مفتی ناصرالدین مظاہری
(مدرسہ مظاہر علوم وقف، سہارنپور)
___________________
جامعۃ الرشید کراچی کے معزز اہل انتظام کی عنایات سے تیس قدیم اساتذہ کو پاکستانی 65لاکھ روپے کا ایک ایک پلاٹ مستقلا عنایت فرمایا گیا ہے، اس اقدام کی دنیا بھر میں خوب پذیرائی ہوئی اور ہونی بھی چاہیے۔
قوم کا دل الحمدللہ اب بھی بہت بڑا ہے، قوم چاہتی ہے کہ طبقہ علم وعلماء سرخرو رہے۔
مجھے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کا قول یاد ہے فرمایا کہ *جب جب میں نے طلبہ واساتذہ کے لئے کوئی راحت رسانی اورآسانی پر عمل کیا ہے اللہ نے غیب سے اس کےلئے آسانیاں مہیا فرمائی ہیں۔*
یہ واقعہ چونکہ بالکل نیا ہے، اس لئے پذیرائی ہونی ہی چاہیے، اس کو مثال اور نظیر بناکر بہت سے لوگ دیگر مرکزی مدارس سے کے ذمہ داران سے بھی فرمائش کرنے لگے ہیں ،اس سلسلہ میں صاف صاف بتانا ضروری ہے کہ جامعۃ الرشید کی طرف سے یہ قیمتی پلاٹ نہیں دئے گئے بلکہ مہتمم صاحب سمیت چند اہل خیر صاحبان ثروت نے یہ نیک کام مل کر کیاہے۔ اگر مدرسہ کی طرف سے ایسا ہوتا تو یہ کام آسان نہ ہوتا، اس کے لئے چندہ دہندگان کے سامنے کھل کر صراحت اور وضاحت ضروری ہوتی۔ مستقل مد قائم کرنی پڑتی اور پھر مستحق غیر مستحق کا نظام بھی طے کرنا پڑتا کیونکہ جن کے پاس ذاتی مکانات مقامی سطح پر موجود ہیں ظاہر ہے ان کے ساتھ معاملہ دوسرا ہوتا اور جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے تو ان کے ساتھ معاملہ الگ ہوتا۔ قدیم وجدید کا معیار بھی پیش نظر رکھا جاتا۔
مجھے یاد ہے حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب الہ آبادی نے سب سے پہلے یہ کام کیا تھا حضرت نے بہت سے پلاٹ بلکہ کہہ لیجیے پوری کالونی خرید لی تھی اور اس میں بہت سے پلاٹ تیار کرکے اس وقت کے اساتذہ کو مفت میں ہدیہ فرمائے تھے چنانچہ اس زمانے کے فیض یافتگان میں موجودہ عہد کے نامور بزرگ حضرت مولانا محمد قمر الزماں مدظلہ، معروف صاحب علم و قلم حضرت مولانا عبدالرحمن جامی رح، حضرت مولانا عبدالعلیم عیسی، حضرت مولانا مفتی محمد حنیف جونپوری، حضرت مولانا محمد یوسف بستوی مجاز حضرت محی السنہ ہردوئی، حضرت مولانا محمد عمار الہ آبادی، حضرت مولانا نورالہدی وغیرہم کے نام شامل ہیں۔
دوسری مثال ندوہ کی ہے لیکن ندوہ کی نوعیت تھوڑی سی جدا ہے، ندوۃ العلماء میں اسٹاف کوارٹرز بڑی تعداد میں ہیں اور مسلسل نئی نئی عمارتیں تیار ہوکر اساتذہ ملازمین کو رہائش کے لئے دی جارہی ہیں. شاید ہی کوئی استاذ ہو جو ہنوز محروم ہو۔
تیسری مثال ہمارے قریب میں واقع مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد کی ہے، یہ مدرسہ حضرت مولانا مسیح اللہ خان جلال آبادی کا قائم فرمودہ ہے یہاں کا بھی امتیاز رہا ہے کہ اساتذہ کو ان کی شادی ہوتے ہی مکان کی چابی بلا طلب مل جاتی تھی اور اس کاگواہ حضرت بھائی جان کے زمانے تک تو میں خود ہوں اب پتہ نہیں کیا نظام ہوگا۔ یہاں تو اتنی آسانی اور بھی تھی کہ استاذ کو کھانا بھی مدرسہ سے ملتا تھا اور مکان کے اندر اگر فرنیچر یا کوئی بھی ترمیم و مرمت کرانی ہوتو مدرسہ ہی کرادیتا تھا۔
بالکل یہی حال مدرسہ خادم العلوم باغوں والی ضلع مظفر نگر کا بھی ہے یہاں بھی تقریبا چالیس فیملی مکانات اساتذہ کو ملے ہوئے ہوئے ہیں ، بس یہ مکانات ادارہ کے ہیں اساتذہ کی ملکیت نہیں ہیں۔ اللھم زد فزد
دارالعلوم دیوبند کا نظام بہت بڑا ہے، وہاں اتنے اساتذہ ہیں جتنے اوسط درجہ کے مدرسہ میں طلبہ نہیں ہوتے ہیں، پھر بھی دارالعلوم شروع ہی سے رہائش دیتا رہا ہے اور جب عمارات کم یا ختم ہوگئیں تو دارالعلوم دیوبند نے ایک ریٹ طے کردیاکہ اتنے روپے ماہانہ تک دارالعلوم برداشت کرے گا زیادہ کرایہ ہوتو باقیماندہ کرایہ خود کرایہ دار ادا کرے مثلا پندرہ سو روپے فی مکان دارالعلوم اپنی طرف سے کرایہ کی مد میں آپ کو ہر ماہ دے گا اور اگر کرایہ دوہزار روپے ہے تو اوپر والے پانچ سو روپے خود آپ ادا کیجیے۔
"رموز مملکت خویش خسرواں دانند”بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ دارالعلوم دیوبند نے اچھی اچھی خوبصورت عمارات تیار کرکے اپنے اساتذہ کو مستعار دیں لیکن استاذ کے فوت ہونے کے بعد بھی وارثین نے مکان خالی نہیں کیا جب کہ وارثین سے دارالعلوم کا کوئی بھی تعلق ملازمت وغیرہ کا نہیں ہے، ایسی صورت میں اگر دارالعلوم سختی کرے تو بدنامی، نرمی کرے تو جائداد پر غیرقانونی قبضہ۔ خیر یہ دارالعلوم کا دل وگردہ ہے کہ برداشت کئے جارہاہے۔
ایک اور شخصیت کے بارے میں بھی مجھے معلوم ہے ان کا سینہ بڑا کشادہ، ان کا دل بہت بڑا اوران کا ذہن بڑا وسیع تھا وہ شخصیت ہے فخر المحدثین حضرت مولانا علامہ سید محمد انظرشاہ کشمیری کی، حضرت کی چاہت اورخواہش تھی کہ وقف دارالعلوم دیوبند کے وہ اساتذہ جو قلت مایہ و عدم سرمایہ کی وجہ سے اپنے بیوی بچے شہر دیوبند میں نہیں رکھ پارہے ہیں یا کرایہ کی ذلت اٹھارہے ہیں ایسے اساتذہ کو پلاٹ فراہم کرایا جائے اس سلسلہ میں اگر حضرت کو ان کے دوسرے بڑے ساتھی کاتعاون اور سپورٹ مل جاتا تو یقین جانیں تمام اساتذہ دارالعلوم وقف ایک ہی کالونی میں شان کے ساتھ اپنے ذاتی مکان میں قیام پذیر ہوتے۔ پھر بھی حضرت علامہ انظر شاہ کشمیری نے بعض اساتذہ کو پلاٹ دئے اور مکان کی تعمیر میں بھی خطیر رقمیں عنایت فرمائیں۔
بہر حال جامعۃ الرشید کے مہتمم صاحب کے اس اقدام کی تعریف کی جانی چاہیے لیکن اس کو نظیر بناکر دوسرے اداروں سے بے جا فرمائش نہ کی جائے اور اگر ہوسکے تو آپ جامعۃ الرشید کے مہتمم صاحب اور ان کے ساتھ شامل ہونے والے اہل خیر حضرات کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کیجیے یعنی خیر کی شروعات آپ کیجیے، مخیر صاحبان ثروت لوگوں کو جوڑئے تشکیل کیجیے اور جب کامیابی مل جائے اور کئی پلاٹ کا نظم ہوجائے تو آپ ہی اپنے طورپر تحقیق کیجیے کہ مستحق اداروں کے مستحق اساتذہ کواپنا ذاتی مکان مہیا ہوسکے۔
صرف فرمائش، مطالبات اور نظیر پیش کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ وقف ادارے ہیں، ان اداروں کو چندہ تعلیم وتعلم اور تعمیر و تنخواہوں کے لئے مل رہا ہے اگر مکان کی وضاحت کے ساتھ اہل خیر سے اس کا بھی فارمولہ رکھاجائے اور وہ تعاون کرنے پر تیاریوں تو کوئی حرج نہیں ہے ، چاہے پلاٹ دیں چاہے مکانات دیں یا جو بھی شکل شرعا درست ہو کریں کوئی حرج نہیں۔