تم ترس نہیں کھاتے……
✍️ زین شمسی
____________________
وہ دس سال سے مسلسل رو رہا تھا، لیکن آج اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے، آج اسے اپنے وقار کا احساس ہوا تھا ، اس کا سر بلند ہوا تھا، اس کی وجاہت ، اس کی بلند قامتی کا اسے صلہ ملا تھا، وہ خود کو واقعی مضبوط اور آہن پوش سمجھ رہا تھا ، اسے ایکدم سے لگا 10برسوں سے اس کی مان مریادا پھر سے بحال ہوگئی ہے، اس کی عزت اور حشمت لوٹ آئی ہے۔ آج تک اس نے کئی گھر اجاڑے تھے، کئی گھروں کو اجاڑ بستی میں تبدیل کر دیاتھا، اس کے مضبوط بازو اور پیر جب کسی کے گھر کو روندتے، نوچتے آگے بڑھتے، تو اسے اپنے حاکم کی جبریت پر نہایت غصہ آتا ، لیکن وہ کیا کرتا، وہ تو مشین تھا، اس کا بٹن ظالموں کے ہاتھ میں تھا، اسے تو بس اپنے طاقت کا استعمال کرنا سکھایا گیا تھا، جب گھروں کو مسمار کیا جاتا تو اسے بشیر بدر کا وہ شعر یاد آتا کہ
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
مگر وہ بے بس تھا، رو لیتا تھا ، کچھ ٰنہیں کر سکتا تھا، بس اسے اپنے وقار اور قد و قامت پر افسوس ہوتا۔آج برسوں بعد اس کے ذریعہ نیک کام ہوا تھا۔آج اس سے وہ کام لیا گیا تھا جس کے لئے وہ بنایا گیا تھا۔اس نے اپنے مہربان اور محسن کی طرف شکرانہ انداز میں دیکھا اور دل ہی دل میں اس کے لئے دعائیں کیں، اس کی چال ڈھال سے ایسا محسوس ہوا کہ وہ سبحان خان کا زندگی بھر احسانمند رہے گا۔سبحان خان نے بھی اس جے سی بی مشین کا شکریہ ادا کیا اور آہستہ سے کہا شکریہ دوست اگر تم نہ ہوتے تو شاید میں ان 9 آدمیوں کی جان نہیں بچا سکتا تھا جو سیلاب کی زد میں آکر اپنی زندگی بس کھونے ہی والے تھے۔سبحان خان نے حیدرآباد میں آئے سیلاب زدگان کو بچانے کے لئے جے سی بی مشین کا استعمال کیا اور انسانیت کے لئے ایک نئی مثال پیش کی۔ اس نے ڈوبنے والوں سے اس کا دھرم نہیں پوچھا ، وہ جے سی بی مشین لے کر اپنے دھرم والے کو تلاش نہیں کرتا ، اسے جہاں بھی زندگی سے جوجھتے ہوئے انسان ملے اس نے جے سی بی مشین کا رخ اسی طرف کیا ۔
بلڈوزر اور جے سی بی یا کرین جیسے لحیم شحیم مشین کی ایجاد انسانی زندگی کو آسان بنانے کے لئے کی گئی ہے۔ اس سے تعمیراتی کام لئے جاتے ہیں ۔ سڑکوں سے روڑے ہٹانے سے لے کر بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر ، پہاڑوں اور جنگلوں جیسے ناہموار راستوں کو انسانی زندگی کے لئے آسان بنانے کا کام ان مشینوں سے لیا جاتا رہا ہے۔کبھی کبھی کسی اونچائی پر الیکٹرک ٹھیک کرنے والے مزدوروں کو بچانے کے لئے یا کبھی کسی بھنور میں پھنسے کشتیوں کو نکالنے کے لئے اس بڑی مشین کا استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ کہیں کہیں غیر قانونی مقامات پر بنے گھروں کو زمین بوس کرنے کا بھی کام یہ کرتی ہے، مگر گزشتہ چند سالوں میں اس سے کا استعمال ایسے گھروں کو روندنے اور مسمار کرنے کے لیے کیا جارہا ہے جس کے مکینوں میں سےنام نہاد کسی ایک رکن کی کسی جرم میں شمولیت ہوتی ہے۔گھر کا ایک فرد جب کسی ایک جرم میں شریک ہو تو اس کی سزا پورے گھر والوں کو کیوں دی جائے ، مگر نئی دنیا میں اس بربریت کی بھرپور ستائش کی جاتی رہی ہے۔ گودی میڈیانے تواتر پردیش میں باضابطہ ایک شخص کو بلڈوزر بابا کا نام دے کر مشہور ہی کر دیا۔ دنیا کی تمدنی تاریخ نے شاید ہی ایسا دور دیکھا ہوگا جب تخریبی کاموں کے لئے کسی کو دستار باندھے گئے ہوں گے یا بھول و گلدستے سے اس کا استقبال کیا گیا ہوگا ۔ مگر اب یہ سب کام روزمرہ کاہے اور لوگوں کی بے حسی دیکھئے کہ خاموش تماشیائی بنے ایڈجسٹ کر رہے ہیں۔ سوسائٹی میں ایڈجسٹ کرنے کا یہ فن سماج کو بہت خطرناک موڑ پردھکیل رہا ہے۔
بے شمار گھروں کو مہندم کرنے اور ہزاروں خاندانوں کے بے گھر ہوجانے کے بعد سپریم کورٹ نے آخرکار اس بلڈوزر جسٹس پر جسٹس کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مکان کو صرف اس لئے کیسے گرایا جا سکتا ہے کہ وہ فوجداری کیس کے ملزم کا ہے؟ اس انہدامی کارروائی کے لئے سپریم کورٹ رہنما اصول بنائے گا اور فریقین سے تجاویز حاصل کرے گا۔ عدالت اتنے برسوں سے اس بیجاکام کو دیکھ رہی تھی اور اس پر کوئی نوٹس لینا مناسب نہیں سمجھ رہی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ بھی ایڈجسٹ کرنا سیکھ گئی ہے۔
ایڈجسٹ کرتے رہنا اور اس ایڈجسٹمنٹ کو مصلحت سمجھنا انسانی آزادی کی سب سے بڑی بھول ہے۔ اسے اس کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ اسے اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ کسی مینڈک کو کسی کھولتے پانی میں ڈال دیں، مینڈک پوری طاقت سے اس پانی سے اچھل کر باہر آجائے گا، وہ اپنی پوری طاقت اپنی جان بچانے میں صرف کردے گا اور کامیاب ہو جائے گا۔ اب ایسا کیجئے کہ مینڈک کو کسی ٹھنڈے پانی میں ڈال دیجئے اور اس پانی کو آہستہ آہستہ گرم کیجئے۔ پانی جیسے جیسے گرم ہوگا مینڈک اس پانی کے مطابق اپنے جسم کی حرارت کو ایڈجسٹ کرنے لگے گا۔ پانی اور گرم کیجئے ، تب بھی وہ مینڈک باہر کی طرف نہیں اچھلے گا وہ پانی کی درجہ حرارت کے مطابق اپنے جسم کو ایڈجسٹ کرے گا۔ اب یہ کیجئے پانی کو اتنا گرم کر دیجئے کہ مینڈک اس حرارت کو سہن نہ کر سکے۔ تب کیا ہوگا، مینڈک اپنی جان بچانے کے لئے پانی سے نکلنے کی کوشش کرے گا ، لیکن وہ نکل نہیں پائے گا ، کیونکہ اس نے پوری طاقت اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے میں لگا دی ہے ۔اب موت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ہم نے بھی یہی کیا ہے۔ حالات کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کیا اور جب حالات ہمارے مطابق نہیں رہے تو ہم اچھل کود کرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ ایڈجسٹمنٹ کی یہ عادت انسان کے حالات کو کبھی نہیں بدل سکتے۔