✍️ ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
____________________
میں نے مختلف شہروں میں دیکھا کہ اسکول و کالج کی صف میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ خاص اسکول و کالج قائم ہیں، لکھنؤ میں بچپن بھی گذرا اور وہیں جوان ہوئے ، وہاں دیکھا کہ سرکاری غیر سرکاری ہر طرح کے کئی مخصوص اسکول و کالج لڑکیوں کے لیے خاص ہیں، علیگڑھ جہاں سے تعلیمی تحریک برپا ہوئی ، فیمیل ایجوکیشن علیگڑھ مومنٹ کی ذیلی شاخ بنی ، اس شہر میں پاپا میاں شیخ عبداللہ کے قائم کردہ اسکول کے علاوہ کوئی ویمنس کالج نہ قائم ہوا ، علیگڑھ کا یہ پہلو واقعی بہت حیرت انگیز ہے ۔
ہمارے یہاں باتوں کی بھرمار ہے، کام تو خال خال ہوتا ہے ، بچیوں کی تعلیم، بچیوں کا تحفظ ، ارتداد اور اپنے کالج جیسے موضوعات آجکل ہمارے حلقوں میں دلچسپی کے موضوعات ہیں لیکن یہ حل کیسے ہوں اس پر گفتگو کم ہوتی ہے ۔ ہمارے ایک شاگرد شہر کے کسی کالج سے گریجویشن کر رہے ہیں جہاں دیگر کمیونٹی کے بچوں کی اکثریت ہے ، تین چار مہینے کی ملاقات میں بتانے لگے : ” مولانا مسلمان لڑکیوں کو ہندو لڑکے جس طرح گھیرتے ہیں بس خدا کی پناہ ، اور اگر کوئی برقع پہنتی ہے تو اسکے پیچھے تو چار پانچ لڑکے پڑتے ہیں ، بہت سی بہکاوے میں آ بھی جاتی ہیں ، ہم لوگوں سے دیکھا نہیں جاتا ، سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، بعض لڑکیاں تو ٹال جاتی ہیں لیکن اکثریت کا سوال ہوتا ہے کہ بتاؤ ایڈمیشن کہاں لیں ، کوئی لڑکیوں کا کالج بتاو اپنا ہم یہاں ابھی چھوڑ دیں ، عبداللہ کالج کے علاوہ اور کیا ہے تمہارے پاس ، کتنے ایڈمیشن ہو جائیں گے وہاں، اور یہاں رہنا ہے تو ان لوگوں کو تو جھیلنا پڑے گا، مولانا اس سوال پر ہم چپ ہوجاتے ہیں کہ ایڈمیشن کہاں کرائیں ، ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں ، پھر بھی تحفظ کی تلقین کرتے ہوئے بات تقریبامایوسی پر ختم ہو جاتی ہے ” ۔
تعجب ہے کہ علی گڑھ جیسے شہر میں خالص لڑکیوں کا ایک بھی ادارہ نہیں ہے ، کچھ اسکول ہیں جہاں بلڈنگ الگ ہیں یا کلاس کے سیکشن الگ ہیں ، وہ بھی ایک آدھے ہیں، لیکن یہاں خالص لڑکیوں کے تعلیمی ادارے اسکول/ کالج زیر بحث ہیں ۔ عجیب بات ہے کہ نہ عبداللہ کالج کا ہر سال جشن بنانے والوں کو شیخ عبداللہ کا مشن آگے بڑھانے کی سوجھی ، نہ سر سید کی برسی پر ان کی تعلیمی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرکے ڈنر کرنے والوں کو خیال آیا ، ہم نسل کی تعلیم و تعمیر اور ترقی تو چاہتے ہیں لیکن ان کے لیے کچھ کرنا نہیں چاہتے ، علیگڑھ میں اہل ثروت مسلمان ہیں جو تنہا اسکول کھڑے کر سکتے ہیں، تالے کی صنعت والے ، ریئل اسٹیٹ والے ، سیاسی شخصیات اور
ایسے دانشور و پروفیسر ہیں جو اسکول و کالج قائم کر کے تاریخ میں شیخ عبداللہ کے کردار کو بار بار زندہ کر سکتے ہیں، اور یہ لوگ بغیر چندے کے کر سکتے ہیں، آجکل اسکول/کالج ایک بہترین نفع بخش بزنس ہے ، پیسہ لگائیں، پیسہ لیں اور محفوظ طریقے سے تعلیم دیں ، جب چندے سے بنے اسکولوں کا یہ حال ہے کہ وہاں لوور مڈل کلاس فیس نہ دے پائے ، تو پھر کمرشیل اسکول و کالج بنانے میں کوئی حرج ہی نہیں۔ جب ادارے وجود میں آ جاتے ہیں تو غریب پڑھنے والوں کا انتظام بھی ہو ہی جاتا ہے ۔
ہم مسلمانوں کا ایک مرض اور ہے کہ ہم کام کیے بغیر نتائج کی امیدیں لگاتے ہیں ، یا تھوڑا بہت کر کے پھر مطمئن ہو جاتے ہیں ، یہ ہماری عام ذہنیت ہے ، میں ایک ڈیڑھ مہینہ قبل ایک سفر میں تھا ، ایک شناسا نے بڑی کرم فرمائی کی ، وقت دیا میزبانی کی ، آخر میں اپنی دکان لے گئے اور اطمینان سے کہنے لگے ، مولانا الحمدللہ اب بہت اطمینان ہو گیا ہے ، دو تین ملازم ہیں اس لیے تھوڑا مجھے وقت مل جاتا اور میں دیگر کام کر لیتا ہوں۔ میں کیسے چپ رہتا ، بول پڑا بس ! کہ جناب یہ آپ کا اطمینان درست نہیں، آپ سارے کام کریں، خوب خدمات دیں ، لیکن اپنی تجارت سے غفلت درست نہیں، آپ کی سوچ یہ ہونی چاہیے کہ اس سال تین ملازم ہیں، آئندہ سال دو برس میں بزنس کو اتنا بڑھانا ہے کہ تین کی جگہ تیس کے اور پھر تین سو کے چولھے ہمارے بزنس کے ذریعہ جلیں ، اگر تین پر اطمینان ہو گیا تو یہ خطرے کی بات ہے ۔ یہ در اصل ہماری قومی ذہنیت ہے ، کسی نے پرائمری اسکول یا سکنڈری اسکول قائم کر لیا ، کامیاب ہو گیا بس اب آگے کی سوچ ندارد ، وہی اس اسکول کو آگے بڑھاتا رفتہ رفتہ بڑھتا رہتا ، انٹر کالج گریجویشن میں اور گریجویشن پی جی کالج میں تبدیل ہوتا ۔ لیکن نہیں! قیامت تک ہم سر سید ڈے اور جشن بانیان بنائیں گے لیکن ان کے مشن کو آگے بڑھائیں یہ کہاں ہو سکتا ہے ، ہمارا وجود تو پیٹ پالنے کے لیے ہے، قربانیاں دینے کے لیے خلائی مخلوق آئے گی ، جن لوگوں نے قربانیاں دیں ، سب کچھ لٹا کر کچھ کر گئے اور تاریخ میں زندہ ہو گئے وہ بھی خلائی مخلوق تھے؟ ہم لوگ انسان ہیں، ہم روئیں گے ، شکوے کریں گے ، بھاشن دیں گے ، جشن منائیں گے اور ڈنر کریں گے ، اور اگر کوئی کالج قائم کر دیا جائے تو اس میں سیاسی کھیل کود کریں گے ۔ یقین جانیے علیگڑھ کا یہ پہلو بڑا حیرت انگیز ہے لیکن یہی سچائی ہے ، تو ہے ۔