قوموں کے عروج و زوال کا مختصر تاریخی جائزہ
قوموں کے عروج و زوال کا مختصر تاریخی جائزہ
از:محمد عمر فراہی
_____________________
جس وقت مکہ میں رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان کیا اس وقت یہودو نصاریٰ کی نہ صرف تہذیب غالب تھی وہ مشرکین مکہ سے کہیں زیادہ علم اور ٹکنالوجی میں بھی آگے تھے۔ اپنی اسی علمی برتری اور اہل کتاب ہونے کی وجہ سے یہ لوگ عربوں کو امی کہتے تھے مگر کچھ عرصے میں ہی یہ اپنی علمی برتری کے باوجود مغلوب ہو گئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اپنے اہل کتاب ہونے پر ناز تو تھا مگر کتاب کے ساتھ انہوں نے جو سلوک روا رکھا تھا ان کے بارے میں اللہ کے قانون سے بدعہدی کا تذکرہ قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے ۔اسی بدعہدی کی لعنت میں جب مسلم حکمراں مبتلا ہوۓ اور میزان میں خیانت برتنا شروع کیا تو ان کے ہاتھ سے اقتدار جاتا رہا یا یوں کہہ لیں کہ تقریبا دو صدی سے اللہ نے ہم پر ذلت اور رسوائی مسلط کر دی ہے ۔ہمیں سمجھنا چاہئے تھا کہ ہم اللہ کے قانون سے بغاوت اور نافرمانیوں کی وجہ سے مغلوب ہوئے ہیں مگر ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہمارے زوال کی وجہ جدید تعلیم اور ٹکنالوجی سے انحراف ہے ۔اسی لیے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے میں یہ بحث جاری ہے کہ کاش ہم نے یونانی اور مغربی علوم اور فلسفے سے غفلت نہ برتی ہوتی ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی دین اور قوم کے غالب ہونے میں یونانی اور مصری فلسفہ اور ان کے علوم ہی کافی تھے تو یونان و مصر کو کبھی زوال ہی نہیں آنا چاہئے تھا ۔ یقیناً حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کے حواریوں نے اپنے ماضی کی قوموں کے علوم کو تسلیم کرتے ہوۓ عالیشان سلطنتوں کی بنیاد رکھی لیکن کرہ ارض پر کسی بھی سلطنت اور ریاست میں امن و انصاف اور اعتدال کی فضا قائم رکھنے کیلئے صرف علم و فن اور فلسفہ و منطق کے ہتھیار کافی نہیں ہوتے ۔امن و انصاف اور خوشحالی کیلئے کسی بھی حکمراں اور اس کی قوم کا بے باک ، بے خوف ،ایماندار اور عہد کا پابند ہونا لازم ہے ۔مکہ کے مشرکین اپنی جہالت کی بنیاد پر لاکھ بت پرستی اور بہت ساری برائیوں میں مبتلا تھے مگر وہ اتنے غیور تھے کہ ایک بار کسی سے عہد کر لیتے تو کسی بھی قیمت پر منافقت نہیں کرتے ۔اس تعلق سے تاریخ میں مشرکین عرب کے کئی واقعات مشہور ہیں ۔ایک واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے دوران راستے کی رہنمائی کا ہے ۔ہجرت جیسے پرخطر معاملے میں جبکہ اس رازداری کیلئے کسی مومن پر ہی یقین کیا جا سکتا تھا مگر اللہ کے رسول نے عبداللہ بن عریقط کی رہنمائی کا خطرہ مول لیا تو اس لئے کہ انہیں اپنی اس غیور عرب کے عہد و پیمان پر یقین تھا ۔اس کے بعد اسلامی فوجوں کی مسلسل فتوحات اور نصاری کے مغلوب ہونے میں ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی اپنے عہد و ایمانداری کی پابندی اور بے باکی تھی ۔انہوں نے عہد و انصاف کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں کی ۔مدینے کا وہ واقعہ بھی تاریخ میں درج ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے برخلاف یہودی کے حق میں فیصلہ دیا کیوں کہ وہ حق پر تھا ۔بعد میں اس مسلمان نے اپنے فیصلے کو حضرت عمر کے سامنے پیش کیا ۔حضرت عمر کا اس شخص کے بارے میں فیصلہ بھی تاریخ میں درج ہے ۔یروشلم کی فتح و شکست میں اسلامی فوجوں اور صلیبیوں کی فوج کا کردار بھی تاریخ میں سنہرے حروف میں درج ہے ۔علم انسان کو عالم مصنف اور خطیب تو بنا دیتا ہے مگر عالم اپنے علم سے مادہ پرستی میں مبتلا نہیں ہوگا اس کی کیا ضمانت ہے ؟ جبکہ قوموں کے عروج وزوال میں علم کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا اہم کردار ہے جو ایک صالح معاشرے کی تشکیل اور نسلوں کی تربیت سے ہی ممکن ہے اور یہ تربیت لارڈ میکالےکے تعلیمی نظام سے نہیں صرف رسول کی سیرت سے ہی ممکن ہے ۔ جس قوم کے علماء و حکماء کے اندر عہد کی پابندی نہ رہے اور خوف غالب آ جاۓ وہ لاکھ حبہ و دستار کا مظاہرہ کریں دعوت وعزیمت کے اہل نہیں ہو سکتے ۔بدقسمتی سے مسلم سلطنتوں کے خاتمے کے بعد مسلمانوں میں جو معاشرتی اور اخلاقی خرابیاں در آئیں وہ تو ایک مسئلہ ہے ہی ملت اسلامیہ ہند ایک زمانے سے قیادت کے سنگین بحران سے بھی گزر رہی ہے تو اس کی وجہ علم نہیں ان کی مادہ پرستی بدعہدی اور اخلاقی قدروں کا فقدان ہے ۔ظاہر سی بات ہے جو قوم اپنے سرپرست سے ہی محروم ہو جائے اس کی غیرت کو نیلام ہونے میں بھی کتنا وقت درکار ہے ؟۔اس کے بعد خوف کا غالب ہونا بھی لازمی ہے ۔ایسے حالات میں قوم کے علماء اور صالحین کی پہلی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ اسی طرح مسلمانوں کی خاموش تربیت کو ترجیح دیں جیسے کہ حضرت موسی نے چالیس سال تک بنی اسرائیل کی نسلوں کی تربیت کی اور اس تربیت سے ایک ایسی نسل پروان چڑھے جو اپنے اخلاق اور کردار سے کرہ ارض کے دوسرے انسانوں سے مختلف نظر آۓ۔دوسرے لفظوں میں ایک مسلم قوم کی حیثیت سے دوسروں کی نظر میں جو اعتماد ہم کھو چکے ہیں اسے دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔باقی کوئی بھی قوم علم و فن کے میدان میں کتنی بھی مہارت حاصل کر لے اگر وہ اپنے اس علم و فن سے امن اور انصاف کا ماحول اور تہذیب و تمدن کا مظاہرہ نہ کر سکے تو یہ علم و فن، ترقی اور ٹکنالوجی بھی وقتی شور شرابے اور ہنگامہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔یقین نہ آۓ تو مغرب سے نکلنے والے سورج کے غروب ہونے کی علامتیں بھی دیکھ لیں جو ظاہر ہونا شروع ہو چکی ہیں ۔اسے دیکھنے کیلئے کسی عنوان پر پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عام فہم لوگ اپنے تقوی اور فراست سے بھی محسوس کر سکتے ہیں ۔