Slide
Slide
Slide

ہمارا نصاب ونظام

از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری

سابق استاذ دارالعلوم دیوبند

___________________

خالص اسلامی نصاب تعلیم میں منطق اور فلسفے کا اضافہ، جدیدیت وزمانیت پر مبنی تھا، زمانہ شناس ذہنوں نے اپنے عہد کے فکری رجحانات اور علمی تقاضوں پر لبیک کہا تھا، ہم اس ذہنی افق اور علم وشعور کے اس دائرے کو تازہ بہ تازہ رکھنے اور آگے بڑھانے میں ناکام رہے۔

ناچیز نے نصاب ونظام سے متعلق اپنے قسط وار مضامین میں صباحی ومسائی تقسیم پر زور دیا تھا، دینی تعلیم صبح کی چار ساعتوں تک محدود رہے اور شام کے دونوں گھنٹوں میں عصری مضامین پڑھائے جائیں اور اس نظام کی تطبیق بسم اللہ یعنی قاعدہ بغدادی یا نورانی قاعدے سے ہو اور سالِ چہارم تک جاری رہے، پنجم سے پورا وقت نصابِ عالمیت کے لیے مختص ہو جائے۔

ہمارے آٹھ سالہ نظام میں ابتدائی چار سال مجرد زبانیں پڑھائی جائیں، علمی زبانیں بھی اور عصری زبانیں بھی، اس دوران کوئی علم وفن متعارف نہ کرایا جائے، یہاں نحو وصرف کا استثناء ہے کہ وہ دونوں فن عربی زبان کے لیے ناگزیر ہیں، باقی فنون انتظار خانے میں رکھے جائیں۔

اس چار سالہ میعاد میں وقت کا الاٹمنٹ عربی زبان اور باقی زبانوں کے ما بین نصف کی شرح پر تقسیم ہو، آدھا وقت صرف عربی کے لیے اور آدھا تین زبانوں کے لیے، دیگر زبانوں میں اردو زبان کو دوسری علمی وفکری زبان کا درجہ دیا جائے، انگریزی کو عالمی اہمیت اور رابطے کی زبان کی حیثیت سے لیں اور ایک تیسری زبان کو مقامی وعلاقائی زبان کے طور پر شامل کیا جائے، جیسے یوپی میں ہندی اور کرناٹکا میں کنڑ، مقامی زبان کو کسی بھی صورت نظر انداز نہ کیا جائے، ہماری یہ کمزوری دنیاوی لحاظ سے معذوری اور علمی وفکری نقطۂ نظر سے خود کشی ہے۔

رب کائنات نے انبیاء کرام کی بشری لیاقتوں میں زبان دانی اور سخن وری کو نمایاں کیا ہے، قرآن پاک میں یہ مضمون متعدد جگہ وارد ہے، وہ عصری زبان کے مثالی خطیب اور موثر مکالمہ گو ہوتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معجز بیانی قریش کے لیے صاعقہ اثر تھی، ہزار تاویل والے دماغ فصاحت وبلاغت کے سامنے سپر ڈال دیتے تھے، انبیاء کی اس مشترکہ وراثت کے تئیں وارثین انبیاء کس طرح بے خبر یا لاتعلق رہ سکتے ہیں!!!

میرے قارئین کو حیرت ہو سکتی ہے کہ میں بنگلور کی مقامی زبان کنڑ سیکھ رہا ہوں اور تینوں بچوں کے لیے بھی اس زبان کی تعلیم کا بندوبست کیا ہے، اہلیہ بنگلور نژاد ہیں اور وہ علاقائی زبان سے واقف ہیں، یہ اس وقت ہے؛ جب کہ میں نے ہنوز کشتی نہیں جلائی ہے اور میری بنگلور سکونت ہر گز ہر گز مستقل نہیں ہے۔

ہم طلبہ کو پابند بناتے ہیں کہ وہ آئندہ سبق کا مطالعہ کر کے آئیں، گویا ہم یہ کہتے ہیں کہ اردو شروحات پڑھ کر آئیں؛ کیوں کہ حواشی اور مراجع تو عربی میں ہیں، آپ چہارم تک مجموعی وقت کا نصف عربی زبان کو دیں، سالِ پنجم میں جب پیشگی کتاب بینی کا حکم دیں گے تو طالبِ علم ہدایہ حل کر کے آئے گا۔

آئندہ تین سالہ میعاد میں صرف اور صرف اسلامی علوم وفنون پڑھائے جائیں، قرآن، سنت، فقہ اور ان کے علوم پر مشتمل کتابیں اور مضامین کا درس دیا جائے، ہدایہ، جلالین، مشکاۃ اور کتب تسعہ کو ماورائے نظر ثانی قرار دے کر باقی مضامین کے لیے کتابیں تیار کی جائیں یا منتخب کی جائیں۔

آٹھویں سال، یعنی دورۂ حدیث شریف میں طلبہ کو خالص سنتِ نبوی کے آبشاروں کا بپتسمہ دے کر فارغ کر دیا جائے، دین کی عام خدمات کے لیے تازہ کھیپ تیار ہے، یہ گروہ منبر ومحراب کے تقاضے پورے کرے گا، مکاتب ومدارس کی آب پاشی کرے گا، تبلیغی ودعوتی محاذوں میں کارگر ہوگا، معاشروں کو روشنی فراہم کرے گا؛ غرض دین کے عنوان سے ہزار کام انجام دے گا، نیز عصری اداروں کی طرف دیکھتا ہوگا تو اس کی بنیادی اہلیت سے بھی لیس ہوگا۔

ہاں مگر یہ محقق ومتخصص نہیں ہوگا، ممکن ہے وہ مصنف وتخلیق کار بھی نہ ہو، وہ علم کا دریا بھی نہیں ہو گا، علوم وفنون میں امامت واجتہادی شان کے ہیرے تراشنے کے لیے آپ کو اسلامی علوم کے تخصصات متعارف کرانے ہوں گے اور مذکورہ بالا گروہ میں سے ایک تعداد کو مزید دو سالہ یا تین سالہ اختصاصی نصاب کے لیے منتخب کرنا ہوگا۔

یہ وہ تعداد ہے جو تفقہ فی الدین کے لیے وقف ہوگی اور جن کی زندگی کا سوختہ اسلامی علوم کی نذر ہو گا، یہی اسلام کی کرامت کہلائیں گے، یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارثین اور صفہ کے جانشین ہوں گے اور اسلام کی معجز نمائی کا سفر اسی برگزیدہ جماعت کے شانوں پر رواں دواں رہے گا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: