Slide
Slide
Slide

جمہوری اور سیکولر ملک میں  بقائے باہم کے  اصول

جمہوری اور سیکولر ملک میں

بقائے باہم کے اصول

✍️ مسعود جاوید

___________________

پچھلے دنوں ٹرین پر سوار بعض مسافروں کا ریل گاڑی کے ڈبوں کی راہداریوں میں نماز ادا کرنے کے موضوع پر کچھ لکھا تھا اس پر بعض پرجوش مسلمانوں بالخصوص فارغين مدارس اور دینی جماعتوں سے نسبت رکھنے والوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس تحریر کو مرعوبیت اور بزدلی پر مبنی تحریر قرار دیا تھا۔
اب ایک دوسرا معاملہ ممنوعہ یا غیر ممنوعہ گوشت لے کر سفر کرنے کا سامنے آیا ہے۔ مجھے یقین ہے اس پر بھی کچھ لکھنا ان کو ناگوار گزرے گا۔

دراصل ایسے سلوک اور رویے کی وجہ تعلیم و تربیت کی کمی ہوتی ہے۔ ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے جس کا دستور ، بلا تفریق مذہب، ذات پات ، رنگ و نسل اور علاقہ ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب، رسم و رواج ، کھانے پینے اور پہننے کی آزادی دیتا ہے ۔ ہمارے ملک کا آئین شخصی آزادی کا حق کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی حقوق کی ضمانت دیتا ہے لیکن حقوق کے ساتھ فرائض بھی آتے ہیں۔ مطلق آزادی انارکی کی طرف لے جاتی ہے۔ حقوق اور فرائض کا بہت حد تک چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مہذب معاشرہ کا دستور جہاں ہمیں بہت ساری آزادیاں دیتا ہے وہیں ہم پر مختلف قسم کی پابندیاں بھی عائد کرتا ہے۔

سڑک پر چلنے کی آزادی ٹریفک رولز سے مقید ہے۔ ہر ایک کو سڑک پر چلنے کا حق ہے لیکن اس حق کا استعمال کرتے وقت ہمیں دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔

شارجہ میں قیام کے دوران جمعہ کی نماز کے بعد بارہا یہ منظر دیکھا کہ ہندوستانی اور پاکستانی نمازیوں میں سے کئی لوگ مسجد سے نکل کر چوڑے ہو کر ایک ساتھ گروپ میں ٹریفک سگنل کا لحاظ کئے بغیر اکڑ کر روڈ کراس کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس جگہ سے چند قدم کی دوری پر مینول ٹریفک سگنل ہے یعنی ضرورت مند خود لال بتی کا سوئچ دبا کر زیبرا پر روڈ کراس کر سکتا ہے لیکن یہ غازی حضرات زیبرا پر نہیں اپنی مرضى سے جہاں سے چاہتے گزرتے تھے اس دوران موٹر کار والے اگر اپنی رفتار کم نہیں کرتے اور گاڑی نہیں روکتے تو یہ نمازی ان کے ساتھ گالی گلوج کرنے لگتے تھے۔ مانو جمعہ کی نماز ادا کر کے نہیں کوئی معرکہ فتح کر کے آ رہے ہوں!
عبادت آپ کا حق ہے لیکن دوسروں کو تکلیف پہنچا کر نہیں۔
جس طرح ہم توقع کرتے ہیں کہ غیر مسلم ہمارے جذبات کا خیال رکھیں، ہمارے مذہبی شعائر کا احترام کریں، دستور کے بموجب ایسا کرنے کے وہ پابند بھی ہیں، اسی طرح ہم پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ان کے مذہبی جذبات کو نہ بھڑکائیں۔

اللہ سبحانه وتعالى قرآن مجید میں "کیا نہیں کھانا ہے” ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔” کیا کھانا ہے” اس کی تحدید نہیں کی ہے۔ اللہ تعالٰی نے بڑے کا گوشت کھانے کا حکم نہیں دیا ہے کہ نہ کھانے پر ہم گنہگار ہوں گے۔ اجازت ہے۔ میسر ہو تو کھا سکتے ہیں۔ اگر مصلحت عامہ کے پیش نظر ریاست اس پر پابندی عائد کرتی ہے تو بحیثیت ذمہ دار شہری ہم اس کی خلاف ورزی نہ کریں۔

کچا گوشت کسی جار میں رکھ کر لے جانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ کیا اس مسافر کے رشتے دار ساون کے مہینے میں گوشت نہیں کھائیں گے تو مر جائیں گے!۔

آپ کہیں گے کہ اب سے دس سال قبل تو اس طرح مار پیٹ نہیں ہوتی تھی ! ہاں پچھلے دس سالوں کے دوران فرقہ وارانہ منافرت میں اضافہ ہوا ہے۔ قانون اور پابندی تو پہلے بھی تھی ۔ لیکن دس سال قبل تک برادران وطن میں جو رواداری تھی اس میں خاصا کمی آئی ہے۔ شر پسندوں کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں وہ کسی نہ کسی بہانے وقفہ وقفہ سے ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور ویڈیو وائرل کر کے عام لوگوں کے دلوں میں دہشت بیٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ حربہ اب اتنا مؤثر نہیں رہا ۔ عام لوگ سمجھ رہے ہیں کہ فرقہ پرست عناصر کا آستھا بھنگ نہیں ہو رہا ہے یہ لوگ ملک کے امن و امان کے ماحول کو بھنگ کر رہے ہیں۔ ان کی نہ صرف مذمت ہونی چاہیے بلکہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی بھی ہونی چاہئے۔

ملک کا فرقہ وارانہ ماحول یہاں کے روادار شرفاء کو بھی خاموش رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انصاف پسند سیکولر مزاج کے لوگ چاہتے ہوئے بھی غلط کو غلط کہنے سے ڈرتے ہیں مبادا وہ ٹرول نہ ہو جائیں۔

ایک طرف وہاٹس ایپ یونیورسٹی مسلمانوں کی تصویر مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے تو دوسری طرف ہم نے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے اور اسلام کے انسانی پہلوؤں کی نشر و اشاعت میں مجرمانہ غفلت کی ہے۔ ہمارا سارا زور مسلکی منافرت پھیلانے پر ہے۔ دین سے زیادہ مسلک کی تبلیغ و اشاعت پر توانائیاں اور مالی وسائل صرف کئے جا رہے ہیں۔ مساجد کے منبر و محراب اور جلسہ گاہوں سے متعصب مقررین ایک دوسرے کے خلاف دریدہ دہنی کر رہے ہیں۔ کم علم نئے لکھاری سوشل میڈیا پر مختلف فیہ فقہی مسائل پوسٹ کر کے تماشا بنا رہے ہیں۔ مدارس کی درسگاہوں میں طلباء کے ذہنوں کو کھولنے کے لیے فقہی کتب میں مفروضوں پر مبنی مسائل کو نفس مسئلہ بنا کر عام کر رہے ہیں اور مذاق بنا رہے ہیں۔ ” شوہر اگر بیوی کے پستان سے دودھ پی لے” ۔۔۔ یہ ایک مفروضہ ہے مگر ظالموں نے سوشل میڈیا پر لکھ کر معترضین کو مذاق اڑانے کا مواد فراہم کیا ۔۔ اب نفرت پھیلانے والے مسلمانوں کی ایسی شبیہ پیش کرتے ہیں کہ دیکھو مسلمان تو ایسے وحشی ہوتے ہیں!

مجھے بڑی امید تھی کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر مسلک کی نئی نسل مسلکی منافرت کو ختم کرنے میں ہاتھ بٹائے گی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملائیت کی گرفت سے آزاد ہونے کی قوت ان میں نہیں ہے!! افسوس صد افسوس!!!

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: