✍️ سہیل انجم
_________________
اس کالم میں ہم دو موضوعات پر اظہار خیال کریں گے۔ پہلا ہے جے این یو میں طلبہ یونین کے انتخابات میں بائیں بازو کی شاندار کامیابی اور دوسرا ہے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کا جیل سے سرکار چلانا۔ آئیے پہلے جے این یو کی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ اس موضوع پر ابھی تک لکھا نہیں گیا ہے۔ جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ جے این یو بائیں بازو کے نظریات کی حامل یونیورسٹی رہی ہے۔ وہاں ایک تکثیری سماج پایا جاتا ہے۔ کیمپس میں متنوع ثقافت کا بول بالا ہے اور اس کے ضمیر اور خمیر میں روشن خیالی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہاں کشمیر سے کنیا کماری تک کے طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق اس کے کیمپس میں 179 زبانیں مادری زبان کی حیثیت سے بولی جاتی ہیں۔ وہاں کے طلبہ یونین کا انتخاب اپنے آپ میں ایک انوکھی چیز ہے۔ ووٹنگ سے ایک دو روز قبل امیدواروں کے درمیان ڈبیٹ ہوتی ہے۔ وہ ایک اسٹیج پر آتے ہیں اور اپنی پالیسیوں اور پروگراموں کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔ وہ طلبہ کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں اور اپنی خطیبانہ صلاحیتوں سے طلبہ کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں کنہیا کمار کا صدر کے عہدے پر انتخاب خاصا موضوع بحث رہا ہے۔ انھوں نے 2015 میں انتخاب جیتنے کے بعد جو تقریر کی تھی اور جس میں آزادی کا نعرہ لگایا تھا وہ بہت مشہور ہوا تھا۔ لیکن 2016 کے بعد جے این یو کے خلاف ایک مہم چلائی گئی۔ بی جے پی کی سیاست کی مخالفت کرنے والے طلبہ کو کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ بتایا گیا۔ اسے مسلمانوں، ملک دشمنوں اور کمیونسٹوں کا اڈہ قرار دیا گیا۔ وہاں ایسی شخصیات کو وائس چانسلر بنایا جانے لگا جو ایک مخصوص نظریے میں یقین رکھتے ہوں۔ خود موجودہ وائس چانسلر شانتی شری دھولیپڈی پنڈت آر ایس ایس نظریات کے ساتھ وابستگی کے اظہار میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ اس ماحول کا ہی نتیجہ تھا کہ 2020 میں طلبہ کے ہاسٹلوں پر حملہ کیا گیا۔ یہ حملہ پولیس کی موجودگی میں ہوا۔ بی جے پی کی طلبہ شاخ اے بی وی پی اور بائیں بازو کے طلبہ میں ٹکراؤ ہوا اور اس وقت کی یونین کی صدر آئشی گھوش سمیت کئی طلبہ کو شدید چوٹیں آئیں۔ سی سی ٹی وی کیمروں میں حملہ آوروں کے چہرے قید ہو گئے لیکن آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اے بی وی پی کے طلبہ پر حملے کا الزام ہے۔ حالانکہ وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔ وہاں کے دو طلبہ کنہیا کمار اور عمر خالد کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ عمر خالد کو دہلی میں ہونے والے فسادات کی سازش رچنے کے الزام میں یو اے پی اے لگا کر جیل بھیجا گیا اور کئی سال گزر جانے کے باوجود عدالتیں ان کو ضمانت نہیں دے رہی ہیں۔
وہاں دائیں بازو کی سیاست کو پروان چڑھانے یا بہ الفاظ دیگر نفرت انگیز سیاست کر بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی۔ طلبہ کے داخلے کے قوانین تبدیل کیے گئے تاکہ مخصوص نظریات کے حامل طلبہ کو داخلہ دیا جا سکے۔ لیکن چار سال کے وقفے کے بعد جب امسال طلبہ یونین کا انتخاب ہوا تو اسے بدنام کرنے والوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ لاکھ کوششوں کے باوجود اے بی وی پی کے امیدوار کامیاب نہیں ہوئے اور تمام چاروں کلیدی عہدوں پر بائیں بازو کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ اس بار بائیں بازو کی تنظیموں نے ایک اتحاد قائم کیا اور اس کے بینر سے الیکشن لڑا۔ انتخابی نتائج کے مطابق صدر کے عہدے کے لیے بائیں بازو کی تنظیم آئسا کے دھننجے، نائب صدر کے عہدے پر ایس ایف آئی کے اویجیت گھوش، جنرل سکریٹری کے لیے ڈی ایس ایف کی سواتی سنگھ اور جوائنٹ سکریٹری کے لیے اے آئی ایس ایف کے محمد ساجد کامیاب ہوئے ہیں۔ ابتدائی رجحانات میں اے بی وی پی کی جیت نظر آرہی تھی لیکن حتمی نتائج میں بائیں بازو کے امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی۔
ان انتخابی نتائج کو موجودہ ملکی سیاست کے تناظر میں کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔ تجزیہ کار اسے جے این یو میں مبینہ نفرت کی سیاست کو پروان چڑھانے کی کوششوں کو دھچکہ تصور کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ طلبہ نے نفرت کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ طلبہ کے ذہنوں میں مبینہ طور پر نفرت کے بیج بوئے گئے لیکن جب چار سال کے بعد طلبہ کو ووٹ دینے کا حق ملا تو انھوں نے اس سیاست کومسترد کر دیا۔ یاد رہے کہ حکومت اور بی جے پی کا موقف ہے کہ جے این یو میں ملک مخالف طلبہ سرگرم ہیں۔ اس کے علاوہ طلبہ کی اکثریت ہندوستان کی مذہبی ثقافت کو ناپسند کرتی ہے۔ لہٰذا وہاں کے ماحول کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ مبصرین انتخابی نتائج کی روشنی میں دیگر یونیورسٹیوں کے ماحول کا بھی جائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دانش گاہوں کے طلبہ تعلیم کے حصول میں دلچسپی رکھتے ہیں نہ کہ مبینہ منافرت انگیز سیاست کا حصہ بننے میں۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ سیاہ و سفید میں فرق جانتا ہے۔ جے این یو کے طلبہ بھی صورت حال کو پہچانتے اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ بائیں بازو کے امیدواروں کو صرف اس لیے ووٹ نہیں ملے کہ وہ بائیں بازو کے ہیں بلکہ اس لیے بھی ووٹ ملے کہ طلبہ اے بی وی پی کی ہنگامہ آرائی کی سیاست کو پسند نہیں کرتے۔ لڑائی جھگڑا جے این یو کا مزاج نہیں رہا۔ ان انتخابی نتائج کو دوسری یونیورسٹیوں کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ وہاں بھی طلبہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے نتائج کو یونیورسٹیوں کے کیمپسز کے لیے ایک فالِ نیک اور خوش آئند واقعہ قرار دیا۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ دانش گاہوں میں سنجیدہ طلبہ کی تعداد زیادہ ہے جو صرف تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اسے نفرت انگیز سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
اس حوالے سے ایک یو ٹیوب چینل ’ٹی وی سکس نیوز نیٹ ورک‘ کے ایک مباحثے میں، جسے اس کے ایڈیٹر پشپ رنجن ماڈریٹ کر رہے تھے اور جو کہ احمد آباد کی گجرات یونیورسٹی میں نمازِتراویح کے دوران غیر ملکی طلبہ پر حملے کے سلسلے میں ہوا، بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک طالب علم رانا روہت کے خیالات جاننا دلچسپ ہوگا۔ انھوں نے مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ان کی یونیورسٹی میں بھی مذہب کے نام پر سیاست کی جاتی اور لوگوں کے لوں میں نفرت کے بیج بونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ طلبہ اس کو پسند نہیں کرتے لیکن ڈر کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں۔ آج یونیورسٹیوں کے ماحول کو خراب کر دیا گیا ہے۔ کیمپسز میں پہلے قلم کاغذ کی بات ہوتی تھی اب ان کی جگہ تلوار اور ترشول نے لے لی ہے۔ طلبہ کے درمیان فیک پیغامات کے ذریعے نفرت کی سیاست کی جا رہی ہے۔ لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ماحول بدلے گا اور ایک دن کیمپسز میں پر امن ماحول ضرور لوٹ کر آئے گا۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے وقت پر جب کہ ملک میں پارلیمانی انتخابات ہونے جا رہے ہیں جے این یو طلبہ یونین کے انتخابی نتائج کو ملکی سیاست کے تناظر میں ایک خوش آئند واقعے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جے این یو میں ایک بار پھر ’لال سلام‘ کا نعرہ گونجنے لگا ہے۔