آسام شہریت پر سپریم فیصلہ اور جمعیۃ کی جدوجہد
آسام شہریت پر سپریم فیصلہ اور جمعیۃ کی جدوجہد
🖋 نازش ہما قاسمی ( ممبئی اردو نیوز)
__________________
آسام میں شہریت کے مسئلے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک تاریخی کامیابی ہے جو جمعیۃ علماء ہند کی طویل آئینی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ مولانا بدرالدین اجمل ، مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی کی قیادت میں جمعیۃ نے آسام کے مسلمانوں اور دیگر حقیقی باشندوں کے حقوق کے لیے جو کوششیں کیں ، وہ بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئیں ۔ یہ فیصلہ آسام میں امن ، استحکام اور اتحاد کے قیام کے لیے اہم قدم ہے اور اس سے لاکھوں افراد کو شہریت کے حقوق ملے ہیں ۔ آسام میں شہریت کا مسئلہ دہائیوں پرانا اور پیچیدہ معاملہ رہا ہے ۔ بنگلہ دیش سے بڑے پیمانے پر ہجرت کے نتیجے میں لاکھوں افراد آسام میں آباد ہوئے ، جس نے مقامی لوگوں کی شناخت اور شہریت کے مسائل کو جنم دیا ۔ 1985 میں ہونے والے آسام معاہدے کے تحت ، بنگلہ دیش سے 25 مارچ 1971 سے پہلے آسام آنے والے افراد کو ہندوستانی شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ اس معاہدے کے بعد ، شہریت ایکٹ 1955 میں ترمیم کرکے دفعہ 6A کو شامل کیا گیا ، جس کے تحت آسام میں مخصوص کٹ آف ڈیٹ مقرر کی گئی ۔ تاہم، 2009 میں ’ آسام سنمیلیٹا مہاسنگھا ‘ نامی ایک تنظیم نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ، جس میں شہریت ایکٹ کی دفعہ 6A کو غیر آئینی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ اس درخواست نے آسام میں ہزاروں افراد کے شہریت کے حقوق کو خطرے میں ڈال دیا تھا ۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے آسام کے مظلوم عوام کی طرف سے سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑا ۔ جمعیۃ علماء ہند ، جو ایک طویل عرصے سے آسام کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کر رہی ہے ، اس مقدمے میں فریق بنی اور دفعہ 6A کے دفاع میں بھرپور وکالت کی ۔ مولانا محمود مدنی ، مولانا بدرالدین اجمل اور مولانا ارشد مدنی کی قیادت میں جمعیۃ نے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے بھرپور کوشش کی ۔ مولانا بدرالدین اجمل نے آسام میں رہنے والے مسلمانوں اور دیگر مظلوم طبقات کی شہریت کے تحفظ کے لیے مسلسل محنت کی ، جس کا نتیجہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی صورت میں سامنے آیا ۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے 17 اکتوبر 2024 کو اکثریتی فیصلے میں شہریت ایکٹ کی دفعہ 6A کو برقرار رکھا ، جو کہ آسام معاہدے کے مطابق تھا ۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ سمیت چار ججوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دفعہ 6A آئینی طور پر درست ہے ۔ اور انہوں نے 25 مارچ 1971 کی کٹ آف تاریخ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ اس فیصلے کے مطابق ، جو بھی شخص 25 مارچ 1971 سے پہلے آسام آیا ہے ، وہ ہندوستانی شہری شمار ہوگا ۔ جسٹس جے بی پاردی والا نے اختلافی نوٹ دیا ، لیکن اکثریتی فیصلے نے آسام کے لاکھوں باشندوں کے شہریت کے حقوق کو محفوظ کر دیا ۔ یہ فیصلہ ایک طویل قانونی جنگ کا اختتام تھا جس میں جمعیۃ علماء ہند نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ مولانا بدرالدین اجمل ، جو جمعیۃ علماء آسام کے صدر اور سابق رکن پارلیمنٹ ہیں ، نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فرقہ پرست عناصر کے منہ پر طمانچہ ہے جو مسلمانوں کو آسام سے نکالنے کی دھمکی دیتے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کامیابی ایک طویل آئینی جدوجہد کا نتیجہ ہے ، جس کے لیے جمعیۃ علماء ہند مسلسل 15 سال سے مقدمہ لڑ رہی تھی ۔ مولانا اجمل نے کہا کہ یہ فیصلہ آسام کے مسلمانوں اور دیگر حقیقی باشندوں کے لیے ایک بڑی راحت کا باعث ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے آسام کے مسلمانوں کے شہریت کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اب یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ، جو ان دنوں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے ازبکستان میں موجود ہیں ، اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے دفعہ 6A کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے انصاف پر مبنی فیصلہ دیا ہے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اس فیصلے سے آسام میں شہریت کے حوالے سے پیدا ہونے والے خدشات اور اندیشوں کا خاتمہ ہو گیا ہے اور یہ فیصلہ آسام میں امن و امان کے قیام کے لیے اہم ثابت ہوگا ۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے بھی اس کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ جمعیۃ کی طویل آئینی جدوجہد کا یہ فیصلہ ایک سنگ میل ثابت ہوگا ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند گزشتہ چھ دہائیوں سے آسام کے غریب اور مظلوم انسانوں کے لیے ہر محاذ پر جدوجہد کر رہی ہے ، اور یہ فیصلہ ان لوگوں کے لیے راحت کا باعث ہے جو شہریت کی امید کھو بیٹھے تھے ۔ جمعیۃ علماء ہند نے ماضی میں بھی آسام میں شہریت کے مسائل کے حل کے لیے اہم کامیابیاں حاصل کیں ۔ 2017 میں ، سپریم کورٹ نے جمعیۃ کی کوششوں کے نتیجے میں پنچایت سرٹیفکیٹ کو شہریت کے ثبوت کے طور پر تسلیم کیا ، جس نے لاکھوں خواتین کو شہریت کے حقوق فراہم کیے ۔ ان خواتین میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل تھیں ، جن کے پاس اپنے والدین سے تعلق ثابت کرنے کے لیے کوئی اور دستاویز نہیں تھی ۔