میں افطار کا اہتمام کیا تھا،اور عشائیہ بھی دیا تھا،عید اور تہوار کے موقع پر تقریبات کے انعقاد سے حکومتیں اپنے موقف یا یکجہتی کا اظہار کرتی رہی ہیں،امریکہ کے وائٹ ہاؤس میں اسی مقصد کے تحت افطار پارٹی کی دعوت دی جاتی رہی ہے،2017 میں امریکی صدر کی طرف سے وائٹ ہاؤس میں دی جانے والی افطار پارٹی کی روایت کو ڈونالڈ ٹرمپ نے توڑ دیا تھا،ان کے افطار پارٹی نہ دینے پر اندرون امریکہ بھی مذمت ہوئی تھی اورغالبا بیرون امریکہ بھی،اس کے بعد ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ افطار پارٹی محض چند لوگوں کا اجتماع نہیں ہے،اس سے امریکی حکومت یہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے کہ اس کےلئے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی یکساں اہمیت ہے،اسی لیے ٹرمپ نے 2018 میں افطار پارٹی دی،2019 میں بھی دی،جبکہ اس بار صدارت کےلئے پہلے ہی سال میں ان کی طرف سے وائٹ ہاؤس میں افطار پارٹی دی گئی،اس موقع پر ٹرمپ نے صدر امریکہ کی حیثیت سے جو کچھ کہا وہ امریکی مسلمانوں کے لیے باعث اطمینان ہوگا،البتہ ان کے امریکہ کی غزہ پالیسی کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ گئی کہ ٹرمپ کی اسرائیل پالیسی بدلی نہیں ہے،وہ خود کو اسرائیل کا بہی خواہ ثابت کرنے کا کوئی موقع چھوڑیں گے نہیں،چاہے ان کی جگ ہنسائی ہی کیوں نہ ہو،27 مارچ 2025 کو امریکہ کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے وائٹ ہاؤس میں دی گئی افطار پارٹی میں مسلم طبقے کی مؤثر شخصیات،سفارت کاروں اور سرکاری افسران نے شرکت کی تھی،جبکہ کچھ مسلم پارٹیوں نے اسکا بائیکاٹ بھی کیاتھا،جس میں ٹرمپ بہ نفس نفیس موجود تھے،انہوں نے افطار پارٹی میں شامل مسلمانوں کو’رمضان مبارک میرے مسلم دوستو!’ کہہ کر مخاطب کیا اور یہ کہا کہ’ نومبر میں مسلم طبقہ ہمارے ساتھ تھا اور جب تک میں صدر ہوں میں آپ کے ساتھ رہوں گا،ان کا یہ کہنا واقعی بڑی بات ہے یہ سچ ہے کہ نومبر 2024 میں امریکہ کے صدارتی انتخاب میں کملا ہیرس سے ان کی زبردست مقابلہ آرائی تھی، کملا کی جیت زیادہ ممکن نظر آرہی تھی، ٹرمپ ایک ایک ووٹ حاصل کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد کررہے تھے،اس وقت غزہ جنگ پر صدر بائیڈن کی پالیسی سے امریکہ کے مسلمان دلبرداشتہ تھے،امن پسند امریکی بھی یہ چاہتے تھے کہ جنگ ختم ہو،حماس کے حملوں کی سزا عام فلسطینیوں کو نہ دی جائے مگر جنگ کو ختم کرنے کے سلسلے میں کملا ہیرس کا کوئی واضح موقف نہیں تھا،اس لیے امریکہ کے مسلمانوں اور امن پسند لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی تھی کہ کملا ہیرس کے صدر بن جانے کے بعد غزہ جنگ پر بائیڈن کی پالیسی جاری رہے گی،بلکہ بائیڈن کی پالیسی کی یہ توسیع ہوگی،جبکہ ٹرمپ نے کھل کر یہ بات کہی کہ وہ غزہ جنگ ختم کرائیں گے کوئی نئی جنگ شروع نہیں کریں گے اس سے امریکہ کے مسلمانوں اور امن پسند لوگوں کا جھکاؤ ان کی طرف ہو گیا اور پھر صدارتی انتخابات میں ان کی جیت آسان ہو گئی جیتنے کے بعد ٹرمپ نے اپنے پہلے خطاب میں امریکی مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا،یہ ان کی طرف سے پہلا اشارہ تھا کہ امریکی مسلمانوں کے تئیں ان کی نفرت کی پالیسی پچھلی مدت صدارت کی طرح اس بار کی مدت صدارت میں باقی نہیں رہے گی کیونکہ وقت پڑنے پر اس کے باوجود مسلمانوں نے ان کا ساتھ دیا کہ پچھلی بار وہ ان کا دل ہی زیادہ دکھاتے رہے تھے،ٹرمپ نے افطار پارٹی میں کہا ہر دن ہم مسلم طبقے سے کئے گئے وعدوں کو پورا کر رہے ہیں، میری حکومت تاریخی ابراہم سمجھوتے پر مبنی مشرق وسطی میں مستقل امن قائم کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے،اس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ابراہم سمجھوتے کے سلسلے میں کوئی نئی پیشرفت ہو سکتی ہے،ممکن ہے اسے غزہ جنگ کے خاتمے سے مشروط کر دیا جائے،تاکہ جو نیا فریق سمجھوتے سے وابستہ ہو،اس کی مسلم دنیا میں اچھی امیج برقرار رہے،مگر یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا سعودی عرب ابراہم سمجھوتے سے وابستہ ہونے کے لئے تیار ہو جائے گا؟ خیر وائٹ ہاؤس میں پہلی افطار پارٹی تیونس کے سفارت کاری سیدی سلیمان میلی کو امریکہ کے صدر تھامس جیفرسن نے 1805 میں دی تھی،نئے سرے سے افطار پارٹی دینے کی ابتدا 1996 میں بل کلنٹن نے کی،اس کے بعد سے یہ سلسلہ جاری ہے،بس صرف 2017 میں افطار پارٹی نہیں دی گئی تھی، 9/11 کے بعد بھی وائٹ ہاؤس میں افطار پارٹی ہوتی رہی، جونیئر بش کا ماننا تھا کہ یہ افطار پارٹی ضروری ہے کیونکہ اس سے یہ اشارہ دینے کا موقع ملتا ہے کہ امریکہ کی جنگ دہشت گرد تنظیموں سے ہے اسلام سے نہیں ہے۔
ٹرمپ کے وعدے کے مطابق ابھی تک غزہ میں جنگ بندی نہیں ہو سکی ہے،مذاکرات جاری ہیں اور اسی درمیان اسرائیل کی بربریت اور حیوانیت بھی جاری ہے،ابھی تک جنگ بندی کے امکانات موہوم ہیں،ٹرمپ اسرائیل کی بربریت پر نکیل کس کر غزہ میں جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں یاوہ اس جنگ کو مزید طول دیتے ہیں آگے یہ دیکھنا ہوگا۔
بھارت میں ملک کو درپیش معاشی مسائل اور معیشت کے نقصانات پر بات کرنے کے بجائے فرقہ پرستی کو ہوا دیتے ہوئے عوام کو الجھایا جارہاہے،معاشی عدم استحکام کے باوجود مرکزی حکومت کی جانب سے ان مسائل سے نمٹنے کے بجائے غیراہم مسائل پر توجہ دی جا رہی ہے،اور عوام کو منقسم کرنے کے منصوبے پر عمل کیا جارہا ہے ہندوستان میں وقف بل اورنگزیب اور دیگر فرقہ وارانہ مسائل سے زیادہ اہم مسئلہ ملک کی گرتی معاشی صورتحال ہے لیکن حکومت خاموش ہے،اور خاموشی کے ساتھ ملک کے خالی خزانوں کو بھرنے بیرونی کمپنیوں کو منمانی مراعات کی فراہمی میں مصروف ہے،ایسے مسائل کی پشت پناہی کی جا رہی ہے جس سے مسلمانوں سے نفرت میں اضافہ ہو،اسلامو فوبیا کا زور ہو اور مسلمانوں سے زیادہ سے زیادہ نفرت پیدا کی جائے،ان حالات میں اگر امریکہ سمیت پوری دنیا سے اتنی بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنے کی یہ رپورٹ آرہی ہے تو یہ غیرمعمولی ہے، ہمیں مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے،متحد ہوکر ہمیں مذہب کے تئیں حساس،مضبوط اور سنجیدہ ہونا ہوگا،اپنے مذہب کی تعلیمات پرخود بھی پورا پورا عمل کرنا ہوگا اور بڑے پیمانے پراسکی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا،برادران وطن تک اسلام کا صحیح اور درست پیغام پہونچانا ہوگا،تاکہ جو لوگ ابھی ہمارے دشمن ہیں یا دشمن بنائے جا رہے ہیں وہ لوگ بھی آج نہیں تو کل اسلام کے دامن میں ضرور پناہ لیں گے،لیکن اس سے پہلے ہمیں یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ کیا ہم بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں اوراسکے تقاضوں کو پورا کررہے ہیں؟؟؟
(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)