دینی مدارس کا نظام و نصاب
ایک تجزیاتی مطالعہ
✍️ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
_________________
نام کتاب : دینی مدارس کا نظام و نصاب ایک تجزیاتی مطالعہ
مؤلف : اشہد رفیق ندوی
صفحات : ۱۸۲
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۲۵
تعارف و تبصرہ: ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
کتاب کا نام دیکھ کر قارئین کہہ سکتے ہیں کہ یہ موضوع تو فرسودہ ہے، اس پر بہت لکھا جا چکا ہے، اب اس میں نیا کیا ہوگا؟ یا کچھ یہ کہہ دیں گے بلکہ کہتے ہیں کہ جس کو مفکر و دانش ور بننا ہو وہ مدارس اسلامیہ پر چار پانچ صفحات لکھ لے، دو چار تقریریں کر لے دانش ور بن جائے گا، یا کچھ بے چارے عقل کے مارے کہیں گے کہ لکھنے بولنے سے کچھ نہیں ہوگا، اپنا ایک مدرسہ بنائیے اور اسے نمونہ بنا کر دکھائیے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں سے تعرض سوائے ضیاعِ وقت کے اور کچھ نہیں، زبانِ ہوش مند کے مخاطب تو دل دردمند اور فکرِ ارجمند رکھنے والے یا اس کی تلاش میں حیراں و سرگرداں لوگ ہی ہوا کرتے ہیں، اس کتاب اور اس تبصراتی یا تعارفی تحریر کے مخاطب بھی وہی ہیں، موضوع گرچہ پرانا ہے، مگر ہنوز زندہ اور اربابِ فکر و نظر کی توجہ کا پہلے سے کہیں زیادہ طالب ہے، اس کتاب میں جتنی تجاویز و آراء اور تجزیے ہیں ان سب میں گرچہ انفرادیت نہیں، بہت سے لوگ کہتے اور لکھتے رہے ہیں؛ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جتنا قیمتی مواد اس میں یکجا ہے اگر اس کا بیشتر حصّہ ہمارے عمل آ گیا ہوتا تو آج ملت اور مدارسِ اسلامیہ کی تصویر کچھ اور ہوتی۔
ملک میں پھیلے ہوئے مدارس کی اہمیت و افادیت سے کس عقل مند کو انکار ہو سکتا ہے؟ ان کی ایک روشن تاریخ ہے، نمایاں کردار رہا ہے، وہ ایک مشن اور ایک گہری سوچ کے بعد وجود میں آئے، ایک وقت تک ان مدارس نے اپنا کام بہ خوبی انجام دیا، الگ الگ مناہج کےتحت الگ الگ ادارے وجود میں آئے، لیکن بنیادی مقصد میں تقریباً سب متحد رہے۔ المیہ یہ ہوا کہ وقت بدلتا رہا، حالات بدلتے رہے، تقاضے بدلتے رہے لیکن وہ ادارے جو ملتِ اسلامیہ کی بقا و تحفظ اور دینی و فکری قیادت اور دفاعِ اسلام کے نیک مقصد سے وجود میں آئے تھے انھوں نے تبدیل نہ ہونے کی قسم کھالی، قدیم صالح اور روایتِ سلف کے پابند ادارے ہوں یا قدیم صالح اور جدید نافع کے شعار کے ساتھ وجود میں آئے ادارے ہوں یا تحریکی ادارے، سب تقریباً ایک ڈگر پر چل پڑے، نظام و نصاب میں کم و بیش یکسانیت کے ساتھ سب کی توجہ کثرت اور شرح خواندگی اور بنیادی دینی تعلیم دینے تک محدود ہو کر رہ گئی، نتیجہ یہ ہوا کہ جو کام مکاتب سے ہوا کرتے تھے، اس کے لیے بڑے بڑے مدرسے بنائے جانے لگے، مدرسے قائم کرنے کی ہوڑ لگ گئی، تو صیہ و تزکیہ اور جلسہ و جلوس کا ایک عجیب چلن ہو گیا، جس کو مسجد میں خدمت کا موقع نہ ملا یا کسی مدرسے میں تدریس کی جگہ نہ ملی اس نے ایک نیا مدرسہ کھول لیا، اختلافات کی بنیاد پر مدرسے بنا لیے گئے، ذرا جو صاحب اثر ہوا اس نے نیا مدرسہ کھول لیا، اس کثرت اور ہوڑ نے مختلف نوع کے کرپشن کو وجود بخشا، اب مسئلہ اصلاح سے زیادہ علومِ دینیہ کی اہمیت و حیثیت کو بحال کرنے، معاشرہ میں علماء کا وزن برقرار رکھنے اور مدارس کی عظمت رفتہ کو واپس لانے کا در پیش ہے، راقم سطور نے ایک بورڈ کے بنیادی خاکے کے حوالے سے آج سے کوئی ۱۳ سال قبل ایک تجویز پیش کی تھی، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز سنتا کون ہے؟ اس کا احساس تو زیرِ نظر کتاب کے مؤلف کو بھی ہے:
‘‘اسی طرح اربابِ مدارس کو چاہیے کہ وہ مدارس کی بھلائی چاہنے والے شخص کو دشمن کی نگاہ سے نہ دیکھیں ۔ جو لوگ اصلاحِ احوال کے لیے کوشاں ہیں ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنھوں نے قوم و ملّت کی خدمت میں اپنی زندگیاں کھپائی ہیں۔ ان کی خدمات اور خواہشات شکوک و شبہات سے بالاتر ہیں، وہ اپنے گراں قدر تجربات سے مدارس کو بھی فیض یاب کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے قیمتی مشوروں ، تجاویز اور اصلاحات کو معروضی نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہیے اور جو چیزیں مفید طلب ہوں، ان کا خوش دلی کے ساتھ استقبال کرنا چاہیے۔ اس میں مدارس کا ہی فائدہ ہے۔ البتہ جو لوگ تنقید کا شوق پورا کرنے کے لیے ملت اسلامیہ کی پھٹی چادر میں انگلی ڈال رہے ہیں یا مدارس کو آزار پہنچانے کے در پے ہیں، ان کے ساتھ ضرور منفی رویّہ اختیار کرنا چاہیے؛ بلکہ مل جل کر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے’’۔ (ص: ۱۵۸)
یہ کتاب مختلف اوقات میں لکھے گئے مقالات کا مجموعہ ہے، عناوین اور مباحث متنوع ہیں لیکن مرکزی خیال مدارسِ اسلامیہ میں تبدیلی کا احساس، ان کی ترقی اور بہتری کی راہیں، ان کو فعال و مزید کار آمد بنانے کے طریقے اور ملّت کے اس عظیم سرمایہ کو ملّت کی ضرورت اور تبدیلی کا احساس دلانا ہے، ان میں بعض مقالات کانفرنسوں کے لیے لکھے گئے اور بعض مجلات میں شائع ہوئے اب سب کو یکجا کر کے ایک بار پھر دعوتِ فکر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں شامل مقالات ۲۰۰۲ء سے لے کر ۲۰۱۲ء کے درمیان لکھے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے مضامین و مقالات تجزیاتی اسلوب اور جذبۂ خیر خواہی سے لکھے گئے ہیں، نپی تلی زبان استعمال کی گئی ہے، دلائل سے گفتگو کی گئی ہے، حوالہ جات کا اہتمام کیا گیا ہے، مدارس اسلامیہ کے نصاب و نظام کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ۲۰۱۲ء تک اس قدر قیمتی مقالات سپردِ قلم کرنے والے نے ۱۲؍سال سے اس موضوع پر مزید کچھ کیوں نہ لکھا۔ قلم کیوں خاموش ہوا؟ موضوع کیوں ترک کیا گیا؟ اگر اصلاح و تغیر کی فکر دامن گیر تھی تو صدائے مسلسل کی ضرورت تھی اور ہے، یا پھر یہ سمجھا جائے کہ مصنف کی نظر میں سبق پورا ہو گیا، اب اسے دوہرانے کی ضرورت نہ رہی، اصلاح کا عمل مکمل ہو چکا اب مزید کی گنجائش نہ رہی! کم از کم ۲۰۲۴ء میں مجموعہ مقالات کو وجود میں لاتے وقت مدارس کے موجودہ اور حقیقی بحران ، صحیح صورت حال کا تجزیاتی مطالعہ ایک مقالے میں پیش کر دینا چاہیے تھا۔ مؤلف نے جب اس موضوع پر قلم اٹھایا تب سے، بلکہ اس سے بھی پہلے طالب علمی اور پھر تدریس سے وابستگی سے اب تک کیا کیا تبدیلیاں دیکھیں، مدارس کے نصاب پر کانفرنسوں اور مجلات کی خصوصی اشاعتوں کے کیا نتائج دیکھے، ان سب سوالات کا جواب ایک مضمون میں ضرور دینا چاہیے تھا۔ بلاشبہ یہ مجموعہ مقالات بہت سے آئیڈیل نکات ، تعمیری مشورے ، فکری رہنمائیاں، نصابی و ہم نصابی تبدیلیوں سے متعلق قیمتی آرا اپنے دامن میں رکھتا ہے، مگر یہ نہیں بتاتا کہ بات اب کہاں تک پہنچی ہے، کس قدر تبدیلیاں ہوئی ہیں، کتنی اور مطلوب ہیں، مدارس اور علومِ دینیہ کی موجودہ صورتِ حال کیا ہے؟ آج کے چیلنجز اور ان کے مقابلے کے لیے مدارس کو کیا کرنا چاہیے، کیا اب مدارس سننے کے لیے تیار ہیں یا وہی روش عام ہے جو آج سے چند سال پہلے تھی؟
اس مجموعہ میں کل تیرہ مقالات شامل ہیں، ظاہر ہے کہ ہر مقالہ پر علیحدہ تبصرہ ممکن نہیں ؛ تاہم آپ ان کے عناوین ضرور یہاں پڑھ لیں، ممکن ہے کہ ان عناوین کی کشش ہی آپ کو مطالعہ کتاب پر آمادہ کرے، مؤلف کے پیشِ لفظ کے بعد اس طرح تیرہ مقالات ہیں۔
- (۱) دینی مدارس-ملک کے لیے ایک قیمتی اثاثہ
- (۲) مدارس کا نظام و نصاب-عصر حاضر کے تناظر میں
- (۳) مدارس میں نظامِ تربیت- ایک جائزہ
- (۴) مدارس کے نصاب میں تدریسِ قرآن- ایک تجزیاتی مطالعہ
- (۵) مدارس میں تدریس اصول تفسیر و علوم قرآن ایک جائزہ
- (۶) مدارس میں تدریس حدیث- ایک تجزیاتی مطالعہ
- (۷) مدارس میں تدریس فقہ-ایک تجزیاتی مطالعہ
- (۸) مدارس کے نصاب تعلیم میں دعوت دین – ایک تجزیاتی مطالعہ
- (۹) معاصر دینی مدارس کا نظام و نصاب اور کثیر مذہبی معاشرے کے تقاضے
- (۱۰) مدارس- تحفظ و ارتقا کی چند تدابیر
- (۱۱) شبلی کی نظر میں مثالی مدرسہ
- (۱۲) دینی مدارس سے تخاطب کا طریقہ
- (۱۳) اعظم گڑھ کے دینی مدارس کا نظام و نصاب ایک جائزہ۔
پیشِ لفظ کا پہلا ہی پیراگراف مؤلف کے جذبۂ صادق کی عکاسی کرتا ہے:
‘‘دینی مدارس بلاشبہ ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے ایمان و اقدار کی حفاظت اور دین سے تعلق انھیں کے دم سے ہے۔ یہ مدارس صرف مسلمانوں کے لیے مفید نہیں؛ بلکہ ملک کی داخلی سلامتی، خارجہ پالیسی کے نفاذ، سماجی اقدار کے فروغ اور تعلیمی مہمات کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ملت انھیں دل و جان سے عزیز رکھتی ہے۔ ان کے تحفّظ و ارتقا کے لیے فراخ دلانہ تعاون کرتی ہے اور ان پر آنے والی ہر آفت و مصیبت کے سامنے سینہ سپر رہتی ہے’’۔ (ص: ۵)
وہ نہایت جامعیت و اختصار کے ساتھ مدارس کے وجود میں آنے کا پسِ منظر یوں لکھتے ہیں:
‘‘ہندوستان میں مدارس کا موجودہ تعلیمی نظام انگریزوں کے جبر و قہر کے ردّ عمل میں وجود میں آیا۔ انگریزوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے اپنے تعلیمی نظام کو ملک کے طول و عرض میں نافذ کرنے کی منظم کوشش کی۔ اس نظام کا خاص مقصد مسلمانوں کے دل و دماغ سے دینی عقائد و اقدار کو مسخ کرکے اپنی تہذیب کا خوگر بنانا تھا۔ آزادی کی جد و جہد میں مشغول علمائے راسخین نے اس خطرے کو بھانپ لیا اور اس عظیم ورثہ کی حفاظت کے لیے ایک متبادل تعلیمی نظام تشکیل دیا’’۔ (ص: ۵)
چند سطروں کے بعد وہ مدارس میں تبدیلی کی ضرورت اور اپنے ان مقالات کے وجود میں آنے کا سبب بیان کرتے ہیں: ‘‘اس درمیان تعلیمی نظام میں برابر تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں۔ تعلیمی پالیسیاں بدلیں، تدریسی مواد، طریقۂ تدریس و طریقۂ امتحانات میں نئے نئے تجربات ہوئے اور نئے افادی پہلوؤں کو نظام کا حصّہ بنایا گیا۔ ارباب مدارس کو بھی توجہ دلائی گئی کہ جدید تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہو کر زمانے کے ساتھ چلنے کی کوشش کریں۔ اس لیے تحریکیں برپا ہوئیں، جلسے اور کانفرنسیں ہوئیں، وقیع مضامین لکھے گئے، جس کے نتیجے میں کچھ نئے ادارے وجود میں آئے۔ مگر امرِ واقعہ یہ ہے کہ بیشتر دینی مدارس، دار العلوم دیوبند کے نظام و نصاب کے ساتھ جڑے رہے۔ انھوں نے قدیم نہج میں کسی بڑی تبدیلی کو قبول نہیں کیا اور نطامِ کہنہ سے چمٹے رہنے میں ہی عافیت جانی۔ اس وجہ سے مدارس کی بڑی تعداد قدیم نہج پر باقی رہ گئی۔ ان کو زمانے کی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی سعی مشکور جاری ہے’’۔ (ص: ۶)
اس قیمتی پیشِ لفظ کے بعد مؤلف کا پہلا مضمون ‘‘دینی مدارس- ملک کے لیے ایک قیمتی اثاثہ’’ ہے۔
بلاشبہ وہ مدارس کو اثاثہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور ترتیب کتاب میں اس مضمون کی اوّلیت کی معنویت کے ساتھ کتاب کی معنویت بھی ثابت کر دی ہے کہ جب یہ ہمارا اثاثہ ہے تو اس کی بقا اور تعمیر و ترقی ہماری ذمہ داری ہے۔ آئندہ کے تمام مقالات اس عنوان کی تشریح و تائید میں لکھے گئے ہیں، ہر ہر مقالہ اپنے آپ میں قیمتی ہے، اگر دوسرے مقالے کو لے لیجیے تو وقت کی رفتار کے ساتھ اس موضوع کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے۔ آج فارغینِ مدارس کی با شعور تعداد یونیورسٹیوں کا رخ کر رہی ہے اور وہاں جا کر اکثریت مدرسہ کی پندرہ سولہ سالہ زندگی کے اثرات کا ازالہ ضروری سمجھ کر کر رہی ہے۔ ایسے حالات میں اس عظیم ملّی سرمایہ کی اہمیت و افادیت پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے، آپ مؤلّف کی تمام تجاویز سے اتفاق کریں یا اختلاف؛ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس پورے تعلیمی ڈھانچہ کو، اس کے نصاب و تعلیمی نظام کو عصری تقاضوں سے مربوط کرنا، اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت، ملّی فریضہ اور دیانت داری کا تقاضا ہے، معاشرہ کی صورتِ حال، معاشرہ میں علومِ دینیہ کی اہمیت، علما کا وزن اور مدارس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے یہ اقدام انتہائی ضروری ہے۔ یہ تلخ حقیقت آج مشاہدہ بن کر سامنے ہے، جس کا اظہار مولانا گیلانی نے اپنی معرکہ آرا کتاب میں کیا تھا کہ لارڈ میکالے کا نظامِ تعلیم آنے کے بعد بڑے بڑے مشائخ کی اولادیں کالج چلی گئیں، آپ جائزہ لے لیجیے اور اس تلخ نوائی کو گوارہ کر لیجیے، اس وقت مدارسِ اسلامیہ سے وابستہ بس دو طرح کے لوگوں کی اولادیں مدرسہ میں پڑھتی ہیں۔ ایک وہ جن کا اپنا مدرسہ ہے، تنظیم ہے، وسائل ہیں اور اس ناحیہ سے وہ اپنی اولادوں کا مستقبل محفوظ سمجھتے ہیں یا وہ جو بالکل مجبور و معذور ہیں، کچھ نہیں کر سکتے تو مدرسہ میں پڑھاتے ہیں یا کچھ نیک لوگ واقعی نیک لوگ؛ ورنہ بیشتر اساتذہ و ملازمین کی اولادیں اسکولوں اور کالجوں میں پڑھتی ہیں اور دیگر مصروفیات و روزگار سے وابستہ ہوتی ہیں۔ عصرِ حاضر کے تغیّرات سے مربوط ہونے کی ضرورت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ جو نظام کا حصّہ بنتے ہیں، اُن کی اکثریت دینی شعور سے خالی ہوتی ہے ، ان کے سامنے صرف اور صرف پیسہ اور حاکمِ وقت ہوتا ہے اور ان مدارس کے فارغین جن میں بڑی تعداد دینی اور ملّی شعور رکھتی ہے، وہ نظام میں کہیں جگہ ہی نہیں پاتی، جب کہ ایک تعداد اپنی تعلیمی صلاحیت کی پستی کے سبب کسی دوسری دنیا کی مخلوق سمجھی جاتی ہے۔
دوسرا مقالہ ‘‘مدارس میں نظامِ تربیت ایک جائزہ’’ ہے۔ یہ بھی بڑا قیمتی مقالہ ہے، سوشل میڈیا کے وجود نے اس مقالہ کی معنویت میں مزید اضافہ کر دیا ہے، مقالہ نگار نے متعدد مدارس کے نظامِ تربیت کا مختلف حوالوں سے تجزیہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے تزکیہ و تربیت کے وسیع تناظراور بلند مقاصد کو پیش کیا ہے۔ ایک ذیلی عنوان دل کو بہت بھایا ‘‘مربّی کی اصلاح’’۔ راقم نے ابھی چند روز قبل تربیت کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ طلبہ کی اصلاح و تربیت پر غور کرنے سے قبل مختلف پہلوؤں سے اساتذہ کی تربیت ضروری ہے اور تربیت کے وسیع معنیٰ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فرد کی تربیت، اجتماعی اخلاقیات کی تربیت، عبادات و معاملات کی تربیت بہر اعتبار تربیت کی ضرورت ہے۔ دینی و فکری تربیت ہی مدارسِ اسلامیہ کی امتیازی شان ہوا کرتی تھی؛ لیکن اب ملبوسات و مظاہر کا تربیت پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ البتہ اس پردہ کو سوشل میڈیا نے بہت بری طرح تار تار کر دیا، علمی و تعلیمی بحران کی طرح فکری پستی اور اخلاقی دیوالیہ پن حقیقت مجسم بن کر سامنے ہے، غیبت، بہتان تراشی، گالی گلوج، فحش نگاری، بد ذوقی کی ساری حدیں ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ اس صورتِ حال کا اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر اصلاح کا قدم اٹھایا جائے تو یقیناً اس سلسلے میں یہ مقالہ بڑا مفید ثابت ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ اب ہمارے یہاں تزکیہ کی روح ہی نہیں باقی رہی، نہ وہ اپنے وسیع اور اصلی معنیٰ میں باقی ہے اور نہ برصغیر میں مستعمل روایتی معنیٰ میں باقی ہے، مظاہر ضرور رہ گئے ہیں؛ ورنہ اگر کچھ حقیقت پسندی ہوتی تو اس قدر اخلاقی بحران وقتاً فوقتاً وجود میں نہ آتا۔
اس کے بعد چار مقالات اس کتاب کا عطر ہیں۔ مؤلّف کی دماغ سوزی کا نتیجہ ہیں، قرآن و حدیث و فقہ کی تدریس میں بھی وقت کے تقاضوں کا لحاظ ضروری ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم قرآن و حدیث کو بھی فقہ کے رنگ میں رنگ کر پڑھاتے ہیں، جس کی وجہ سے عام طور پر مجادلانہ طبیعت اور تنگ نظری وجود میں آتی ہے؛ حالاں کہ قرآن کو قرآن کی روح اور حدیث کو نبوی مزاج کی رعایت کے ساتھ پڑھانا تھا، استنباط او استدلال اور اصولی بحثیں اپنی جگہ، فقہ پڑھاتے وقت عصری چیلنجز کو سامنے رکھنا اور تفقہ پیدا کرنے کی فکر کرنا ضروری تھا، ان چار مقالات میں بیشتر آرا و تجاویز لائقِ اعتنا اور قابلِ عمل ہیں۔ ان سے اختلاف کی بھی گنجائش ہے؛ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ چاروں مقالات مؤلّف کی تجزیاتی صلاحیت، تعمیری فکر، مدارس سے گہری ذہنی و قلبی وابستگی اور ان کے اس دعوے کی تصدیق ہیں جو انھوں نے پیشِ لفظ میں کیا ہے:
‘‘ راقم کو مدارس کے نظام و نصاب سے گہری دل چسپی رہی ہے۔ اس کے متعلقات کے مطالعہ، غور و فکر اور تحلیل و تجزیے کے مواقع ملتے رہے ہیں بالخصوص اس موضوع پر منعقد ہونے والے سمیناروں میں مدعو کیا جاتا رہا اور ہر بار کوشش ہوئی کہ کسی نئے زاویے سے تحلیل و تجزیہ کے ساتھ مناسب لائحۂ عمل بھی پیش کیا جائے’’۔ (ص: ۶)
اس کے بعد ایک مقالہ مدارس کے نصاب تعلیم اور دعوت سے متعلق ہے۔ مؤلّف نے کئی بڑے مدارس کے نصاب اور ان کے مراحلِ تعلیم اور پڑھائے جانے والے دعوتی مواد کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ راقم سطور نے پروفیسر محسن عثمانی کی کتاب ‘‘دعوتِ اسلام’’ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے، واقعہ یہ ہے کہ جس طرح سوشل میڈیا نے فارغینِ مدارس کی املائی غلطیوں، علمی وفکری پستیوں کو عیاں کر دیا، اسی طرح دنیا کے بدلتے حالات نے دعوت سے ہماری غفلت کو واضح کر دیا۔ مؤلّف نے تو صرف چند بڑے مدارس کا جائزہ لیا ہے۔ پروفیسر محسن عثمانی نے اس سے آگے بڑھ کر صدیوں کی غفلت کا جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے بالکل صحیح کہا ہے کہ ہمارے علما کو دعوت اور پیغمبرانہ مشن کا خیال نہ رہا؛ ورنہ جس صورت میں بھی صحیح! اگر مدارس وجود میں آتے رہے، ضخیم کتب تصنیف ہوتی رہیں، شروحات لکھی جاتی رہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ دعوتی لٹریچر اور دعوت کی اہمیت اور تقاضوں پر علمی گفتگو ہوئی نہ اس کی عملی کوششیں۔ تقریباً تمام ہی مدارس اشاعتِ دین اور حفاظتِ اسلام کو اپنا مقصد اصلی بتاتے ہیں، جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ حفاظتِ اسلام کے تئیں تو کچھ نہ کچھ کام ہوا اور ہوتا رہتا ہے؛ لیکن اشاعتِ اسلام کا کام جس دعوتی عمل کا متقاضی ہے، وہ ہنوز مفقود ہے۔ مؤلّف کتاب نے اپنے اس تجزیاتی مقالہ کا جو خلاصہ پیش کیا ہے وہ بالکل درست ہے، اس اضافے کے ساتھ کہ دعوتی لٹریچر پڑھانے کے ساتھ دعوتی تڑپ پیدا کرنے کے لیے عملی تربیت لازم ہے۔ عرب یونیورسٹیوں کے کلیۃ الدعوہ کے فارغین اگر تربیت یافتہ ہوئے تو انھوں نے قربانیوں کی مثالیں رقم کر دیں، شاہوں کی نوازشات انھیں خرید سکیں نہ جیلوں کی تعذیبات ان کے پائے ثبات کو متزلزل کر سکیں، اگر وہ تربیت یافتہ نہ ہوئے تو منبرِ حرم سے بھی انھوں نے شاہی منشا کے مطابق تبلیغ و ترسیل کی، اس وضاحت کے بعد ان کا خلاصۂ کلام پڑھیے:
‘‘خلاصہ: دینی مدارس نے دعوتِ دین کو اپنے مقاصد اور ترجیحات میں شامل کیا ہے، مگر نصابِ تعلیم کی تشکیل کے وقت اس کا خاطر خواہ لحاظ نہیں رکھا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ دینی مدارس کے نطام و نصاب کو ہندوستان کے مخصوص حالات اور دعوتی تناظر میں از سرِ نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت کی بہت اہم ضرورت ہے، عرب یونیورسٹیز کے نصابات میں اسے خاصی اہمیت دی گئی ہے، ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے’’۔ (ص: ۱۱۰)
فی الحقیقت یہ کتاب دعوتِ غور و فکر دیتی ہے، نئے پہلوؤں سے متعارف کراتی ہے، مدارس کی اصلاح کی ایک سنجیدہ کوشش ہے، اس کی سنجیدگی کا اندازہ اس میں شامل ایک مضمون کے عنوان سے لگائیے ‘‘دینی مدارس سے تخاطب کا طریقہ’’۔ اس کتاب کی اشاعت پر اس کے مؤلّف قابلِ صد مبارک باد ہیں، انھوں نے اپنے حصّے کا کام کیا ہے، وہ ایک سنجیدہ صاحبِ قلم ہیں، علمی کاموں سے شغف رکھتے ہیں، ایک تصنیفی و تحقیقی ادارہ ان کی فکر و کوشش کا گواہ بن رہا ہے۔ اربابِ مدارس کو اس کتاب کا پُرتپاک خیر مقدم کرنا چاہیے۔ راقم سطور سے پوچھا جائے کہ اس کتاب کا خلاصہ پڑھنا ہو تو کس مضمون کو پڑھنا کافی ہوگا، جواب ہوگا ‘‘شبلی کی نظر میں مثالی مدرسہ’’ اب آپ پوچھیں گے کیوں؟ تو راقم عرض کرے گا کہ شبلی جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں، شبلی نے گذشتہ صدی کے اوائل میں وفات پائی؛ لیکن دوٗر اندیشی ایسی پائی تھی، دماغ ایسا پایا تھا کہ آج کے ہندوستان کے حالات کو اُس وقت محسوس کر رہے تھے۔ آج کی ضروریات کو اُس وقت بیان کر رہے تھے، چناں چہ ان کا یہ دعویٰ آج بھی اسی طرح سراپا سوال ہے؛ جب کہ ایک صدی کے بعد برصغیر میں لاکھوں مدارس کا جال پھیل چکا ہے، مخصوص زاویہ نگاہ کو کنارے رکھیے، حالات کا جائزہ لیجیے، وقت کے تقاضوں کو پڑھیے پھر اس عظیم ملّی سرمایہ اور اس کی خدمات اور نتائج و ثمرات کا جائزہ لے کر بتائیے کہ کیا آج بھی آپ شبلی کے اس تجزیہ کا کوئی جواب دے سکتے ہیں؟: ‘‘تمام ہندوستان میں ایک بھی ایسا خالص اور مذہبی مدرسہ نہیں جو بلحاظ جامعیت و وسعت و عظمت کے مدرسہ اعظم کہلانے کا مستحق ہو، جس میں تمام علوم دینیہ یعنی تفسیر حدیث، فقہ کی تعلیم ایسے کمال درجے تک دی جاتی ہو کہ تحقیق کا مرتبہ حاصل ہو سکے، جس میں اسلامی علوم کی قدیم اور نادر کتابیں فراہم کی گئی ہوں، جس میں طالب علموں کو تصنیف و تالیف کی تعلیم دی جاتی ہو، جس میں ایسے لوگ تیار کیے جاتے ہوں، جو مخالفین کے اعتراضات کا جواب آج کے مذاق کے موافق دے سکیں، جس میں حکومت کی موجودہ زبان بقدر ضرورت پڑھائی جاتی ہو، جس کی عمارت وسیع پُر فضا اور عظیم الشان ہو’’۔ (ص: ۱۴۲- ۱۴۳)
شبلی کی نظر میں مدرسہ جس طرح کا ہونا چاہیے تھا، آج کے عصری تقاضوں کو سامنے رکھیے تو جزوی تبدیلیوں کے ساتھ بنیادی مقاصد وہی قرار پاتے ہیں جو شبلی نے متعین کیے تھے:
- • ‘‘جو تمام اسلامی علوم و فنون یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، اصول اور ادب کے ماہرین پیدا کرے۔
- • جو رسول اللہﷺ اور اسلام و عالمِ اسلام کی صحیح و مفصّل تاریخ کے واقف کار پیدا کرے۔
- • جو نئے مذاق کے موافق واعظین اور مقررین پیدا کرے۔
- • جو مخالفینِ اسلام کے اعتراضات کا مسکت جواب دینے والا پیدا کر ے۔
- • جو معاصر فلسفہ کے مذہب کو سمجھنے والا اور ان کا ازالہ کرنے والا پیدا کر سکے۔’’ (ص: ۱۴۳-۱۴۴)
اہل علم کو اس کتاب کا بھرپور استقبال کرنا چاہیے، اہل مدارس کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، اور سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اس کتاب کی آرا و تجاویز سے استفادہ کرنا چاہیے؛ تاکہ ملّت کا یہ عظیم سرمایہ اپنی افادیت و اہمیت کا لوہا منوا سکے اور دشمن بھی یہ اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے کہ یہ مدارس ملک کی ترقی میں اپنا بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔
و ما علینا الا البلاغ