بابری مسجد کا انہدام اور رام مندر کی تعمیر: چند مضمرات
بابری مسجد کا انہدام اور رام مندر کی تعمیر: چند مضمرات
از: محمد شہباز عالم مصباحی
ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ آف عربک، سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
____________________
6 دسمبر 1992 کا دن ہندوستان کی تاریخ میں ایک بد ترین المیے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس دن بابری مسجد، جو تقریباً پانچ صدیوں سے ایودھیا کی سرزمین پر قائم تھی، شدت پسند عناصر کے ہاتھوں شہید کی گئی۔ یہ واقعہ صرف ایک عمارت کی شہادت نہیں، بلکہ ہندوستان کے جمہوری، سیکولر اور قانونی ڈھانچے پر ایک گہرا زخم تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے جن میں ہزاروں معصوم افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ المیہ اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کس قدر مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔
بابری مسجد کا مقدمہ اور عدالتی فیصلہ:
سالوں تک عدالتوں میں چلنے والے اس مقدمے نے ہندوستانی عدالتی نظام کو بھی چیلنجز کے کڑے امتحان میں ڈال دیا تھا۔ 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ متنازع زمین رام مندر کی تعمیر کے لیے دی جائے، جب کہ مسلمانوں کو متبادل کے طور پر پانچ ایکڑ زمین فراہم کی گئی۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کے لیے ایک تلخ حقیقت تھی، لیکن اس کے باوجود ملت نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور قانون کی پاسداری کو ترجیح دی۔
رام مندر کی تعمیر اور سیاسی مقاصد:
رام مندر کی تعمیر ایک مذہبی کے بجائے سیاسی ایجنڈے کے تحت ہے۔ یہ ایجنڈا نفرت کی سیاست کو فروغ دیتا ہے اور مختلف مذاہب کے درمیان دوریوں کو مزید بڑھاتا ہے۔ ہندوستان جیسا متنوع ملک، جہاں مختلف مذاہب، ثقافتیں اور زبانیں ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ہیں، نفرت کی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
مسلمانوں کے لیے پیغام:
بابری مسجد کے معاملے نے مسلمانوں کو کئی سبق دیے ہیں۔ سب سے اہم سبق یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے اپنے حقوق کے لیے قانونی اور پُر امن جدوجہد کے ساتھ ساتھ تعلیمی، سماجی اور معاشی میدان میں مضبوطی پیدا کرنا از حد ضروری ہے۔
-
1. تعلیم اور بیداری:
مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی نئی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ تعلیم نہ صرف ترقی کی کنجی ہے بلکہ ایک باشعور اور مضبوط قوم کی بنیاد بھی ہے۔
-
2. اتحاد اور یکجہتی:
ملت کے اندر اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مسلکی اختلافات کو اپنے اپنے دائرے میں رکھ کر ایک مشترکہ ایجنڈے پر کام کرنا ہوگا تاکہ ملت کے اجتماعی اور مشترکہ مفادات کا تحفظ ہو سکے۔
-
3. قانون کی پاسداری اور پر امن جدوجہد:
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں اور اپنے حقوق کے لیے پر امن طریقوں کا استعمال کریں اور آئین پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔
-
4. مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیں:
نفرت کے جواب میں محبت اور رواداری کا مظاہرہ کریں۔ دوسرے مذاہب کے افراد کے ساتھ مکالمہ اور تعلقات کو مضبوط کریں تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو۔
اختتامیہ:
بابری مسجد کی شہادت اور رام مندر کی تعمیر ایک تاریخی المیہ ہے جس کے اثرات کئی نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ لیکن اس واقعے نے مسلمانوں کو ایک اہم سبق دیا ہے کہ مشکلات اور چیلنجز کے باوجود وہ اپنے دین، تہذیب اور سماجی وقار کی حفاظت کے لیے سرگرم رہیں۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، ہمیں اپنے اخلاقی اور دینی اصولوں پر قائم رہنا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں صبر و استقامت کے ساتھ دین و ملت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔