عدالت عظمیٰ کے بعض اہم فیصلے اور جمعیت علمائے ہند
از: سید احمد اُنیس ندوی
__________________
گزشتہ ہفتے بھارت کی عدالت عظمیٰ نے دو اہم فیصلے صادر کیے۔ ملت اسلامیہ ہندیہ کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے راقم سطور کو بھی اُن دونوں فیصلوں سے بہت مسرت ہوئی، اور مستقبل کے حوالے سے مثبت امکانات کو کچھ تقویت پہنچی۔
پہلا فیصلہ آسام کے حوالے سے ہے جس میں آسام کے لوگوں کے لیے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے مارچ سنہ 1971 کی میعاد مقرر کی گئ ہے۔ یقینی طور پر اس فیصلے سے لاکھوں لوگوں کو راحت ملے گی، اور این آر سی وغیرہ کے ذریعے جو خدشات متوقع تھے وہ ان شاء اللہ بڑی حد تک ٹل جائیں گے۔
اسی طرح دوسرا اہم فیصلہ جو عدالت عظمیٰ سے صادر ہوا وہ مدارس اسلامیہ ہندیہ سے متعلق این سی پی سی آر کی سفارشات پر روک لگانے کا تھا۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد فوری طور پر مدارس کے خلاف وہ تمام کارروائیاں کالعدم قرار پائیں گی جو بعض صوبائی حکومتوں کی طرف سے شروع ہو گئیں تھیں اور ان تحفظات اور خدشات کے حوالے سے بھی راحت ملے گی جن کی وجہ سے اہل مدارس بہت فکر اور تشویش میں تھے۔
مجھے سب سے پہلے ان دونوں فیصلوں پر جمعیت علماۓ ہند اور اس کی قیادت کی خدمت میں ہدیہ تشکر اور پیغام تہنیت پیش کرنا ہے، کیوں کہ ان دونوں مسائل میں جمعیت علماء کی جہد مسلسل کا انکار کرنا اور اس کو نظر انداز کرنا یقینی طور پر نا انصافی ہوگی۔ ساتھ ہی ایسا بھی بالکل ممکن ہے کہ اس سلسلے میں دیگر اور بھی بہت سی کوششیں رہی ہوں جن کا تذکرہ ہمارے سامنے نہ آ پایا ہو ، تو وہ سب بھی پوری ملت کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں۔
البتہ اس موقع پر ایک دو باتوں کا ذکر اور ضروری سمجھتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ کہ آسام سے متعلق جو فیصلہ آیا ہے، اس میں جمعیت کے دونوں حلقوں کی طرف سے اس کا جس طرح ذکر کیا جا رہا ہے اس سے ایک عام انسان بھی وہی نتیجہ اخذ کرے گا جو مجھ طالب علم کے ذہن میں بار بار آ رہا ہے۔ اس لیے ایسے موقعوں پر ہمارے ذمہ داران کو اس بات کا ضرور لحاظ رکھنا چاہیے کہ ہمارے طرز عمل سے محض "کریڈٹ خوری” کا انداز محسوس نہ ہو بلکہ ہر ایک کی جانب سے اپنی کوششوں کے تذکرے کے ساتھ دیگر کوشش کرنے والوں کا بھی شکریہ ضرور ادا کیا جائے تاکہ باہمی تعاون کا جذبہ مزید فروغ پائے ، اور تنظیمی تعصب کا نشہ ٹوٹ جاۓ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ تنظیمی سطح پر ملت اسلامیہ کے حق میں جو کوششیں کی جاتی ہیں، اس کو صرف کسی فرد اور کسی خاص شخصیت تک محدود رکھنا بھی بڑی نا انصافی ہے۔ کیونکہ تنظیموں کے پاس جو بھی سرمایہ ہوتا ہے وہ دراصل ملت کا ہی سرمایہ ہوتا ہے, اور ملت یہ سرمایہ اسی لیے تنظیموں کے حوالے کرتی ہے کہ وہ ملت کے حق میں جہد مسلسل کے راستے پر گامزن رہیں۔ اسی طرح تنظیموں کا وجود مختلف افراد کی متنوع صلاحیتوں کے ساتھ ہی مکمل ہوتا ہے۔ ایسے کسی بھی بڑے کام کی تکمیل ان تمام صلاحیتوں کے ایک ہی رخ پر مجتمع ہونے سے ہوتی ہے۔ ہم سے یہ بھی غلطی ہوتی ہے کہ ہم کو صرف کلیدی عہدے و مناصب تو یاد رہتے ہیں لیکن ہم کو ان تمام کارکنان کا بھی شکرگزار ہونا چاہیے جنہوں نے اس کام میں اپنی کوششوں کا کوئی بھی حصہ لگایا ہو۔ ایسی کوششوں کا محور صرف مخصوص شخصیات کو ہی سمجھنا یا تو ناواقفیت کی دلیل ہوتی ہے یا اس کے پیچھے محض کسی "شخص” کی خوشنودی حاصل کرنے کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔
دوسری بات جو مدارس اسلامیہ ہندیہ کے تعلق سے ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو اپنے حق میں ایک غنیمت موقع سمجھیں۔ اگر ہم نے یہ غلطی کی کہ ایک بار پھر بے فکر ہو کر سو گئے تو پھر دوبارہ ایسے مواقع نہیں ملیں گے۔
اب ہنگامی طور پر ملت کے تمام حلقوں کے اہل علم و دانش کو مخلصانہ جذبے سے جمع ہونا چاہیے اور مدارس کے مستقبل کے حوالے سے سنجیدہ غور و فکر کا آغاز کرنا چاہیے, اور اس بات کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے کہ موجودہ قیادت اب جسم اور عمر کے لحاظ سے فطری طور پر ضعف اور اضمحلال تک پہنچ رہی ہے, آئندہ دس پندرہ سالوں میں جس نسل کو قیادت سنبھالنی ہے اسے ان مشاورتوں میں اس کو اہتمام سے دعوت دی جائے۔ تعلیمی نظام میں نئ تعلیمی پالیسی اور ہماری اپنی دینی ضرورت ان دونوں کا امتزاج اب ناگزیر ہے, اور اگر اب اس کے لیے کوئی کوشش نہیں ہوئی تو یہ ہماری ایک ناقابل تلافی غلطی ثابت ہوگی۔ کیا اچھا ہو کہ ملک کے تمام بڑے مدارس سے, جامعات سے, تنظیموں سے, جماعتوں سے دو دو افراد لیے جائیں اور اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والے مفکرین و مصنفین کو بھی شامل کیا جائے اور پھر غور و فکر کا آغاز ہو۔
اسی طرح مجھے جمعیت علماء کے اس اقدام سے بھی بڑی مسرت ہوئی کہ "توہین رسالت” کے مسئلے پر انھوں نے بہت دیر سے ہی سہی لیکن مختلف ذمہ داران کے ساتھ مل کر ایک پیغام جاری کیا۔ مجھے امید ہے کہ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے گا اور یہ محض ایک میمورنڈم تک محدود نہیں رہے گا بلکہ قانونی جدوجہد کے ساتھ مجرموں کو سخت سزا دلوائی جائے گی, اور ہر علاقے میں اسی طرح کے پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ مجھے ایک شکایت بھی کرنی ہے, وہ یہ کہ بھارت کے مجاہدین آزادی کی تاریخ کو بلا تفریق مذہب و ملت سب سے زیادہ یاد رکھنے والے اہل علم و دانش بیت المقدس کے مجاہدین آزادی اور ان کی عظیم قیادت کے حوالے سے اس قدر خاموش کیوں ہیں ؟ اس موضوع پر بہت سے ساتھیوں نے بڑی مناسب تنقید کی ہے جس سے راقم سطور کو بھی صد فیصد اتفاق ہے۔ یہ وقت تو بیت المقدس کے حوالے سے اپنے رخ کو واضح کرنے کا ہے۔ امید ہے کہ تنظیموں اور اداروں کے ذمہ داران اس جانب بھی ضرور غور و فکر فرمائیں گے۔
بعض تنظیموں سے ہمارے جو اصولی و نظریاتی اختلافات اور تحفظات ہیں, وہ یقینی طور پر باقی ہیں, لیکن خیر کے کاموں میں جو بھی کوششیں ہیں ان پر اظہار تشکر بھی ہماری دینی تربیت کا ہی حصہ ہے۔