پانی: نعمت بھی، امانت بھی

از:- مولانا مفتی محمد اعظم ندوی

پانی… یہ محض ایک بے رنگ سیال نہیں، بلکہ زندگی کی خاموش نبض ہے، جو ہر شے میں دھڑکتی ہے، یہ قدرت کا وہ نغمہ ہے جو بادلوں کے ساز پر بجتا ہے، زمین کی کوکھ سے ابھرتا ہے، اور ہر جاندار کے وجود میں اثر انداز ہوتا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جو ہر وقت ہماری نگاہ کے سامنے رہتی ہے مگر افسوس، شعور کی آنکھ سے اوجھل ہے، اگر یہ ایک لمحے کے لیے رُک جائے، تو زمین کے سینے پر سانس لینا دشوار ہو جائے، بستیوں کے چراغ بجھ جائیں، تہذیبیں ماضی کی قبروں میں دفن ہو جائیں، اور جب یہی پانی اترتا ہے تو صحرا نخلستان بن جاتے ہیں، ویران میدان گلزاروں میں ڈھلتے ہیں، اور مردہ زمین زندہ ہو اٹھتی ہے، قرآن کہتا ہے:
"اور تم دیکھتے ہو کہ زمین مرجھائی ہوئی پڑی ہے، پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ حرکت میں آتی ہے، اس میں بڑھوتری ہوتی ہے، اور وہ ہر قسم کی خوشنما چیزیں اگاتی ہے” (الحج:5)

قرآن مجید میں اور بھی متعدد مقامات پر پانی کی اہمیت اور اس کی معنوی افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا” (الأنبیاء: 30)، یہ محض ایک دینی بیانیہ نہیں بلکہ ایک سائنسی صداقت بھی ہے، جدید علم الحیات کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہر جاندار کی ترکیب میں ایک خاص لطیف مادہ پایا جاتا ہے، جسے نخز مایہ اور پروٹو پلازما protoplasm کہتے ہیں، یہ وہ بنیادی جوہر ہے جس سے خلیے بنتے ہیں، اور جس کی ساخت کا بڑا حصہ پانی پر مشتمل ہے، گویا پانی محض بیرونی زندگی ہی نہیں، بلکہ اندرونی وجود کا بھی جوہر ہے، بعض مفسرین نے "پانی” کی تفسیر میں اسے نطفۂ حیات حیاتی مادہ seminal fluid قرار دیا ہے، اور بعض نے اسے پروٹو پلازما کے وسیع مفہوم میں دیکھا ہے۔ طبِ جدید اور علمِ حیوانات biology کے مطابق، تمام جانداروں کے جسمانی نظام میں پانی نہ صرف بطورِ مرکب موجود ہے بلکہ جسمانی افعال کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہے، "کل” کا لفظ یہاں عمومی ہے، اور اگر چند استثنائی مثالیں بھی ہوں، تو وہ اس قاعدہ کلیہ کے مفہوم کو ختم نہیں کرتیں، جیسا کہ علمِ بلاغت میں معروف ہے۔

یہی پانی جب آسمان سے برستا ہے، تو زمین کے مردہ ذرات میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے، بارش کا ہونا، چشموں کا ابلنا، نہروں کا بہنا، سب قدرت کے ایک ایسے نظامِ فیض کا حصہ ہے، جو انسان کو اپنی بے بسی اور اللہ کی قدرت کا احساس دلاتا ہے، قرآن میں فرمایا گیا: "کیا تم نے اس پانی پر غور کیا جو تم پیتے ہو؟ کیا تم نے اسے بادلوں سے برسایا یا ہم برسانے والے ہیں؟” (الواقعہ: 68-69)۔ یہ سوال محض استفسار نہیں، بلکہ ایک تنبیہ ہے—کہ جس نعمت کو تم نے روزمرہ کی عادت سمجھ رکھا ہے، وہ دراصل ایک عطیہ ہے، ایک امانت ہے، جو کسی بھی لمحے واپس لی جا سکتی ہے، اس لیے ہر حال میں اس کے بے جا استعمال سے منع کیا گیا، امام احمد اور امام ابن ماجہ نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد کے پاس سے گزرے، جب وہ وضو کر رہے تھے، تو آپ نے فرمایا: "اے سعد! یہ کیسا اسراف ہے؟” انہوں نے عرض کیا: "کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟” تو آپ نے فرمایا: "ہاں، اگرچہ تم جاری نہر پر ہی کیوں نہ ہو۔”(احمد:6768، ابن ماجہ:419)

اس ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی قدر صرف قلت کے وقت ہی نہیں، فراوانی کے عالم میں بھی کی جاتی ہے، یہ شعور، یہ وقار، اور یہ تمیز ہی دراصل اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہے، وضو جو ایک روحانی عمل ہے، اس میں بھی پانی کے استعمال میں میانہ روی کی ہدایت دی گئی ہے، تاکہ انسان اپنے رویّے سے اللہ کی نعمت کی قدر اور اس کے آداب کو سمجھے۔

اسلام صرف عبادت کا دین نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر نظامِ حیات ہے، جس میں ماحولیات، وسائل، اور فطری توازن کو خاص مقام حاصل ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے: "کھاؤ، پیو، لیکن اسراف نہ کرو، بے شک اللہ فضول خرچوں کو پسند نہیں کرتا” (الأعراف: 31)، اور مزید فرمایا: "بے شک فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں” (الإسراء: 27)۔ یہ آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ پانی کا بھی فضول استعمال ایک اخلاقی انحطاط ہے، جو انسان کو شیطانی راستوں کی طرف لے جاتا ہے۔

بدقسمتی سے جدید دنیا، جو سائنس، ترقی اور ٹکنالوجی کے زعم میں آسمانوں کو چھو رہی ہے، وہ زمین پر بہتے پانی کے احترام سے محروم ہوتی جا رہی ہے، کارخانوں کا فضلہ، کیمیائی زہر، زرعی بے احتیاطیوں اور شہری غفلت نے پانی کے صاف ذخائر کو آلودگی کے گڑھے میں تبدیل کردیا ہے، برفانی دریا یعنی گلیشیئر Glacier تیزی سے پگھل رہے ہیں، زیرزمین ذخائر گھٹ رہے ہیں، بارشیں بے موسم ہو چکی ہیں، اور دریاؤں کے دھارے سوکھ رہے ہیں، اگر آج ہم نے سنجیدگی سے اصلاح نہ کی تو مستقبل کی نسلیں پیاس، ہجرت، بیماری اور خانہ جنگی جیسے المیوں سے دوچار ہو سکتی ہیں، قرآنِ کریم میں ہے: "اور ہم نے آسمان سے ایک خاص مقدار میں پانی نازل کیا، پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیا، اور ہم اسے لے جانے پر بھی قادر ہیں” (المؤمنون: 18)۔ یہ آیت ایک طرف اللہ کے علم اور قدرت کی وسعت کو بیان کرتی ہے، تو دوسری طرف انسان کو خبردار بھی کرتی ہے کہ اگر تم نے اس نعمتِ ربانی کو ضائع کیا، تو تم اس سے محروم کیے جا سکتے ہو۔

لہٰذا پانی صرف ایک قدرتی مظہر نہیں، بلکہ ایک تہذیبی امتحان بھی ہے، یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس نعمت کی حفاظت کو عبادت کا درجہ دیں، گھروں، اداروں، مسجدوں، کھیتوں اور کارخانوں میں اس کے استعمال کو منظم کریں، اور نئی نسل کے دل ودماغ میں یہ شعور بیدار کریں کہ یہ مائع صرف مادی نہیں، بلکہ روحانی، تہذیبی اور اخلاقی امانت ہے—جس کی حفاظت نہ صرف ایمان کی علامت ہے، بلکہ بقاء کی ضمانت بھی، یہی وہ لمحہ جہاں دین، سائنس، عقل اور فطرت ایک دوسرے سے ہم آغوش ہو کر ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں: پانی کو بہاؤ نہیں، سنبھالو… یہ رب کی عطا ہے، اور تمہاری اخلاقیات کا امتحان، جنید حزیں نے کیا خوب کہا ہے:
قطرہ نہ ہو تو بحر نہ آئے وجود میں
پانی کی ایک بوند سمندر سے کم نہیں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔