Slide
Slide
Slide

فاصبر صبرا جميلا

✍️ بدرالاسلام قاسمی

استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند

______________________

بلا شبہ دنیا میں ایمان کے بعد سب سے بڑی دولت والدین ہیں، کائنات میں ان سے زیادہ مخلص، بے غرض اور وفا دار شخصیت کسی کی نہیں ہوتی، جب تک ان کا سایہ سر پر ہو انسان اپنے آپ کو بچہ ہی شمار کرتا ہے، اسے پتہ ہوتا ہے کہ ہر طرح کے مشکل حالات میں اس کے والد کا دست شفقت اسے مضبوطی فراہم کرے گا اور والدہ کی گود میں سر رکھ کر وہ دنیا کے ہر غم کا سامنا کر سکتا ہے.

والد کا سایہ سر سے اٹھنے پر جو کیفیت انسان پر طاری ہوتی ہے راقم ایک سال قبل اس سے گزر چکا ہے، اس کے بعد لوگوں کے سینکڑوں تعزیتی پیغامات اور تسلی بخش جملے وقتی طور پر کچھ غم ہلکا ضرور کرتے ہیں، تاہم یہ کہنا کہ اس سے گزرے ہوئے کی حبہ بھر بھی تلافی ہو سکتی ہے یہ ناممکن ہے، سال گزشتہ والد مرحوم کی وفات کے بعد تعزیت کنندگان میں  جھارکھنڈ کی معروف شخصیت حضرت مولانا مفتی نذر توحید مظاہری کی بھی تھی، ان کا یہ جملہ آج بھی کانوں میں گونجتا ہے کہ "بہت سے لوگ تعزیت کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تمھیں والد کا نعم البدل عطا کرے، حالانکہ دنیا کی کوئی بھی شخصیت والد کا بدل ہو ہی نہیں سکتی.”

قربانی اور حج کے مبارک و مقدس مہینے کی پہلی تاریخ کی صبح حضرت مولانا محمد فاروق صاحب پرتاپ گڑھی کی شہادت کی خبر ملی، یہ استاذ گرامی حضرت مولانا محمد صغیر پرتاپ گڑھی کے بہنوئی تھے، آناً فاناً استاذ گرامی کی خدمت میں تعزیت کے لیے پہنچا، انھوں نے نہایت غمگین لہجے میں شہادت کی تفصیلات بتائیں کہ کس بے دردی اور سفاکانہ انداز میں ایک غیر مسلم نے انھیں شہید کر دیا، نہ صرف یہ کہ شہید کیا بلکہ پُر نور اور وجیہ شکل والی اس بزرگ شخصیت کو مثلہ کر دیا. انا للہ وانا الیہ راجعون

حضرت مولانا محمد فاروق صاحب پرتاپ گڑھی سے راقم کی بالمشافہ ملاقات نہ تھی، تاہم ان کے منجھلے لڑکے مولانا محمد ارشد قاسمی زمانہ طالب علمی میں ہمارے ہم عصر رہے ہیں، اگرچہ وہ ہم سے جونیر تھے، لیکن کھیلنے، کودنے اور ادارے کی دیگر سرگرمیوں میں شریک، نہایت محنتی و جفاکش، خوش اخلاق و خوش اطوار، ملنسار و نیک طینت، یہ صفات ان کے گھر کے دینی ماحول اور خاص طور پر والد گرامی کی عمدہ تربیت کا پتہ دیتی تھیں.
کچھ سالوں بعد ان کے چھوٹے بھائی مولانا محمد اسعد پرتاپ گڑھی سے شناسائی ہوئی، جو دارالعلوم وقف کے نہایت متحرک و فعال طالب علم تھے، بڑوں کے معتمد، ہر قسم کے پروگرام میں ہمہ تن سرگرم، والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ کے شاگرد رشید.

راقم یکم ذی الحجہ میں پیش آنے والی اس شہادت کی وجہ سے ذہنی طور پر اتنا مفلوج رہا کہ کئی مرتبہ برادران مولانا محمد ارشد و مولانا محمد اسعد صاحبان کی خدمت میں تعزیتی کلمات لکھنے چاہے، لیکن ذہن آمادہ ہی نہ ہو سکا.

اب یہ چند غیر مربوط سی سطور اس عظیم شخصیت کی تعزیت کے لیے لکھنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہوں جو شہداء کے مغفور و مرحوم قافلے میں شامل ہو چکی ہے.
دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اعلی علیین میں مقام کریم عطا فرمائے، ان کے فرزندان اور جملہ احباب و اقارب کو صبر و تسلی بخشے، والد گرامی کے قائم کردہ دینی ادارے کو ان کے وارثین کی جدوجہد سے آباد رکھے اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے. آمین یا رب العالمین

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: