۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

واقعات کے منفی اور مثبت پہلو

✍️ محمد خالد اعظمی

__________________

ہم لوگوں کے اندر واقعات کے منفی پہلو کو دیکھنے اور اسے غلط طور سے مشتہر کرنے کا عام  مزاج بن چکا ہے۔ خاص طور سے مسلمانوں کے تعلق سے کوئی چھوٹا سابھی ناگوار یا خلاف ادب وقوعہ ہو جائے تو فورا سوشل میڈیا پر مسلم بہی خواہان قوم متحرک ہوکر اس کے تعلق سے مسلمانوں کی زبوں حالی، بدحالی، مذہب سے دوری اور جانے ہزار طرح کے ربط بے ربط تبصرے شروع ہوجاتے ہیں گویا پوری مسلم قوم اس واقعے میں ملوث ہوچکی ہے اور اب بچاؤ کی کوئی صورت نہیں۔ جبکہ اسی سے منسلک اسی واقعے کے مثبت پہلو کا تذکرہ ، جو اس منفی کے مقابلے کافی بڑا ہوتا ہے، جان بوجھ کر نہیں کیا جاتا۔ واقعے کے منفی پہلو کاتعلق شائد مسلم قوم کے ہزار یا لاکھ حصہ میں سے صرف ایک حصہ ہو اور قوم کے بقیہ کروڑوں لوگ اس واقعے سے بالکل دور ہوں اپنی معاشرتی اور مذہبی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوں لیکن انکے  مثبت کام اور انداز فکر کا تذکرہ نہیں کیا جاتا۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ برائی اور برے کام کے تذکرے سے پرہیز کیا جائے اور اچھے کا موں کا تذکرہ بھرپور طریقے سے کیا جائے تاکہ عام لوگ اچھائی کی طرف راغب ہو سکیں۔
ابھی ہولی کے دن جامعہ ملیہ اسلامیہ کی آٹھ دس مسلم طلبہ اور طالبات کا ہولی کے رنگوں کے ساتھ فوٹو وائرل ہوا اور اسی کے ساتھ جامعہ ملیہ کی تہذیب، جدیدیت ، طلبہ اور طالبات کی اسلام سے دوری، کیمپس کا خراب ماحول اور نہ جانے اور کیا کیا اور کیسے تبصرے سوشل میڈیا پر ابل پڑے۔ یہی اس پورے واقعے کا منفی پہلو ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے والے ننانوے فیصد مسلم طلبہ اور طالبات اس سے واہیات حرکت سے بالکل دور تھے، انہوں نے پورا دن روزے کے ساتھ اپنی پڑھائی اور نماز تلاوت کے ساتھ گزارا اور کسی بھی طرح کی ہوڑدنگ میں شمولیت سے گریز کیا، مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس ایک فیصد سے بھی بہت کم، جو ہولی کھیلنے میں  ملوث تھے ، کا تذکرہ نہ کر کے ان ننانوے فیصد طلبہ کا مثبت اور حوصلہ افزاء تذکرہ کرے جنہوں نے اس دن کو اپنی مسلم شناخت کے ساتھ گزارا ۔لیکن ہوا اسکے برعکس اور یہی ہوتا ہی ہے۔ اس طرح کے دو ایک فیصد آزاد خیال اور مذہب بیزار لوگ ہر زمانے اور ہر جگہ پائے جاتے ہیں لیکن اس وائرل تذکرے اور تبصرے نے عام مسلمانوں کے دلوں میں جامعہ ملیہ کے تعلق سے ایک منفی سوچ اجاگر کیا اور عام لوگ یہ کہتے بھی سنے گئے کہ اس طرح کے اداروں میں جب اپنے بچوں کو لوگ پڑھائنگے تو بچے یہی سب کرینگے۔ حقیقت یہ ہے کہ جامعہ ملیہ دہلی، مسلم یونیورسٹی علیگڑھ یا جامعہ ہمدرد ، انٹیگرل لکھنؤ یا شبلی کالج اعظم گڑھ جیسے ادارے آج بھی عام بچیوں اور بطور خاص مسلم بچیوں  کیلئے بہترین اور نہایت محفوظ تعلیم گاہیں ہیں لیکن کیا کیا جائے ان چند نام نہاد دانشوروں کا کہ جہاں کوئی چھوٹا سا واقعہ انہیں ملا اسے اس طرح پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں گویا پورا ادارہ اور سبھی طلبہ و طالبات اسی خرابی میں ملوث ہیں۔
ابھی پچھلے سال جب کچھ مسلم خواتین کے ارتداد اور ہندوؤں سے شادی کے واقعات رونما ہوئے تھے تو مسلمانوں کے درمیان اس کو اتنے مختلف طریقوں سے پھیلایا گیا کہ گویا مسلمان عورتیں اور بچیاں کالج اور آفس صرف اسی کام کیلئے جاتی ہیں اور  عام مسلمانوں کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ وہ اپنی کالج اور یونیورسٹی جانے والی بچیوں پر خود شبہات کا شکار ہونے لگے اور اس دوران بچیاں اپنے بھائیوں اور باپ سے آنکھ ملاتے ہوئے ڈرنے لگیں اور یہ سب صرف ایک غیر ضروری اور بے وجہ کے پروپیگنڈے سے ہوا۔ ہندوستان میں اسطرح کچھ مسلمان عورتوں کی ہندؤں سے شادی کے واقعات اکثر ہوتے رہے ہیں اور ہورہے ہیں اور ان کی تعداد نہایت قلیل ہے لیکن اس کیلئے کالج یونیورسٹی اور تعلیم گاہوں پر ذمہ داری ڈال کر بدنام کرنا بالکل غیر مناسب محسوس ہوتا ہے۔ 
ابھی چند دن پیشتر ہمارے علاقے کے ایک متحرک عالم دین نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لگائی “ شبلی کالج کے گیٹ پر کھڑا ہوں خدارا اپنی بچیوں کو بچا لیجئے” اور اسے وائرل کردیا اور پھر منفی تبصروں کا کھیل شروع ہو گیا۔ پتہ نہیں موصوف کو اپنے بچوں کو بچانے کا خیال کیوں نہیں آیا، جبکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اعظم گڑھ میں بچیوں سے کہیں زیادہ بچے بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں اور ان کی تعمیری تربیت  کی سخت ضرورت ہے لیکن موصوف کا ذہن ادھر نہیں جا سکا ۔ شبلی کالج ہمارے علاقے میں بچیوں کیلئے ایک بہترین اور بالکل محفوظ کیمپس مانا جاتا ہے، گریجویشن کی سطح تک لڑکوں اور لڑ کیوں کی کلاسز بالکل الگ الگ ہوتی ہیں ، لڑکیوں کی کلاس کا کیمپس بھی الگ ہے اور مجموعی طور پر پورے ضلع میں آج بھی شبلی کالج کو بچیوں کیلئے سب سے بہتر ادارہ مانا جاتا ہے ۔ اگر موصوف کو کالج کے گیٹ پر کوئی لڑکی کسی لڑکے سے بات کرتی نظر آگئی تو انہوں نے پورے کالج کو بدنام کر نے کیلئے پوسٹ ڈال دیا- پھر وہی بات آگئی کہ ایک ایسے کالج میں جہاں گریجویشن ، پوسٹ گریجویشن ، لاء بی ایڈ اور دیگر پیشہ ورانہ کورسز میں زائد از  سات ہزار صرف بچیاں زیر تعلیم ہیں ( تقریبا ۶۵ فیصد) وہاں انہوں نے چند لڑکے لڑکیوں کو کالج گیٹ پر دیکھ کر بنا کسی تحقیق اور جائزے کے کالج کے بارے میں ایک نہایت منفی تبصرہ جڑ دیا اور اس کی وجہ سے عام آدمی جسے کالج کے بارے میں زیادہ معلومات نہ ہو وہ شبلی کالج کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہو جائیگا اور اس کیلئے اپنی بچیوں کی تعلیم ایک مسئلہ ہو جائیگی کیونکہ علی گڑھ اور دہلی بھیجنا سب کےلئے ممکن نہیں ہوتا ۔ اب ہمارے علاقے میں مسلم والدین کی اکثریت اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتی ہے اور علیگڑھ جامعہ ملیہ وغیرہ کے بعد شبلی کالج واحد ادارہ ہے جہاں مسلم بچیاں سکون اور اطمینان کے ساتھ تعلیم حاصل کررہی ہیں لیکن تعلیمی اداروں کے تعلق سے اس طرح کی منفی پوسٹیں اور تبصرے والدین اور سرپرستوں کو بھی منفی طور پر متاثر کرتی ہیں اور وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں بے اطمینانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج کل لڑکے لڑکیوں کا آپس میں اختلاط اور میل جول کالج اور یونیورسٹی کیمپس سے کہیں زیادہ بازاروں، دوکانوں اور سواری گاڑیوں وغیرہ میں ہوتا ہے اور یہ جگہیں لڑکے لڑکیوں کے ملنے کیلئے کالج اور دیگر تعلیمی اداروں سے زیادہ عام اور سہل ہیں لیکن اس ضمن میں متحرک حضرات اس کے بجائے تعلیم گاہوں کے بارے میں منفی باتیں پھیلانے لگتے ہیں ۔
برائی ہمارے معاشرے میں بہت پھیلی ہوئی ہے اور ہماری نئی نسل بہت تیزی سے اس کا شکار بھی ہورہی ہے لیکن اسی کے ساتھ کوشش اس بات کی ہونی چاہئے کہ ہم واقعات اور حالات کے منفی پہلوؤں کی تشہیر سے گریز کریں منفی پروپیگنڈے سے بچیں اور واقعات کو مثبت پہلو کو سمجھنے اور اسے لوگوں تک پہچانے کی کوشش کریں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: