محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
___________________
عرس رضوی، جو کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے فیض و برکات کو حاصل کرنے اور ان کی تعلیمات کو عام کرنے کا ایک عظیم موقع ہوتا ہے، ہر سال نہایت ہی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس سال 2024 کا عرس رضوی بھی روایتی جوش و خروش کے ساتھ منعقد ہوا، لیکن اس تقریب میں چند ایسے اہم اور ضروری مسائل پر خاموشی اختیار کی گئی جو کہ آج کے دور میں مسلمانوں کے لیے نہایت ہی اہم اور حساس ہیں۔
مفتی سلمان ازہری کی رہائی کے لئے آواز کیوں نہ اٹھی؟
سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عرس رضوی کے مختلف اسٹیجوں سے مشہور بریلوی خطیب مفتی سلمان ازہری کی رہائی کے لیے کوئی آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی؟ مفتی سلمان ازہری، جو کہ بریلوی تحریک کے ایک اہم نمائندہ ہیں، ان کی گرفتاری پر مسلم عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ لیکن افسوس کہ اس عرس کے موقع پر اس سنگین مسئلے پر کسی نے بھی لب کشائی نہیں کی۔ اس خاموشی کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ایسے مواقع پر، جب لاکھوں افراد کا اجتماع ہوتا ہے، ایسے مسائل کو اجاگر کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ ملت کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔
وقف امینڈمینٹ بل 2024 پر خاموشی کیوں؟
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت کی جانب سے پیش کردہ وقف امینڈمینٹ بل 2024، جسے مسلم اوقاف کے حقوق پر ایک حملہ سمجھا جا رہا ہے، اس پر کوئی گفتگو کیوں نہیں کی گئی؟ وقف املاک مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے لیے ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتی ہیں، اور ان پر حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات پر مسلمانوں کو شدید تشویش ہے۔ عرس رضوی جیسے بڑے اور مؤثر پلیٹ فارم سے اس مسئلے پر آواز بلند نہ کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔
فلسطین کے مظلوموں کی حمایت میں کوئی آواز کیوں نہیں؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ فلسطین میں جاری اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف کوئی آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی؟ فلسطینی عوام اس وقت نہایت ہی کٹھن حالات سے گزر رہے ہیں، اور دنیا بھر کے مسلمان ان کے لیے دُعاگو ہیں۔ ایسے میں عرس رضوی جیسے اہم موقع پر فلسطینی مظلوموں کی حمایت میں تقاریر نہ ہونا باعث حیرت ہے۔ کیا یہ موقع نہیں تھا کہ مسلمانوں کے ذہنوں کو فلسطین کی امداد کے لیے تیار کیا جاتا اور انہیں مختلف امدادی تنظیموں سے رابطہ کرنے کی ترغیب دی جاتی؟
آسام کے وزیر اعلیٰ کے مسلم مخالف اقدامات پر خاموشی کیوں؟
آسام کے فرقہ پرست وزیر اعلیٰ نے جمعہ کی نماز کے لئے دی جانے والی دو گھنٹے کی چھٹی کو منسوخ کر دیا، جو کہ ایک مسلم مخالف اقدام ہے۔ اس کے خلاف کوئی آواز کیوں نہیں اٹھی؟ یہ سوال بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جمعہ کی نماز مسلمانوں کے لیے ایک دینی فریضہ ہے، اور اس کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالنا ان کے دینی حقوق پر حملہ ہے۔
مسلمانوں کے موجودہ مسائل پر غور و خوض کیوں نہیں؟
آج ہندوستان میں مسلمان بے شمار مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسے میں عرس رضوی کے پلیٹ فارم سے ان مسائل پر غور و خوض نہ کرنا انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ اس کے بجائے، صرف روایتی بلند بانگ تقاریر اور غیر متعلقہ موضوعات پر گفتگو کی گئی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کسی جنگ کا اعلان کیا جا رہا ہو، جب کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ ملت کے مسائل پر سنجیدگی سے گفتگو کی جاتی اور ان پر غور و خوض کیا جاتا۔
نتیجہ:
عرس رضوی 2024 میں جس طرح اہم مسائل پر خاموشی اختیار کی گئی، وہ ملت کے لیے نہایت ہی مایوس کن ہے۔ یہ وقت مسلمانوں کے اتحاد اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کوششوں کا ہے، نہ کہ روایتی تقاریر اور غیر ضروری موضوعات پر وقت ضائع کرنے کا۔ امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں ایسے اہم مواقع پر ملت کے مسائل کو ترجیح دی جائے گی اور ان کے حل کے لیے غور و خوض اور عملی اقدامات کیے جائیں گے۔