ہمیں دھکا دینے و پھٹکار نے والے کہاں ہیں آجکل!!

تحریر: جاوید اختر بھارتی

کچھ لوگ کسی بھی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں ، کچھ لوگ تنقید کرنا اصل مقصد سمجھتے ہیں ، کچھ لوگ اصل ذمہ دار ہی بننے لگتے ہیں ،، اگر وہ کسی تعمیری مکان کو دیکھتے ہیں تو انہیں دیوار ٹیڑھی نظر آتی ہے ، اتفاقیہ کسی کمیٹی میں پہنچتے ہیں تو پہلے کے ذمہ داران میں کمی نظر آتی ہے، اب تو بہت سے ایسے ادارے ہیں جن کا دین سے تعلق ہے مگر اس میں بھی حمایت و مخالفت کا گروپ تشکیل دیا جانے لگا یعنی ایک ادارے کا کوئی شخص ذمہ دار ہے اور لمبے عرصے تک رہنے کے بعد عوام اگر اسے تبدیل کردیتی ہے تو جو نیا ذمہ دار منتخب ہوتا ہے تو پہلے والے شخص کے اندر تعمیر وترقی اور اصلاحی جذبہ نظر نہیں آتا بلکہ وہ نئے ذمہ دار کی ہمیشہ مخالفت پر تلا رہتاہے اور یہ بیماری صرف فلاحی اور سیاسی وسماجی اداروں و تنظیموں تک محدود نہیں رہی بلکہ مدارس و مساجد اور خانقاہوں تک یہ بیماری پھیل چکی ہے اور جس شخص کے اندر یہ بیماری ہے تو پھر اسے قوم مسلم کا یا دین کا خدمت گزار نہیں کہا جاسکتا یاتو اس کا اپنا کوئی مفاد ہے یا پھر سستی شہرت ، نام و نمود کا بھوکا ہے اگر جس کے سینے میں خدمت دین کا جذبہ ہے تو اسے کسی عہدے و منصب کی ضرورت نہیں ہے،، اور یہ بات صحیح ہے کہ اگر خدمت ہی کرنا ہے تو بنا کسی جاہ و منصب کے بھی خدمت کیا جاسکتاہے ،، اور ہمیشہ وہ کام کرنا چاہئے جو دیرپا ہو یہ نہیں کہ کوئی کام شروع کیا جائے تو تنقید کا انبار لگادیا جائے، شکوہ شکایت کا ماحول قائم کیا جائے اور باتوں باتوں میں ڈانٹا پھٹکارا جائے اور خود کو بہت جانکار ثابت کیا جائے اور جمعہ جمعہ آٹھ دن کے بعد دستبردار ہوجایا جائے اور آٹھ دن میں ایک بار بھی یہ خیال نہ آئے کہ یہ مسجد ہے اور یہ مدرسہ ہے ،، ایک تربیت گاہ و درسگاہ ہے تو دوسری عبادت گاہ ہے دونوں کا احترام ضروری ہے ، دونوں کے تقدس کو پامال ہونے سے بچانا ضروری ہے اور دونوں کا جو حق ہے اس حق کو ادا کرنا ضروری ہے،، ایک دن مسجد کے اندر بچے آپس میں تبصرہ کررہے تھے کہ رمضان کے مہینے میں مسجد کھچا کھچ بھری رہتی تھی ہمیں وضو خانے کے قریب کھڑے ہونے کے لئے جگہ ملتی تھی کبھی کبھی ہم آگے بڑھ جاتے تھے تو کچھ لوگ ہمارا ہاتھ پکڑ کر بڑی بے دردی کے ساتھ پیچھے ڈھکیل دیا کرتے تھے ساتھ ہی ہمیں پھٹکار بھی لگاتے تھے کہ تم لوگوں کی وجہ سے ہماری نمازیں خراب ہوتی ہے تم لوگ شور شرابے سے باز نہیں آتے مسجد خاموش رہنے کی جگہ ہے ، ذکر و اذکار کی جگہ ہے ، اللہ سے لو لگانے کی جگہ ہے شور شرابے کی جگہ نہیں لیکن آج وہ سارے لوگ غائب ہیں کیا اب ذکر و اذکار کی ضرورت نہیں ، اللہ سے لو لگانے کی ضرورت نہیں ، اللہ ان سے راضی ہوگیا اس بات کی سرٹیفکیٹ مل گئی کیا، ہمیں نصیحت کرنے کا جذبہ ختم ہوگیا کیا تبصرے کے دوران ہی ایک بچہ مسجد میں داخل ہوتا ہے اور تمام باتیں سننے کے بعد کہتا ہے کہ اب وہ لوگ کافی مصروف رہتے ہیں اب گیارہ مہینے تک وہ جمعہ جمعہ نظر آئیں گے ،، عطر لگاکر ، کاندھے پر رومال ڈال کر ، اچھے اچھے کپڑے پہن کر کچھ لوگ دبک کر پیچھے ہی بیٹھ جائیں گے اور ان میں بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو خطبہ کی اذان ہونے کے وقت آئیں گے اور بڑی مشکل سے خطبہ سنیں گے امام کے ساتھ دو رکعت فرض ادا کریں گے اور جیسے ہی سلام پھیرا جائے گا تو تیزی کے ساتھ مسجد سے باہر نکل جائیں گے کیونکہ انہیں اپنا کاروبار دیکھنا ہوتاہے ، موبائل پر گیم کھیلنا ہوتاہے ، چائے خانوں میں بیٹھ کر گپ شپ کرنا ہوتاہے سارے بچے بعد میں آنے والے اس بچے کی باتیں بڑے ہی غور سے سن رہے تھے اور سننے کے بعد دو تین بچوں نے کہا کہ ٹھیک ہے اب جمعہ کا دن آئے گا تو ہم لوگ ان آدمیوں سے ملاقات بھی کریں گے اور بات چیت بھی کریں گے ،، بالآخر جمعہ کا دن آتا ہے مسجد میں اذان کے کلمات بلند ہوتے ہیں لوگ جوق درجوق مسجد کی طرف روانہ ہوتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے رمضان کے مہینے کی طرح جمعہ کے دن بھی مسجد پوری طرح بھر گئی بچوں کو پھر ڈانٹا پھٹکارا جانے لگا اور انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر پیچھے کردیا گیا ،، بہر حال مسجد میں تقریر ہوئی پھر منبر پر کھڑے ہو کر امام نے خطبہ جمعہ پڑھا اس کے بعد دو رکعت فرض نماز ادا کی گئی سلام پھیرنے کے بعد ان جمعہ جمعہ کے نمازیوں سے سوال وجواب کرنے کے لئے بچے بھی مسجد سے باہر نکل گئے اور ان کا دامن پکڑ کر سوال وجواب کرنا شروع کردیا ،، بچوں نے سوال کیا کہ صاحب آپ جمعہ کے دن عصر سے لے کر دوسرے جمعہ کے دن کی نماز فجر تک غائب رہتے ہیں ، مسجد میں نہیں آتے ہیں اور آٹھ دن تک نمازیں نہیں پڑھتے ہیں آخر کیوں: کیا آپ کی وہ نمازیں معاف ہیں ؟ اور جب آٹھ دن تک مسجد سے دور رہتے ہیں تو پھر جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے کیوں آتے ہیں ؟ یہ تو کسی کتاب میں نہیں لکھا ہے کہ آٹھ دن تک نماز نہ پڑھا جائے تو کوئی بات نہیں لیکن جمعہ کی نماز پڑھنا ضروری ہے ،، جیسے آج آپ جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے مسجد میں آئے ہیں تو اللہ دیکھ رہا ہے اسی طرح آپ لوگوں نے آٹھ دن تک نماز نہیں پڑھی تو اللہ اس سے بھی واقف ہے ،، آخر کیا وجہ ہے کہ آٹھ دن تک آپ مسجد سے دور رہے تو خدا کا خوف نہیں ، آٹھ دن تک نمازیں نہیں پڑھیں تو خدا کا خوف نہیں ،، پھر جمعہ کا دن آیا اور اذان کے کلمات بلند ہوئے تو آپ مسجد آپہنچے کیا صرف جمعہ کے دن ہی دل میں خوف خدا پیدا ہوتا ہے ،، بچوں کی باتیں سن کر بچوں کے سوال سن کر جمعہ جمعہ کے نمازیوں کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ، زبان لڑکھڑانے لگی اور ہونٹ تھرتھرانے لگے بات وہ ، بات یہ ہے ، اصل بات یہ ہے کہ آج جمعہ ہے ,, کچھ بھی بات نہیں بن پارہی ہے سوال کا جواب ہی نہیں ہے بالآخر اوں اوں ، میں میں کرتے کہتے وہ بات زبان پر آہی گئی جس کا امکان تھا سارے بہانے بازی کے بعد یہ کہہ دیا کہ ارے بچوں تمہیں معلوم نہیں ہے کہ آج جمعہ کا دن ہے تو بچوں نے کہا کہ ہمیں خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ آج جمعہ کا دن ہے بلکہ آج کے دن کا ہمیں انتظار تھا اور وہ انتظار ختم ہوا اور آپ لوگ مل گئے لیکن ہمارے سوالوں کا جواب نہیں ملا آخر خدا کی ذات تو وہ ہے کہ کالی رات میں بھی کالے پہاڑ کے کالے پتھر پر چلنے والی کالی چیونٹیوں کو دیکھتا ہے اور چیونٹیوں کے چلنے کی آواز کو سنتا بھی ہے پھر آپ آٹھ دن تک کس بنیاد پر احکام خداوندی سے غافل رہتے ہیں اور جمعہ کے دن صرف ایک وقت دو رکعت کے لئے غافل نہیں ہوتے اب ان کی زبان پر وہ لفظ آہی گیا کہ ارے بچوں آج جمعہ کا دن ہے اور آج بھی مسجد نہیں آتے تو لوگ کیا کہتے اور سماج و معاشرے کے لوگ کیا کہتے ،، اب ان بچوں نے کہا کہ ہاں اصل وجہ یہی ہے کہ تم جمعہ کے دن بھی مسجد میں آئے ہو تو خوف خدا کی بنیاد پر نہیں بلکہ سماج و معاشرے میں کہیں رسوائی نہ ہو کہ فلاں شخص جمعہ تک نہیں پڑھتا بس اسی وجہ سے آج جمعہ کے دن تم مسجد آئے ہو ،، ڈرو اس رب العالمین سے کیونکہ اس کی پکڑ بہت سخت ہے اور یاد رکھو کہ نماز کبھی معاف نہیں ہے چاہے جنگ کا میدان ہو یا الیکشن کا میدان نماز معاف نہیں ، پیروں تلے زمین کھسکے یا گردن پر چھری چلے نماز معاف نہیں ،، سماج و معاشرے میں رسوائی یا نام و نمود و شہرت حاصل کرنے کے لئے یا اس سے بچنے کے لئے نہیں بلکہ اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے نمازوں کا اہتمام کریں پابندی کریں اور اپنا محاسبہ بھی کریں کہ ایک ماہ تک روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے کے بعد بھی ہماری زندگی میں انقلاب کیوں نہیں آیا۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔