بھارتی مسلمانوں پر ارتداد کا خطرہ
ثقافت اور کلچر کے نام پر اسلامی تہذیب سے دور ہوتے جارہے ہیں مسلمان
عبدالغفارصدیقی
9897565066
____________________
اس وقت ساری دنیا میں ہل چل ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کا بڑا الٹ پھیر ہونے والا ہے۔عالمی طاقتوں کا توازن بدلنے والا ہے۔تہذیبوں کے درمیان تصادم اپنی انتہا پر ہے۔ایک دوسرے پر غلبہ کی جنگ عروج پر ہے۔دنیا کی تاریخ میں ایسا پہلے بھی کئی بار ہوا ہے۔ایک وقت وہ تھا جب مسلمان عرب کے ریگزاروں سے اٹھے تھے اور رفتہ رفتہ ساری تہذیبوں پر چھاگئے تھے۔دنیا کے ہر حصہ پر ان کی تہذیب کا عکس تھا۔جن لوگوں کا مذہب اسلام تھا وہ تو اسلامی تہذیب پر فخر کرتے ہی تھے۔لیکن جن قوموں کا مذہب اسلام نہیں تھا وہ بھی اسلامی تہذیب کے زیر نگیں ہونے اور ا س کو اپنانے پر سربلندی محسوس کرتے تھے۔صدیوں تک اسلامی تہذیب غالب رہی۔لنگوٹی باندھنے والے بھی شیروانی پاجامے میں آگئے۔ہیٹ اور کوٹ پہننے والے بھی مسلم اندلس میں جاکر طالب علم بن گئے۔بودوباش ہو یازبان،یہاں تک دستر خوان پر اسلامی تہذیب نمایاں طور پر نظر آنے لگی۔مسلمانوں کے زوال کے ساتھ ہی ان کی تہذیبی اقدار سے کنارہ کشی کی جانے لگی۔اس کے بعد برطانوی سامراج کا دور آگیا۔ عیسائیت زدہ انگریزی تہذیب نے پاؤں پسارے اور چند دہائیوں میں ہی سب پرغالب ہوگئی۔ان کی زبان اور طرز بیان،ان کا لباس،ان کے فنکشن سماج کا جزو بن گئے۔پھر برطانوی سامراج کا سورج غروب ہوگیا،مگر ان کے جانے کے بعد چونکہ مجموعی طور پر کوئی دوسری تہذیب اس کی جگہ لینے کی پوزیشن میں نہیں تھی اس لیے ایک ایسا کلچر وجود میں آگیا جس پر انگریزی کلچر کااثر نمایاں تھا۔تاج برطانیہ سے آزادی کے بعد بھی کسی ملک میں اسلامی نظام کا احیاء نہیں ہوا۔بلکہ وہ برطانوی قانون کی پاسبانی کرتے رہے اس لیے ان ممالک میں برطانوی تہذیب ہی کا جلوہ قائم رہا۔انگریز ممالک نے آزادی دینے کے باوجودکسی نہ کسی طور اپنا شکنجہ کسے رکھا۔اقوام متحدہ کی شکل میں آزاد ممالک کی خود مختاری کو قید کرلیا گیا۔آئی ایم ایف جیسے ادارے بنا کر انھیں معاشی غلام بنا لیاگیا اور بیشتر ممالک پر ان کی کٹھ پتلی حکومتیں قائم آج تک ہیں۔
بھارت بھی آزاد ہوا۔ مگر آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم بھی ہوگیا۔تقسیم کے ساتھ ہی عالمی طاقتوں نے ہمسایہ ممالک میں عداوت و رقابت کا رشتہ قائم کردیا۔ جس کا انجام یہ ہوا کہ وہ تمام ممالک جو آزاد ہونے کے ساتھ تقسیم بھی ہوئے تھے اپنے ہمسایہ ممالک سے ہمیشہ کے لیے حالت جنگ میں آگئے۔عالمی طاقتوں نے انتہائی چالاکی و مکاری سے ان ممالک کو دفاعی اور فوجی امور میں تعاون و مدد کے نام پر اپنے اپنے زیر اثر کرلیا۔اس وقت دنیا کے جتنے بھی ممالک ہیں ان کی خارجہ پالیسی کسی نہ کسی عالمی طاقت کے ماتحت ہے۔اس صورت حال میں انگریزی تہذیب ہر ملک میں قائم رہی اور پھلتی پھولتی رہی۔مسلمان ملکوں کے بیشتر حکمرانوں کی تعلیم امریکہ،برطانیہ،فرانس میں ہوئی اور وہاں سیکولرزم،جمہوریت،آزادی کے پرفریب نعروں سے ان کے دماغوں کو منور کیا گیا۔ دین و مذہب کا تعارف اس طرح کرایا گیا کہ خود انسان اپنے مذہب سے بیزار نظر آنے لگا۔مذہب کو مخالفت،مخاصمت،دقیانوسیت اور آخر کار دہشت گردی سے تعبیر کردیا گیا۔
عالمی سطح پر اس وقت اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر جگہ انگریزی کلچر کا بول بالا ہے۔شراب نوشی کے لیے ہر ملک میں سرٹیفائڈمیخانے موجود ہیں،جنھیں اب بار کہاجاتا ہے۔ڈانس اور رقص کے لائسنس جاری کیے جارہے ہیں۔فاسٹ فوڈ کے نام پر پیزا اور برگر گاؤں کے گلی کوچوں میں پہنچ گیا ہے۔آزادیئ نسواں کے نام پر مغرب نے صدیوں پہلے ہی اسے بازار میں لاکھڑا کردیا تھا اب وومن امپاورمنٹ کے نام پر اس کوجنسی آزادی عنایت کردی گئی ہے۔خاندان کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔جس کے نتیجے میں اولڈیج ہوم وجود میں آئے ہیں۔ذمہ داریوں سے فرار کے لیے لیو ان ریلیشن شپ کو قانونی تحفظ دیا جارہا ہے۔
دنیا بھر کے مسلمان انگریزی تہذیب سے متاثر ہوئے،ان کی نسلیں یوروپ میں آباد ہوئیں اوران میں سے کچھ عیسائی ہوگئیں۔مسلمان اس بات سے خوش ہیں کہ لوگ آج بھی اسلام قبول کررہے ہیں،بہت سی رپورٹوں میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ 2050تک مسلمان دنیا میں سب سے بڑی آبادی ہوجائیں گے۔مگر انھیں یہ معلوم نہیں کہ کتنے مسلمان اپنا دین چھوڑ کر دوسروں کا دین قبول کررہے ہیں۔Emergency Credit Line Guarantee Schemeکی ایک رپورٹ کے مطابق یوروپ میں ہر سال 4000سے 30000تک مسلمان عیسائی ہورہے ہیں۔انٹر نیٹ پر موجود ایک سروے کے مطابق اس وقت بھارت میں ایک کروڑ بیس لاکھ مسلمان وہ ہیں جن کا سابق دین اسلام تھا۔انھیں ایکس مسلم کہاگیا ہے۔ہم ذرا اپنے آس پاس،اپنے شہر وں اور خاص طور پر میٹرو پولیٹن شہروں کا جائزہ لیں تو خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ مسلم نوجوانوں کی خاطر خواہ تعداد عملاً غیر اسلامی تہذیب کو قبول کررہی ہے۔ہم آئے دن مسلم لڑکیوں کی ہندو لڑکوں سے شادی اور ان کے ساتھ فرار ہونے واقعات اخبارات میں پڑھتے ہیں۔مگر ہمیں مسلمانوں کے گھروں میں در آنے والی غیر اسلامی تہذیب نظر نہیں آتی۔
بھارت میں ایک گروہ نے آزادی سے پچاس سال پہلے ہی اس بات کا اندازہ کرلیا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟اسے معلوم تھا کہ انگریز ایک دن ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔اسے یہ بھی معلوم تھا کہ مسلمانوں کی کوئی منظم طاقت نہیں ہے اس لیے وہ ملک کا اقتدار نہیں سنبھال سکیں گے۔اس لیے اس نے اپنی تہذیب کی توسیع و اشاعت اور غلبہ کے لیے منظم کوششیں شروع کیں۔ان کی سو سال کی جدو جہد رنگ لائی اور موجودہ وقت میں وہ ایک غالب تہذیب کے ساتھ ابھر کر سامنے ہیں اور مسلمانوں کے دین و ایمان اور ان کے دینی شعائر کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔
دانشوروں نے تہذیب کے چار عناصر بیان کیے ہیں۔ان میں ایک طبعی ہے جس کے تحت جغرافیائی حالات آتے ہیں۔ایک مخصوص خطے کے لوگ اپنے بہت سے امور میں اپنے جغرافیائی حالات کے پابند ہوتے ہیں۔دوسرا عنصر آلات و اوزار ہیں،جن کے ذریعہ ایک قوم یا ایک خطہ میں رہنے والے لوگ اپنی زندگی کو آسان بناتے ہیں،تیسرا عنصر نظام فکر و احساس ہے۔تہذیب کا یہی عنصر سب سے زیادہ اہم ہے۔انسان کے اعمال کا دارومدار اس کی فکر اور سوچ پر ہے۔وہ اگر موحد ہے اور خداکو تسلیم کرتے ہوئے یہ بھی مانتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے کوئی ضابطہ حیات تشکیل دیا ہے تو اس کے اعمال الگ نوعیت کے ہوں گے۔اس کے بالمقابل ایک ملحد،مشرک اور کافر کے اعمال بالکل متضاد نوعیت کے ہوں گے۔اسی عنصر سے چوتھا عنصر وجود میں آتا ہے جسے ہم سماجی اقدار کہتے ہیں۔ان دونوں عناصر کی فہرست میں ہمارا اخلاقی نظام،ہمارے معاشرتی معلامات،ہماری معیشت و سیاست شامل ہیں۔ہم کیا بولتے ہیں اور کیسے بولتے ہیں،ہمارے یہاں بڑوں سے گفتگو کا سلیقہ اور چھوٹوں کے ساتھ رویہ کن تعلیمات کی بنیاد پر ہوگا۔یہ ہماری تہذیب طے کرتی ہے۔ہم کیا کھاتے ہیں اور کس طرح کھاتے ہیں؟ یہ تہذیب کا موضوع ہے۔ہم سماجی رشتوں کو کس طرح نبھاتے ہیں،ان میں تقدس،حیاء اور ایک دوسرے کے حقوق کا کس طرح خیال رکھتے ہیں؟یہ موضوعات تہذیب کے باب میں زیر بحث آتے ہیں۔مسلمان چونکہ ایک دین رکھتے ہیں۔وہ دین ان کو نبی اکرم ؐکے واسطے سے ملا ہے۔اس دین کی تعلیمات الٰہی ہدایات پر منحصر ہیں اس لیے ان کی تہذیب کا محور قرآن و سنت ہے۔ان کی تہذیبی تاریخ میں توحید و رسالت پر ایمان کے ساتھ ساتھ اکرام انسانیت،تحفظ عصمت،امانت و دیانت،شرم و حیاء،حجاب و ستر پوشی،رزق حلال، کشادہ قلبی،معافی و درگذر،صبر و قناعت،مہمان نوازی ا ور ایفائے عہد جیسے روشن ابواب ہیں۔مسلمان جہاں بھی رہے اور جس حال میں بھی رہے وہ ان مذکورہ اقدار کے امین اور اسلامی تہذیب کے نمائندہ بن کر رہے۔ وہ چاہے امن کی حالت میں ہوں یا خوف کی یہاں تک کہ حالت جنگ میں بھی ہوں،وہ کشادگی کی حالت میں ہوں یا فقرو فاقہ کی،وہ اہل علم میں سے ہوں یا غیر تعلیم یافتہ انھوں نے اکثر اپنی تہذیبی روایات کو برقرار رکھا۔
مگر موجودہ صورت حال یکسر بدلی ہوئی ہے۔ہمارے کسی عمل سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہم اپنی ایک مستقل اور پائیدار تہذیب کے امین ہیں۔ ہمارے یہاں جو رسومات انجام دی جاتی ہیں ان میں سے نوے فیصد مشرکانہ رسوم ہیں۔خواہ ان کا تعلق پیدائش سے ہو یا موت سے،خوشی سے ہو یا غم سے۔ ہم گفتگو کے آداب بھول گئے۔بزرگوں کا احترام اور بچوں سے شفقت کو فراموش کربیٹھے۔انبیاء و صلحاء کے تذکرے تو دور ہم ان کے ناموں سے بھی واقف نہیں۔کھانے کی دعائیں تو کب کی بھول بیٹھے ہیں اب تو دستر خوان کی جگہ بوفے نے لے لی ہے اور کھڑے ہوکر کھانے کے فضائل و مناقب بیان کیے جارہے ہیں۔ملاقات کے آداب میں تسلیمات کی جگہ گڈ مارننگ اور Hii اور By نے لے لی ہے۔نمشکار اور ہاتھ جوڑنے کا چلن عالم ہوتا جارہا ہے۔شمالی ہند میں سرکاری اسکول ششو مندر بن کر رہ گئے ہیں۔نجی تعلیمی ادارے بھی سنگھ کے زیر اثر ہیں اور مسلم تعلیمی ادارے ان کی نقالی میں ایک دوسرے سے مقابلہ کررہے ہیں۔
کوئی مخصوص زبان اگرچہ تہذیب کا لازمی عنصر نہیں،مگر بھارتی مسلمانوں کا تہذیبی سرمایہ ایک مخصوص زبان اردو سے تعلق رکھتا ہے۔اسی اردو سے ہم نابلد ہوتے جارہے ہیں،مدارس اسلامیہ اور مساجد کے ہدایت نامے بھی اردو کے بجائے ہندی میں نظر آنے لگے ہیں۔قومی تہواروں کو جوش و خروش سے منانا اچھی بات ہے،لیکن مساجد میں قومی ترانے اور قومی پرچم لہرانے کی روایت اسلامی تہذیب سے مغائر ہے۔اس بار تو حد ہوگئی۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں مسجد میں جن گن من گایا جارہا ہے اور مولانا صاحب اس کی وضاحت میں فرما رہے ہیں کہ اس گیت میں خدا کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ایک دوسری مسجد میں یوم آزادی کے موقع پررقص کے لبادے میں ایکشن ترانے ہورہے ہیں اور اس کی افادیت پر ایک عالم دین مصر ہیں۔
یہی تہذیبی یلغار ایک دن انسان کے عقائد کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔رفتہ رفتہ انسان ایک تہذیب سے دوسری تہذیب میں داخل ہوجاتا ہے اور اس کا دین کب بدل گیا اسے پتا بھی نہیں چلتا۔جب دنیا میں ایک مسلمان اور ایک غیر مسلم کی بودو باش اور انداز فکر میں کوئی فرق نہیں ہوگا تو انجام بھی یکساں ہوگا۔اسی بات کو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا:”من تشبہ بقوم فھو منہم“ (ابوداؤد)جو کوئی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ ان ہی میں شمار کیا جائے گا۔اس جانب اہل حل و عقد کو فوراً توجہ دینا چاہئے اور ہندو تہذیب کی یلغار سے خود کو اور آنے والی نسلوں کو بچانے کی تدابیر اختیار کرنا چاہئے ورنہ ارتداد کی آندھی سب کو اپنے ساتھ اڑا لے جائے گی۔