از:- عبدالغفارصدیقی
وقف ترمیمی بل2025 دونوں ایوانوں سے پاس ہوگیا۔مسلمان اس بل کے پاس ہونے سے بہت غم زدہ ہیں۔ان کی عید کی خوشیاں ماتم میں بدل گئی ہیں۔امید تھی کہ اس موقع پر نتیش اور چندرا بابو نائڈو اور دیگر نام نہاد سیکولر سیاسی رہبران کا ضمیر جاگے گا اور وہ بل کی حمایت نہیں کریں گے۔مگر یہ امید خاک میں مل گئی۔نام نہادسیکولر چہروں سے نقاب الٹ گیا۔مگر سوال یہ ہے کہ یہ بل کیوں پاس ہوگیا؟کن وجوہات سے یہ بل لایا گیا؟حکومت کے ارادے کیا ہیں؟سوال یہ بھی ہے کہ اس بل کو روکنے کے لیے کیا کوششیں کی گئیں؟
اس بل کے پاس ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی ملک کو ہندو راشٹر بنانا چاہتی ہے۔یہ کوئی ڈھکا چھپا مقصد نہیں ہے۔ ان کے لیڈران پہلے دبی زبان میں یہ بات کہتے تھے اب ببانگ دہل کہتے ہیں۔ہمیں اس مقصد پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ایک سچا ہندو یہی چاہے گا کہ اس کے ملک میں اس کے مذہب کی حکمرانی ہو۔اس کی پسند کا طریقہ زندگی غالب آئے۔اس لیے ہندوراشٹر کے قیام کی کوششیں کرنا اس کی مذہبی ذمہ داری ہے۔آج ان کے پاس جو وسائل و مواقع میسر ہیں وہ ان کو کام میں لارہے ہیں اور ملک کو تیزی کے ساتھ ہندوراشٹر کی طرف لے جارہے ہیں۔بعید نہیں کہ وہ دن آئے جب باقاعدہ اس کا اعلان کردیا جائے اور موجودہ آئین تبدیل کرکے ہندو دھرم پر مبنی آئین نافذ کردیا جائے۔
اپنے دین کو غالب کرنے کی فکر کرنا اور اس کے لیے جدو جہد کرنا ہر مذہبی آدمی پر فرض ہے۔قرآن کے مطابق اہل اسلام پر فرض ہے کہ وہ زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرنے کی جد و جہد کریں۔پیروان مسیح کی کوشش ہے کہ ان کے وطن میں عیسائیت کو فروغ حاصل ہو اور عملا ً ایسا ہی ہے،جہاں جہاں وہ اقتدار میں ہیں وہاں عیسائیت کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔آج اسرائیل اہل فلسطین پر جو ظلم ڈھا رہا ہے اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ صیہونیت غالب ہو اور ہیکل سلیمانی تعمیر ہو۔مذاہب کے درمیان غلبہ و تفوق حاصل کرنے کی جنگ ہر زمانے میں رہی ہے۔لیکن مسلمان اس فریضہ سے گزشتہ کئی صدیوں سے غافل ہیں۔ان کی غفلت کی وجہ سے ہی یہ دن دیکھنے کو ملا ہے۔انھوں نے اشاعت دین اور تبلیغ اسلام کے فریضہ کو یکسر بھلادیا اور اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ میں سب سے پہلے وہ خود حائل ہوگئے۔آج بھی تحریکات اسلامی کی سب سے زیادہ مخالفت خود مسلمان کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں اسلامی تحریکات کو عوامی اور حکومتی تعذیب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔گزشتہ سو سال سے اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے،مگر عرب کے بادشاہ اسرائیل سے دوستی کررہے ہیں۔ڈیڑھ سال میں لاکھوں شہادتیں ہوچکیں مگر ابھی تک وہ نیند سے بیدار نہیں ہوئے ہیں۔بلکہ عرب ممالک میں ان نوجوانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے جو فلسطین کی آزادی کے نعرے لکھی ہوئی ٹوپی یا شرٹ پہن رہے ہیں۔انھوں نے اپنے نصاب تعلیم سے ان آیات قرآنی کو حذف کردیا ہے جو یہود و نصاریٰ کے جرائم سے متعلق تھیں،انھوں اسلامی نظام کے علمبرداروں کے لٹریچر پر پابندی لگارکھی ہے۔یہ وہ جرم عظیم ہے جو مسلمان صدیوں سے کررہے ہیں۔اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو ان پر مسلط کردیا ہے تاکہ وہ سبق سکھائیں۔جس کا ایک پاٹھ وقف ترمیمی بل 2025ہے۔
ہندو ازم کے مبلغین جانتے ہیں کہ ہندو راشٹر کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہیں۔بھارت میں اسلام کو چھوڑ کر جتنے پنتھ اور دھرم ہیں وہ سب ہندو دھرم میں یا تو ضم ہوگئے ہیں یا ضم ہونے کو تیار ہیں،یا ان سے ہندو دھرم کو کوئی تعرض نہیں ہے۔صرف اسلام ہی وہ دین ہے جو دیگر ادیان کے مقابلے توحید پر مبنی نظام پیش کرتا ہے اور ماضی میں غالب رہ چکا ہے۔اس لیے ہر جگہ اسلام سے کفر برسرپیکار ہے۔مغربی تہذیب کے نشانہ پر اسلام کی اخلاقی قدریں ہیں،کمیونزم کا ہدف اسلام کا عدل پر مبنی معاشی نظام ہے،صلیب کی سیدھی جنگ اسلام سے ہے، صیہونیت، بودھ ازم اور دہریت بھی اسلام سے نبرد آزما ہے۔بھارت میں اسلام کو کمزور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کو کمزور کیا جائے؟انھیں احساس کمتری اورخوف وہراس میں مبتلا کیا جائے۔ان کو وسائل سے محروم کردیا جائے؟ان کی نئی نسلوں کو دین بیزار بنایا جائے اور انھیں اطاعت کفر پر آمادہ کیا جائے۔چنانچہ سنگھ اور اس کی جملہ ذیلی تنظیمیں گزشتہ سو سال سے منظم انداز میں یہ کام کررہی ہیں۔جس کے نتائج آج برآمد ہورہے ہیں اور آئندہ اس سے بھی زیادہ خطر ناک نتائج برآمد ہونے کے امکانات ہیں۔اوقاف بل ہندوراشٹر کے قیام اور مسلمانوں کو وسائل سے محروم کرنے کی اسی مہم کا حصہ ہے۔
وقف بورڈوں میں موجود کرپشن بھی اس بل کو لانے کا سبب بتایا جارہا ہے۔ سوال کیا جارہاہے کہ اوقاف کی ساڑھے نولاکھ ایکڑ آراضی کا فائدہ کس کو پہنچ رہاہے؟اس کے جواب ہمارے رہنماکہتے ہیں کہ آپ مسجدوں میں نماز پڑھ رہے ہیں، قبرستانوں میں مردے دفن کررہے ہیں یا مدرسوں میں بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں تویہ اوقاف کی مہربانی ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نوے فیصد مساجد خود مسلمانوں نے اپنے پیسوں سے زمینیں خرید کر تعمیر کی ہیں،وہ ان کے مصارف ہرجمعہ کو اعانتیں جمع کرکے اور ہر سال چندہ دے کر، انجام دے رہے ہیں۔جن قبرستانوں میں مسلمان اپنی جنازوں کو دفن کرتے ہیں وہ انھوں نے اپنے مال سے خریدے ہیں اگر کہیں بڑے شہروں میں قدیمی قبرستان ہیں بھی تو وہاں مردہ دفن کرنے کے لیے کم سے کم پانچ ہزار روپے دینے پڑتے ہیں۔بیشتر مدارس کا بھی یہی حال ہے ہر سال اربوں روپے کی زکوٰۃ سے وہ بنائے اور چلائے جارہے ہیں۔دارالعلوم دیوبند جیسے اداروں کا بجٹ پچاس کروڑ روپے سالانہ کا ہے وہ کہاں سے پورا ہورہا ہے؟کیا انھیں اوقاف سے کوئی مدد مل رہی ہے اور جو معدودے چند مدرسے اوقاف کے زیر اہتمام ہیں ان کے یہاں تعلیم و تدریس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ جن مساجد کے ائمہ کو اوقاف سے تنخواہیں مل رہی ہیں ان مساجد میں دینی تعلیم کا کیا حال ہے؟یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔اوقاف کی جو جائدایں کرائے پر ہیں ان کا براحال ہے،آج بھی پانچ دس روپے کے کرائے پر بہت سی دکانیں ہیں،بعض دکانوں کا کرایہ سو ڈیڑھ سو روپے ہے،جب کہ مارکیٹ ریٹ دس ہزار اور بیس ہزار کا ہے۔حالانکہ بیشتر دکانوں کے کرائے دار مسلمان ہی ہیں۔ ہزاروں جائدادوں پر سرکار کے قبضہ ہیں توہزاروں ایکڑ وقف آراضی پر خود مسلم رہنماؤں نے ناجائز قبضہ کررکھا ہے،نوے فیصد وقف کمیٹیوں میں تولیت کے جھگڑے ہیں۔وقف بورڈوں میں رسہ کشی ہے۔بھائی بھتیجہ واد ہے۔وقف کی اربوں روپے کی آمدنی کہاں جارہی ہے؟ کوئی اسکول اور کالج نہیں،کوئی اسپتال اور ڈسپنسری نہیں،کوئی اسکالر شپ نہیں،بیواؤں کی کفالت کا کوئی پروگرام نہیں،بے سہاروں کا کوئی انتظام نہیں۔جب آپ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کریں گے اور انھیں ضائع کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے مطابق وہ نعمتیں آپ سے چھین لے گا۔ کفران نعمت کے نتیجہ میں وقف بل پاس ہونا ہی تھا۔
وقف پر خطرات پچھلے دس سال سے منڈرا رہے تھے۔مرکزی حکومت کے ایجنڈے میں یہ بہت پہلے سے تھا۔طلاق بل پاس ہونے کے بعد سے ہی یہ احساس ہوگیا تھا کہ حکومت وقف بل بھی لائے گی۔لیکن اس کو روکنے کی معقول کوششیں نہیں کی گئیں۔جب خطرہ دروازے پر آگیا،جب بل پاس ہونے سے دو قدم دور رہ گیا تب ہم اپنے حجروں اور خانقاہوں سے نکلے۔یعنی ہم نے عذاب الٰہی دیکھ کر توبہ کی۔جب کہ توبہ کا در بند ہوچکا ہوتا ہے۔بھارت میں گزشتہ دس سال میں کئی بڑے واقعات ہوئے۔جس میں سب سے بڑا واقعہ رام مندر کی تعمیر ہے۔بابری مسجد کی جگہ جس انداز سے رام مندر کی تعمیر ہوئی وہ ہمارے تابوت میں گویا آخری کیل تھی جو ٹھونکی گئی تھی۔مگر ہم نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ہم یہی کہتے رہے کہ ہم اس قانون کو کسی طور برداشت نہیں کریں گے،مگر کہنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔بروقت اور حفظ ماتقدم کی کوششیں نہ کرنے کے سبب یہ بل پاس ہوگیا۔
وقف بل کی ترمیمات حکومت کی سازشی ذہنیت اور مسلم عناد کو تسلیم کرلینے کے لیے معقول شواہد اپنے دامن میں رکھتی ہیں۔یہ بل آئین ہند کی بہت سی دفعات سے متصادم ہے۔اقلیتوں کو دستور ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے مغائر ہے۔وقف بورڈ ایک نیم سرکاری خود مختار ادارہ ہے۔وقف بورڈ کے بیشتر ممبران کا تقرر سرکار کرتی رہی ہے اور آئندہ بھی یہ اختیار اس کے پاس رہے گا،وقف ٹریبیونل کے اراکین بھی حکومت وقت ہی کی جانب سے مقرر کیے جاتے ہیں۔اس کے اختیارات کم کرکے حکومت نے سرکاری جمہوری اداروں کو کمزورکرنے کی اپنی پالیسی کا اعادہ کیا ہے۔آئین کی حدود میں وقف ترمیمی کی مخالفت کرنا ہر انصاف پسند کی ذمہ داری ہے۔مگر اسی کے ساتھ ہمیں اپنی داخلی کمزوریوں کو بھی دور کرنا چاہیے۔
آزادی کے بعد ہم پر کتنی ہی قیامتیں ٹوٹیں مگرہماری صورت حال میں کوئی قابل ذکر تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔کم سے کم شمالی ہند کے مسلمانوں میں تو قطعا ً نہیں ہوئی۔ہماری گاڑی جس ڈھرے پر کل چل رہی تھی،آج بھی اسی ڈھرے پر چل رہی ہے۔وہی مسلکی تنازعات ہیں، تعلیم سے بے توجہی ہے،نوجوانوں کی بے راہ روی میں اضافہ ہے،ہماری معاشرتی زندگی میں غیر اسلامی رسوم و رواج کا وہی چلن ہے۔عید سے روز قبل امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ میں جو تماشا ہوا،وہ صاحبان دستارو جبہ کی اخلاقی،دینی اور روحانی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔آخر جب ہم بدلنے کو تیار نہیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیں کیوں حاصل ہوگی؟ ابھی وقف بل پاس ہوا ہے،کل مدارس کو بند کیا جائے گا جس کا سلسلہ اتراکھنڈ اور آسام میں شروع ہوچکا ہے۔پرسوں مساجد کی جانچ ہوگی اور ان کو بند کردیا جائے گا۔پھر حکومت اپنے بنکوں میں زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے مجبور کرے گی۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
اس موقع پر میری گزارش ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنا جائزہ لے۔ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔اپنے معاملات میں دیانت داری پیدا کرے۔اللہ کی نعمتوں کا غلط استعمال نہ کرے،اپنے مقام و منصب کو پہچانے اور اس کا حق ادا کرے۔ہم میں سے ہر کوئی اقتدار حاصل کرنے کی سعی لاحاصل سے باز آئے۔مناصب اہل لوگوں کے سپرد کیے جائیں۔مسلکی عناد اور ذات پات کی بنیاد پر قائم اشراف و اراذل کی تقسیم ختم کرکے دینی اخوت پر مبنی معاشرہ قائم کیاجائے۔بھارتی مسلمان اوقاف پر زندہ نہیں تھے،اول تو حکومت کامنشاء اس طرح کے اقدامات سے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا اور انتخابات کے لیے پولرائزیشن کرنا ہے۔اس کے باوجود اگر چند لاکھ ایکڑ زمین ان سے چھین بھی لی جائے گی تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی،مسلمانوں کا جذبہ ایثار نئے قوانین کے تحت اس سے زیادہ اوقاف پیدا کرسکتا ہے۔اگر ہم اپنی اور اپنے سماج کی اصلاح کرکے اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مبنی معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں تو وقت اور حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔مگر اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہیں بدلتی۔