۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

شیخ الحدیث مولانا عبد الحمید صاحب قاسمی کی وفات

محمد قمر الزماں ندوی

___________________

موت اس کی کرے جس پہ زمانہ افسوس
یوں مرنے کو یہاں روز مرا کرتے ہیں

آج مورخہ 3/ اگست 2024ء بروز ہفتہ بعد نماز مغرب یہ خبر ملی کہ مشہور اور متدین عالم دین
دارالعلوم الرحمانیہ تالاب کٹہ حیدرآباد کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحمید صاحب قاسمی کا مختصر سی علالت کے بعد حیدرآباد میں انتقال ہوگیا، وہ حضرت مولانا ثمیر الدین صاحب قاسمی حال مقیم مانچیسٹر برطانیہ اور مولانا محمد قاسم صاحب قاسمی سابق پرنسپل مدرسہ شمس الھدیٰ پٹنہ اور مولَانا محمد طاہر حسین گیاوی رحمةالله عليه کے درسی ساتھیوں میں تھے۔
مولانا کی پیدائش ضلع بھاگلپور کی ایک مشہور بستی بیربل پور سنہولہ میں ہوئی ،تاریخ پیدائش 1948ء کے آس پاس ہے ۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی ، پھر ثانوی تعلیم کے لیے مدرسہ اسلامیہ اٹکی رانچی اور مدرسہ اعزازیہ پتنھہ بھاگلپور میں داخلہ لیا ،اعلی تعلیم کے لیے دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں کئی سال تعلیم حاصل کر کے 1970ء میں سند فراغت حاصل کی ، وہ کافی ذہین ذی استعداد سنجیدہ تھے ،اپنے زمانہ میں دار العلوم میں طلبہ کو درسی کتابوں کا مذاکرہ کراتے تھے ،بقول حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب وہ میرے ساتھیوں میں بہت ذہین اور باصلاحیت تھے، میں خود ان کے مذاکرے میں بیٹھتا تھا اور بڑا فائدہ ہوتا تھا ۔ فراغت کے بعد مدرسہ اجراڑہ میرٹھ میں سات سال تک تدریسی خدمت انجام دیں ۔ پھر 1978ء میں تدریسی خدمات کے لیے مدرسہ شمسیہ گورگاواں میں تقرر ہوا – ،جہاں وہ مشکوة، ہدایہ، جلالین اور دیگر اہم کتابیں پڑھاتے رہے ، ملازمت سے سبکدوشی کے بعد مدرسہ مصابح العلوم اہرو چلنا کے مہتمم منتخب ہوئے، لیکن یہاں ان کی علمی طبیعت کو سیرابی نہیں ہوئی اور تشنگان علم کی تشنگی دور کرنے کے لیے حیدرآباد تشریف لے گئے – اور جامعہ رحمانیہ کے شیخ الحدیث منتخب ہوئے اور اپنی خدَا داد صلاحیتوں سے طلبہ کو فیض پہنچاتے رہے ۔ مولانا کی علمی صلاحیت بہت پختہ تھی اور ذہن بہت اخاذ تھا۔
ایک بار مدرسہ شمسیہ میں تفسیر کے گھنٹے میں ان کے درس میں بیٹھنے کا شرف اس راقم آثم کو حاصل ہوا۔ خلق کریم اور خلق عظیم میں کیا فرق ہے اس کی بہترین تفسیر کی، آیت تھی انک علی خلق عظیم سورہ ن کی ابتدائی آیات کی تفسیر، میں بہت متاثر ہوا اور مولانا کی قابلیت کا معترف ہوکر گھر واپس ہوا ،ان دنوں میں ندوہ میں زیر تعلیم تھا ، مولانا کی کچھ علمی اور تصنیفی خدمات بھی ہیں اگر چہ مولانا مرحوم تدریسی ذمہ داریوں کی وجہ سے اس کی طرف زیادہ متوجہ نہیں ہوسکے، اگر وہ تصنیف و تالیف کی طرف توجہ کرتے تو بہت اعلی درجے کے مصنفین میں ان کا شمار ہوتا، بہر کیف مولانا بہار، خصوصا ضلع بھاگلپور کی بڑی علمی شخصیت تھے ، ان کی وفات سے علمی حلقہ کا بڑا نقصان ہوا ہے ، وہ تفسیر حدیث اور فقہ پر کامل عبور رکھتے تھے۔
اللہ حضرت والا کی مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے اور تمام متعلقین وارثین کو صبر جمیل عطا فرمائے نیز امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نوروستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: