Slide
Slide
Slide

ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز ہے ؟

ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز ہے ؟

ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی

منی پور اس وقت جل رہا ہے ۔ 8؍اضلاع میں کرفیو لگا دیا گیا ہے ۔انٹر نیٹ کی خدمات پانچ دنوں کے لیے بند کر دی گئی ہیں ۔ وزیر اعلی منی پور حالات پر قابو پانے میں پوری طرح سے ناکام ہیں ۔ کچھ اراکین اسمبلی  دہلی آئے ہیں کہ مرکزی حکومت سے بات کی جائے لیکن سب کرناٹک کے الیکشن میں لگے ہوئے ہیں ، منی پور کی کسی کو فکر نہیں ہے ۔ دفعہ 144؍نافذ کر دی گئی ہے ۔

 پہلے یہ بتاتا ہوں کہ معاملہ کیا ہے ۔ منی پور کے کل ایریا کا تقریباً 89؍فیصد حصہ پہاڑی ہے ۔ یہاں تین طبقے کے لوگ آباد ہیں ۔ میتئی ، ناگا اور کوکی ۔ان میں ناگا اور کوکی کو آدیواسی (ایس ٹی ) کا درجہ ملا ہوا ہے جبکہ میتئی کو غیر آدیواسی (ایس سی )کا درجہ حاصل ہے ۔ میتئی ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ،وہیں زیادہ تر ناگا اور کوکی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔تنازعہ کی وجہ یہ ہے کہ منی پور کے قانون کے مطابق صرف آدیواسی طبقہ کے ہی لوگ پہاڑی علاقوں میں بس سکتے ہیں ۔یعنی اپنا گھر بناکر زندگی گزار سکتے ہیں لیکن میتئی ان جگہوں پر اپنا گھر نہیں بنا سکتے۔ میئتی طبقہ کے لوگوں کی آبادی 53؍فیصد ہے جبکہ 40؍فیصد ناگا اور کوکی ہیں ۔ 7؍فیصد لوگ دیگر طبقے سے ہیں ۔یہاں میانگ لوگ بھی آباد ہیں جو مسلم طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔خبر یہ ہے کہ یہاں قبضہ کی جنگ چل رہی ہے ۔ میتئی طبقہ کے لوگ اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ انھیں بھی پہاڑی علاقوں میں رہنے کی اجازت دی جائے ۔چونکہ منی پور کا قانون ہے کہ صرف پہاڑوں پر ایس ٹی کے لوگ ہی رہ سکتے ہیں چنانچہ اب میتئی کے لوگ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ انھیں ایس ٹی کا درجہ دیا جائے تاکہ وہ لوگ بھی پہاڑی میں جاکر بس سکیں۔

معاملہ یہ ہے کہ منی پور میں بدھ کے روز ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے میتئی طبقہ کی ایس ٹی کا درجہ دینے پر غور کرنے کا مطالبہ کیا ۔اس مطالبہ کے خلاف آل ٹرائب یونین آف منی پور نے آدیواسی ایکتا مارچ نکالا جس کے بعد پورے صوبہ میں تشدد بھڑک گیا ۔ایس ٹی یعنی کوکی اور ناگا کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ان کی آبائی زمین ہے اور یہ پورا معاملہ ان کی تہذیب وثقافت سے جڑا ہوا ہے اس لیے یہاں کوئی اور آباد نہیں ہو سکتا ۔ اب یہ اتنا بڑا معاملہ ہو گیا لیکن مرکزی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔

اب دوسری طرف نظر کریں تو جنتر منتر پر گزشتہ 13؍دنوں سے خواتین پہلوان دھرنا دے رہی ہیں ۔ وہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ کشتی فیڈریشن آف انڈیا کے صدر کو گرفتار کیا جائے، عہدے اور پارلیمنٹ کی رکنیت سے برخاست کیا جائے لیکن ان کی کوئی سننے والا نہیں ہے ۔ پاسکو ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہو نے کے بعد بھی آج تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی کیوں ؟ اس کا جواب کون دے گا ؟ گزشتہ شب جنتر منتر پر جس طرح سے خواتین پہلوانوں پر پولیس نے حملہ کیا ۔ دو کھلاڑیوں کو چوٹیں بھی آئیں ،وہ بہت ہی افسوسناک ہے ۔ آج میں خود جنتر منتر گیا تھا اور دیکھا کہ وہاں کس طرح مظاہرین کو محصور کر دیا گیا ہے ۔ بیریکیٹنگ کر دی گئی ہے اور جو قصوروار ہے وہ میڈیا میں بیان بازی کرتا پھر رہا ہے ، پولیس کی ہمت نہیں ہے کہ وہ انھیں گرفتار کر سکے جبکہ مقدمہ سنگین ہے ۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد مقدمے درج ہوئے ، دو ایف آئی آر ہوئیں اس کے باوجود کچھ نہیں ہے ۔ اب سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آپ لوور کورٹ جائیں ۔ وہاں کیا ہوگا سب کو معلوم ہے لیکن اس پورے معاملہ میں حکومت کیوں خاموش ہے ؟ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کیوں خاموش ہیں ؟ اگر وہ تمام پہلوانوں کو چائے پر بلا لیتے اور بات کرلیتے اور جو قصوروار ہے اس کے خلاف کاروائی کر دیتے تو کیا یہ سب ہوتا لیکن پوری حکومت اور بی جے پی کرناٹک میں لگی پڑی ہے ۔ جب سے مودی حکومت آئی ہے اگر آپ غور کریں گے تو یہ مسلسل الیکشن ہی لڑتی نظر آئے گی ، کارپوریٹ تک کا الیکشن نہیں چھوڑ رہی ہے ۔ پلوامہ پر سوال اٹھایا گیا لیکن اس معاملہ کو بھی دبا دیا گیا ایسا لگ رہاہے ۔ ستیہ پال ملک کا بیان اب نظر نہیں آ رہا ہے لیکن مسئلہ ہے ۔ خیر گزشتہ رات جو خواتین کے ساتھ ہوا اس سے کسانوں اور لوگوں میں غصہ ہے اور یہ بی جے پی کے لیے نقصان دہ ہے ۔ اس کا یوپی اور کرناٹک دونوں جگہ ہو رہے الیکشن پر پڑ سکتا ہے ۔ نہ جانے کیوں اس پارٹی اور حکومت کو اب اس کا ڈر نہیں ہے کہ عوام ناراض ہو جائیں گے ۔ ایسا کیا ہے ؟ کون سا نشہ ہے ؟ سمجھ سے باہر ہے ۔

متعلقہ خبریں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: