آمر حکمرانوں کا انجام
آمر حکمرانوں انجام
✍️ سلمان فاروق حسینی
________________
امریکہ اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ ترکیہ پربھی حالیہ شامی غدر میں ملوث ہونے کے الزامات کے جواب میں گرچہ ترکیہ ابھی چند گھنٹوں قبل یہ صفائی دے چکا ہے کہ ہم صرف کچھ معاہدوں میں بہ طورثالث ہیں یعنیٰ ہمارا بلوائیوں سے بہ حیثیت میڈیٹر رابطہ تو ہے لیکن ان پر کنٹرول نہیں ہے اوربشارالاسد دمشق میں محفوظ ہیں کیوں کہ ان کا حماۃ تک ہی قبضے کا منصوبہ ہے لیکن مشرق وسطیٰ کے حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ مستقبل کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ نہیں ہوگا، بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی وقت ہر کچھ ممکن ہے، ساتھ یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ اب تک ادلب میں محصور رکھے گئےتکفیری نواصب پلس خوارج وہاں سے نکل کر حلب کے بعد عراق کی طرف بڑھنے کی کوششیں کررہے ہیں اور دمشق پرحملہ کرنے کا اعلان کرچکے ہیں، انہوں نےروضہ بی بی زینب سلام اللہ علیہا شام اورروضہ امام حسین علیہ السلام کربلا عراق پر بھی حملہ کرنے کی دھمکیاں دینی شروع کردی ہیں، یہ شیعہ دشمنی میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ اللہ اکبر کے نعروں اور سجدوں کے ساتھ قرآنی آیات کی بے حرمتی اورخلیفہ راشد مولا علی علیہ السلام پر سرعام سب شتم کرتے یعنیٰ گالیاں بکتے ہیں، جب کہ حقیقتاً نصیریت کا شیعت سنیت یہاں تک کہ اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ وہ بھی فلسطینی مقاومت اورحزب اللہ کو کمک کی ترسیل کی وجہ سے ایران کے فقط اسی طرح اسٹریٹجک اتحادی ہیں جیسا کہ روس اور چین ہیں، اور یہ اسٹریٹجک پوزیشن نہ روس کھونا پسند کرے گا نہ ایران نہ چین کو یہ اچھا لگے گا، اس لئے یہ خبر بھی آنی شروع ہو چکی ہیں کہ چین نے تائیوان کے معاملے پر امریکہ کے لئےتناؤ بڑھا دیا ہے، یمنیوں نے اسرائیل کی مدد کو آئے تین بحری جنگی جہازوں پر شدید حملہ کیا ہے اور روس نے یوکرین میں دباؤ سخت کرنے کےساتھ شام میں دمشق کے باغیوں پر بھی بے دریغ فضائی حملے شروع کردئے ہیں جس میں کچھ عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق شام سے الاخوان المسلون کی عسکری شاخوں کا خاتمہ کرنے والا الجولانی مارا گیا ہے، عراق کے راستے ایران افغانستان پاکستان اورلبنان کے رضاکار لڑاکے شام میں تکفیری گروہوں کے خلاف پہنچنے پھرسےشروع ہوچکے ہیں، جبکہ ترکیہ ایرفورس کے جاسوسی ڈرون جنگ زدہ خطے میں شامی افواج کی نقل وحمل پر نظر رکھنے کی کوشش کرتے دیکھے گئے ہیں،یعنیٰ سید علی خامنائی کی ترکیہ کو ساتھ لا کر جنگ شام و عراق سے دور رکھنے کی حکمت عملی خود ترکیہ کے ہاتھوں شامی پناہ گزینوں کا بہانا بناکر سبوتاژ کی جاچکی ہے، پناہ گزینوں کو لے کر ایران میں کبھی وہ مسائل آخرکیوں پیدا نہیں ہوئے جوپاکستان میں افغان اور ترکیہ میں شامی مہاجرین کے تعلق سےآئے دن پیدا ہوتے رہتے ہیں؟ اس میں عقل مندوں کے لئے غورکرنے والی بات ہے جبکہ ایران ہوچکی افغان امریکہ جنگ کے دوران سے آج تک لاکھوں پناہ گزنیوں کا میزبان ہے، ہاں یہ کہ چند ہفتوں قبل بعض آزاد ذرائع سے یہ خبر موصول ہوئی ہے کہ اب جب افغانستان مکمل پرامن ہوچکا ہے تو ایران یہ چاہتا ہے کہ وہاں کے مہاجرین واپس اپنے ملک چلے جائیں۔
آج بھارتی نیوز چینل ٹی وی-9 بھارت ورش پر ایک اینکر نے یوکرین اور مشرق وسطیٰ جنگوں کی خاص رپورٹینگ کرنے والے صحافی منیش جھا سے کچھ یوں پوچھا: بشارالاسد پر آمر ہونے کا الزام ہے اور آپ کے خیال سے باغی بشارالاسد کو بے دخل کیوںکرنا چاہتے ہیں؟تو انہوں نے اینکر کو توجہ دلا کر طنزیہ انداز میں برجستہ جواب دیا: اس لئے کہ امریکہ کو بشارالاسد کی شکل پسند نہیں ہے اور بشار آمر اس وجہ سے قرار پائے ہیں کیوں کہ وہ امریکہ کو پسند نہیں کرتے، انہیں سمجھ میں اس لئے آگیا کیوں کہ وہ اہل ہنود میں سے ہیں پر جمود کا شکار نہیں ہیں، وہ بتوں کے پرستار تو ہیں لیکن شخصیتوں کے پجاری نہیں ہیں، انہوں نے ایسا کہہ کر اس لئے کفر نہیں کیا کیوں کہ ہر غیر مسلم ہر معاملے میں کافر نہیں ہوتا، حقیقی کافر تو وہ ہے جو جانتے سمجھتے ہوئے بھی حقیقت کو تسلیم نہ کرے پھر اس معاملے میں مذہب کی تفریق نہیں رہ جاتی، میری نظر میں مسلک کفر نہیں ہے لیکن مسلک پرستی کفر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کیوں کہ اس مرض میں گرفتار لوگ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ جیسے ہیں جن میں اکثریت مسلمانوں کے احبار و رہبان اور مذہبی اشرافیہ کی ہے، ان کے شرسے محفوظ سادہ لوح مسلمان تو بناتفریق مسلک وفرقہ فلسطین اورالاقصیٰ کے لئے کھڑا ہے، کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ نہ ہرقاتل ظالم ہوتا ہے نہ ہر مقتول مظلوم ہوتا ہے۔
ابلیس آج بھی عابد و زاہد اور بڑا مؤحد ہے لیکن یہ تاویل گڑھتے ہوئے حسد میں آکر خدا کے حکم کا انکاری ہوا اورآسمان میں آدم کو سجدہ نہیں کیا کہ وہ مٹی سے تو میں آگ سے ہوں اور آگ مٹی سے اعلیٰ ہے، پھر کافر قرار پایا اور مردود ہوا، مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ دنیا میں ابلیس کی راہ پر چلا اور رسول اللہ کے حکم ” انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابداً ولن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض،یعنیٰ اگر تم کتاب اللہ اورمیرے اہل بیت کی راہ پر چلوگے تو گمراہ نہیں ہوگے یہاں تک حوض کوثر پر ان کے ساتھ مجھ سے آملوگے” کا یہ تاویل کر کے منکر ہوا کہ علی علیہ السلام کم عمر اس لئے ہم سے کمتر ہیں اور انہیں قیادت جنگ وسیاست کی سمجھ نہیں ہے جبکہ ہم تومعمر ہونے کی وجہ سے ان پربرتراور قیادت جنگ و سیاست کے ماہر اعلیٰ قسم کےتیس مار خاں ہیں، یہ کفر نہیں تو اور کیا ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت جنگ و سیاست مطہرہ کے برخلاف اس قیادت جنگ وسیاست غلیظہ کو اپنایا جس نے سلیمان علیہ السلام کے بعد جھگڑے کھڑے کئے اور انہیں خدا کا عطا کردہ دین وبادشاہت دونوں کوٹکروں میں تقسیم کر دیاتھا، بلا شبہ اللہ تبارک و تعالیٰ شعور رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے اور انہیں کی رہنمائی کرتا ہے۔
فلسطینی مقاومت کے لئے سردر حالیہ شامی بحران کے درمیان ایرانی وزیر خارجہ کا شام اور پھر ترکیہ کا دورہ ترکیہ کے اس اسٹیٹمنٹ کے پس منظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ترکیہ نہیں چاہتا کہ شام پر مختلف دھڑوں اور نظریات میں تقسیم گروہوں کا تسلط ہو، انقرہ میں ایرانی وزیرخارجہ کا خیرمقدم ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ دورہ اس بات پر حتمی مہر لگا دے گا کہ فلسطین کے معاملے میں ترکیہ کہاں کھڑا ہے، وہ واضح طور پر روس ایران بلاک میں شمولیت اختیار کرتا ہے یا پھر امریکہ اسرائیل بلاک کی طرف لڑھک جاتا ہے، ترکیہ کا مستقبل صرف اسی صورت میں روشن ہے جبکہ وہ یوروپی یونین ناٹو اور امریکہ وغیرہ سے خیر کی امیدیں چھوڑ دے اور خود کو یوروپ کے بجائے ایشیاء کا حصہ تصور کرلے، تاحال یہ اطلاع ہے کہ شامی حکومت نے ایران سے سیدھی فوجی معاونت کی درخواست کی ہے اور شام کی سلامتی کو بحال کرنے کے لئے شام میں ایران کو کسی بھی تعداد کے ساتھ افواج، میزائل، فضائی، سائبر اور زمینی آپریشن کرنے کا حق دے دیا ہے، ساتھ یہ کہ امریکہ و اسرائیل سے مستقل تحفظ کے لئے ایران کو شامی سرزمین پر فوجی تنصیبات جیسے ایئربیس اور نیول بیس بنانے کا بھی حق حاصل ہوگا، اس کے بعد ترکیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ شام کے حالیہ پس منظر میں بشار کو چھوڑ کر روس اورایران کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہے، ترکیہ بشار سے ڈائریکٹ کوئی بات نہ کرے کوئی حرج نہیں لیکن اگر اس نے اس کو ضد بنایا اوران ڈائریکٹ بات چیت کا دروازہ بندکرنے کی کوشش کی تو یہ بات ترکیہ کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ جواب میں روس اور ایران کے ذریعہ ترکیہ کی کہی جانے والی شامی اپوزیشن کی مذاکرات میں شمولیت کی ڈیمانڈ کو مائنس کیا جاسکتا ہے۔
مذہبی طورپر عالم اسلام کے حالات سے یہی محسوس ہورہا ہے کہ 37ھ میں ادھورا رہ گیا میدان صفین چودہ سو نو سالوں بعد پھر سے سج گیا ہے، اس بار میدان جنگ من پسند ہے اور میرے کیلکولیشن کے مطابق فی الحال وقت بھی بالکل درست معلوم پڑ رہا ہے، اگر ٹکراؤ وہی ہے جس کا اندیشہ ہے تو سمجھو کہ مؤمن کی آنکھیں پرسکون اور قلب مطمئن ہونے والا ہے، صالح علماء احناف کہتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے خلاف ہتھیار بلند کرنے والے اہل جمل نے توبہ کرلی تھی مگر میرے گمان میں کفارہ ادا نہیں کیا تھا ورنہ دشمنان خلافت راشدہ وہیں ختم ہوگئے ہوتے، اب انتظار اس بات کا ہے کہ ان کے موجودہ پیروکار کفارہ ادا کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ اہل جمل کے پیروکاروں کے لئے یہ سخت ترین امتحان کے ایام ہیں کیونکہ ان کا ایک چھوٹا سا غلط قدم یا خاموشی ان کے لئے توبہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کردے گی اور پھران کا شمار بھی دشمنان خلافت راشدہ کے ساتھ کیا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں خالص دینی نقطہ نظر سے کہوں تو امت مسلمہ کے پاس اب فقط تین راستے ہیں، یمانی ہوجائیں خراسانی ہوجائیں یا پھر سفیانی ہوجائیں، سعودی عرب امارات بحرین اردن و مصروغیرہ کے حکمران بھی آمر ہیں، سعودی عرب نے یمن سے اور مصر نے اپنی سرحدوں سے فلسطین کا راستہ بند کر رکھا ہے اور ان کی جیلوں میں آمریت سے آزادی کے حق کے حصول کے لئے فقط زبان کھولنے والے ہر مسلک کےجید علماء امت اور حریت پسند کچھ قیدمیں مرگئے یا ماردئیے گئے اوربہت سے آج بھی صعوبتیں جھیل رہے ہیں جنہیں آزاد کرانا بھی امریکہ کا فریضہ تھا لیکن اس نے ان آمروں پر مضبوط گرفت ہونے کے باوجود اپنے اس فریضہ کی ادائیگی میں بہت تاخیر کردی ہے جس کی سزا اسے اور اس کے معاونین کوضرور مل کر رہے گی۔