عبدالرحیم خان
__________________
۲۰۰۷ میں ایک فلم آئ تھی Gandhi – My Father, باکس آفس پہ کچھ زیادہ کامیاب تو نہ رہی پر کئ نیشنل اور کریٹِکس اوارڈز یافتہ تھی۔ اس فلم میں مہاتما گاندھی اور انکے بڑے بیٹے ہری لال گاندھی کے بیچ کے منفی رشتوں کو دکھایا گیا ہے۔ گاندھی کا خود بھی کہنا تھا کہ “مجھے دو لوگوں کو قائل نہ کر پانے کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔ ایک جناح جو دو ملکی نظریہ رکھتے ہیں اور دوسرا میرا اپنا بڑا بیٹا ہری لال گاندھی جسے میرے ہر کام سے اختلاف ہے”۔
میں باپ بیٹے کی کہانی پڑھ رہا تھا اور مجھے انبیاء و رسل اور بڑی عالمی شخصیات کی کئ مثالیں یاد آتی آگئیں جن سے دو باتیں بالکل واضح تھیں، ایک کہ آپ خواہ کتنے بھی عظیم ہوں پر ضروری نہیں کہ اپنے جیسی عظمت و صلاحیت اپنی اولاد میں بھی ودیعت کرسکیں (انك لا تهدى من أحببت)، دوسرے اینکہ اولاد کتنی بھی کوشش کرلے پر ضروری نہیں کہ اس کے پیر باپ کے جوتوں میں فِٹ آسکیں۔
آباء و اجداد کی لیگیسی / میراث کو آگے بڑھانا نہایت ہی قابل تحسین عمل ہے۔ پر اللہ کی طرف سے دی گئ نسبتاً کم استعداد کے باوجود زبردستی آباء و اجداد کے جوتوں میں اپنا پیر گھسانے کی کوشش کرنا نہ صرف اپنے پیروں کو زخمی کرنا ہے بلکہ آباء و اجداد کے چھوڑے ہوئے جوتوں کو بھی پھاڑنے جیسا ہے۔
ہر شخص کو اللہ نے مختلف بنایا ہے، اس کا اپنا ایک دائرہ کار اور اپنی منفر صلاحیت ہے، انسان اسی میں رہ کر کام کرے تو شاید مختلف نوعیت کے ساتھ ساتھ اپنے آباء و اجداد کی میراث سے بھی بہتر نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ البتہ “باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو، پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیوں کر ہو” جیسی فرسودہ باتوں کے چکر میں آکر اگر وہ یہ کوشش کرے کہ مجھے قدم بہ قدم اور ہو بہ ہو اپنے باپ کو کاپی کرنا ہے، انہیں کے جیسا محرر و مقرر بننا ہے تو پھر شاید وہ اپنے باپ کی لیگیسی کے علاوہ اپنی بھی صلاحیتوں کے ساتھ خیانت کا مرتکب ہورہا ہے۔
یہ سطور لکھنے کی ضرورت اسلئے پڑی کہ میں آئے دن فیسبوک اور دیگر سوشل پلیٹ فارمز کے حوالے سے دیکھتا ہوں کہ بعض بہت باصلاحیت احباب بجائے اسکے کہ اپنی منفرد صلاحیتوں کا استعمال کرکے اپنی ذات اور عوام الناس کے لئے نفع بخش بنیں، اس کوشش میں زیادہ رہتے ہیں کہ اپنے بزرگوں کی زبان اپنے منہ میں کیسے لگا سکیں، ان کا انداز اور انکی بوڈی لینگویج کیسے اپنا سکیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کوشش میں اپنی ذات کو تو مجروح کرتے ہی ہیں اپنے آباء و اجداد کی میراث کو بھی تنقید کے کٹگھرے میں لا کھڑا کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ یاد رہے نقالی مِمکری آرٹسٹ بناتی ہے، ایکٹر و سوپر اسٹار نہیں!