قومی یک جہتی اور جمہوریت کو درپیش چیلنجز
✍️ مولانا عبدالحمید نعمانی
___________________
مختلف قسم کے اقدامات کو بہ غور دیکھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک مخصوص کمیونٹی اور مذہب کے پیش نظر کیے جاتے ہیں اور اقلیت و اکثریت کے درمیان نفرت و فرقہ وارانہ خلیج پیدا کرنے کی پوری منصوبہ بند کوششیں کی جا رہی ہیں، اس سلسلے میں اسلام اور مسلمان مرکز میں ہیں اور نشانے پر بھی ،اس لحاظ سے ملی قیادت کے لیے مسلم امہ کو اپنی اہمیت احساس کرانے میں جہاں آسانی کی راہ ہموار ہوتی ہے وہیں حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے خصوصی تیاریوں کے ساتھ موثر مزاحمت کی ضرورت بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے، عام انتخابات کے بعد سے بھی اسی ذہنیت کو پروان چڑھانے کے کام کیے جا رہے ہیں جس نے تقسیم وطن کی راہ ہموار کی تھی، مسلم اقلیت کو کئی محاذوں پر ہندوتو اور فرقہ وارانہ حالات کا سامنا ہے، نریندر مودی فی الحال خاموش ہیں لیکن ان کی سر پرستی میں ساہ، یوگی اور بسوا سرما ،ادھیکاری وغیرہم سماج کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تفریق و تقسیم کے لیے پوری طرح سر گرم عمل ہیں، یہ بار بار کہنے کی ضرورت ہے کہ بلا شبہ مسلم لیگ اور محمد علی جناح نے حالات کے تحت گزرتے دنوں کے ساتھ علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا اور بالآخر پاکستان کے نام سے ایک الگ وطن وجود میں آ گیا لیکن تقسیم وطن کی طرف لے جانے کی راہ ہموار کرنے کا کام ہندوتو وادی فرقہ پرست عناصر نے کیا تھا اس کے شواہد ہندو مہا سبھا، آریا سماج کی سرگرمیاں فراہم کرتی ہیں ان کا بہتر ریکارڈ جمیعتہ علماء ہند کی تجاویز اور مختلف مواقع پر کیے گئے فیصلوں کی شکل میں محفوظ ہے، حتی کہ آر ایس ایس اور مسلم لیگ کی تجاویز، سرگرمیوں اور ان کے لیڈروں کی تحریروں، خطوط اور بیانات سے بھی وافر شواہد فراہم ہوتے ہیں کہ بھارت کو تقسیم کی دھکیلنے کا کام ہندو اکثریتی سماج کے مسلم مخالف فرقہ وارانہ ذہنیت کے لیڈروں نے کیا تھا، آج کی تاریخ میں ان کی نمائندگی، بی جے پی، آر ایس ایس اور وہ دیگر فسادی عناصر کرتے ہیں جو مساجد و مزارات کے انہدام اور مسلمانوں اور ان کے گھروں اور کاروبار حیات کو مسلسل نشانہ بناتے ہیں، نفرت انگیز فرقہ وارانہ تقسیم اور سیاسی فوائد و مقاصد کے حصول کے لیے کیے جانے والے پولرائزیشن کے عمل سے ملک کی ترقی و تعمیر کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہونے کے ساتھ، سماج کی تقسیم کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے ، یہ صورت حال کسی نہ کسی درجے میں مختلف طریقوں سے شمال مشرق کی ریاستوں منی پور، تری پورہ وغیرہ میں پیدا کی جا رہی ہے، یہ کچھ الگ رنگ ڈھنگ سے بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں بھی نظر آتا ہے، اس سلسلے کی کئی باتوں کی طرف کانگریس کے لیڈروں، راہل گاندھی، کھرکے، طارق انور، اجے کمار وغیرہم نے بھی آشارے کیے ہیں، اجے کمار نے باقاعدہ پریس کانفرنس میں بی جے پی والوں کو پیدائشی فسادی قرار دیتے ہوئے کانگریس کارکنوں پر مسلسل حملوں کو اسٹیٹ دہشت گردی بتایا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر سرحدی علاقوں میں بھارت مخالف عناصر کی سرگرمیوں کی چھوٹ دی گئی تو ملک غیر محفوظ اور تقسیم ہو جائے گا، غیر محفوظ حالت میں ملک کی تقسیم کی بات بڑی سنگین ہے، اس تناظر میں بہت سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے اور اس کی سنگینی اور حساسیت سے اہل وطن کو بھی آگاہ و روشناس کرانے پر خصوصی توجہ دینا چاہیے ،کانگریس اور اپوزیشن پارٹیوں کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ بی جے پی کو سماج کی نفرت انگیز تقسیم اور پولرائزیش کی سیاست وراثت میں ملی ہے اس سے سنگھ، بی جے پی کو الگ کر کے بہتر تبدیلی کے راستے پر گامزن کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، محض نام کی تبدیلی سے کوئی خاص ہونے والا نہیں ہے، ہندو مہا سبھا، جن سنگھ، ساورکر، گرو گولولکر سے لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی، اڈوانی، مودی، ساہ، یوگی، بھاگوت تک کے سفر میں باریکی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ پولرائزیش اور نفرت انگیز سماجی تقسیم کی سیاست میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی ہے، عام انتخابات میں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی کے حصے کا ریزرویشن لے کر مسلمانوں کو دینے کی بات مودی، یوگی، ساہ وغیرہم نے آخر کس مقصد سے کہی تھی، نفرت انگیز تقسیم و تفریق کا عمل، مختلف عنوانات و موضوعات کے تحت مسلسل جاری ہے، ابھی حال ہی میں وزیر داخلہ امت ساہ نے ہریانہ کے مہندر گڑھ کی سینٹرل یونی ور سٹی کے احاطے میں منعقد سمان سمیلن میں خصوصی مہمان کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کانگریس کو مسلمانوں کو او بی سی کا ریزرویشن کبھی نہیں دینے دیں گے، یہاں یہ سوچا جا سکتا ہے کہ ہریانہ کے 2.54 کروڑ ہندوؤں کو 17/لاکھ مسلمانوں سے ڈرانے کا کیا مطلب ہے، عام انتخابات سے ہی مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے نام پر ان کے خلاف بیانیہ سیٹ کرنے کی زبردست منصوبہ بند کوششوں کا سلسلہ جاری ہے، مسلم اقلیت کے سہارے ایک تیر سے دو شکار کرنے کا ہانکا لگایا جا رہا ہے، ایک طرف جہاں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی کو حصے چھیں لینے کا ڈر دکھا کر مسلمانوں کو ان سے الگ تھلگ کرنے کا مذموم کام کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف کانگریس اور اپوزیشن پارٹیوں سے مذکورہ طبقات کو دور کر کے، بی جے پی کے پالے میں لانے کا جی توڑ جتن کیا جا رہا ہے، یہ اچھی بات ہے کہ گانگریس وغیرہ کی سمجھ میں آ گیا ہے کہ اسٹیٹ دہشت گردی اور سرکار کی سر پرستی میں فساد و انہدام اور تباہی پھیلانے کے اثرات و نتائج کس شکل میں مرتب و برآمد ہوتے ہیں؟مسلم اقلیت خصوصا اس کے نوجوانوں پر کس طرح ٹاڈا، پوٹا، یواے پی اے اور دیگر قوانین کا غلط استعمال کر کے مین اسٹریم سے الگ اور ایک کمیونٹی کو اپاہج بنانے کا کام کیا جاتا رہا ہے، اس میں کانگریس کی بھی مرکزی و صوبائی سرکاریں ملوث رہی ہیں اگر شروع سے ہی کانگریس اور دیگر مبینہ سیکولر پارٹیاں ایمان داری سے سیکولر ازم، جمہوریت اور مساوات و انصاف کو بنیاد بنا کر فرقہ پرست طاقتوں اور دھرم کو دھندہ کی شکل دینے کی کوششوں کے خلاف موثر جدوجہد اور اقدامات کرتیں اور ہندوتو کی سب سے بڑی محافظ و علمبردار بننے کی للک نہ پالی جاتی تو یہ موجودہ حالات پیدا نہ ہوتے اور نہ اچھے دن میں برے دن دیکھنے پڑتے، کانگریس سمیت دیگر غیر بی جے پی پارٹیوں نے ہندوتو پر مبنی برہمن وادی پرتیکوں (علائم )کا استعمال کر کے اکثریتی سماج کے رائے دہندگان کو اپنے ساتھ لانے کی بے پناہ خواہش پال کر سیکولر ازم اور جمہوریت کو کمزور کرنے کا کام کیا ہے، نظریاتی بنیادوں اور فکری جڑوں سے الگ ہو کر سیاسی اقتصادی استحکام کے لیے کچھ بھی کرنے پر آمادہ ہو جانے کی صورت میں بھی بہتر نتائج کی توقع، غیر ضروری خود اعتمادی اور نقصان دہ خوش فہمی ہے، کراس ووٹنگ اور پالا بدلنے کی جڑ میں آخر کیا مقصد کارفرما ہے؟اس جواب کا بہت واضح ہے، اگر بکاؤ اور وفاداری بدلنے والے عناصر کے خلاف یہ سوچ کر کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جائے گی کہ وہ مخالف پارٹیوں میں چلے جائیں گے تو مفید و موافق اثرات کیسے مرتب ہوں گے، اس طرح کی غلطیاں ماضی میں، بر سر اقتدار رہتے ہوئے فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف موثر اقدامات نہ کر کے بھی کی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں سیکولر مخالف، شدت پسند فرقہ پرست عناصر کو سماج میں بڑھاوا ملا، جن کا بھر پور استعمال بی جے پی، آر ایس ایس وغیرہ نے اپنے مقاصد و عزائم کی تکمیل کے لیے کیا اور آج بھی کیا جا رہا ہے ،اس کا دائرہ سیاسی میدان سے آگے اقتصادی، تہذیبی و مذہبی زمینوں تک وسیع ہو گیا ہے، اب مودی جی صرف ملک کا وزیراعظم بنے رہنے پر اکتفا و قناعت نہیں کر رہے ہیں بلکہ بھگوان، اوتار، روحانی دھرم گروبھی بننے کی بے پناہ خواہشات رکھتے ہیں، اور یہ للک اس قدر بڑھ گئی ہے کہ مادر تنظیم آر ایس ایس کو بھی بار بار ان پر قدغن لگانے کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے، ایسی حالت میں شنکر آچاریہ کا منصب بھی کوئی زیادہ با معنی نہیں رہ جاتا ہے، اس کا اظہار رام مندر کی پران پرتشٹھا پروگرام میں پوری طرح ہوچکا ہے، اس کو شنکر آچاریہ شدت سے محسوس کر رہے ہیں، ابھی حال فی الحال شنکر آچاریہ اویمکتیشورنند نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ سیاسی لوگ مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں اس کے بعد ہی ہماری طرف سے سیاسی معاملے میں مداخلت بند ہوگی لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ بی جے پی، آر ایس ایس، مودی، یوگی، ساہ اور دیگر لیڈروں کی طرف سے فرقہ وارانہ تفریق و تقسیم اور مذہب کا سیاسی مقاصد کے لیے کھلا استعمال نہیں ہو گا؟ ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے، مودی، بی جے پی کے حامی عناصر کی طرف سے پہلے کی طرح شنکر آچاریہ وغیرہ کی معتبریت پر ہی سوالات و شکوک کیے جا رہے ہیں، ساتھ ہی فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی ہر ممکن سعی کی جا رہی ہے، کانوڑ یاترا کی راہوں کی دکانوں، ہوٹلوں، ٹھیلوں پر نام لکھنے کا آرڈر کا مقصد کچھ اور نہیں ہے، سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس عملی طور سے محض ایک نعرہ اور جملہ بن کر رہ گیا ہے، اسے فرقہ وارانہ فکر و عمل پر پردہ ڈالنے کے لیے لگایا جاتا ہے، اب اسے دکھاوے کے لیے بھی انگیز کرنے کی ضرورت محسوس کی نہیں جا رہی ہے کہ کچھ لوگ اس سے متاثر نہ ہو جائیں، مغربی بنگال کے بی جے پی لیڈر، سبھیندو ادھیکاری کھل کر سب کا ساتھ، سب کا وکاس کی مخالفت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ جو ہمارے ساتھ ہیں، ایسا کر کے بی جے پی لیڈر ادھیکاری اور بسوا سرما وغیرہم حق رائے دہی کی آزادی کو ختم کر کے ملک کو فاشزم کی طرف لے جانے کی مذموم کوشش کررہےہیں، یہ صورت حال ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور جمہوریت کے لیے بڑا چیلنج ہے، اس کا مقابلہ تمام امن و اتحاد پسند اور جمہوریت و سیکولر نواز ہندستانیوں کو لازما کرنا ہوگا، بہ صورت دیگر ملک کی قومی یک جہتی اور شہری آزادی معرض خطر میں پڑ جائے گی۔