پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991: سپریم کورٹ کا عبوری حکم اور انتہا پسند عناصر

پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991: سپریم کورٹ کا عبوری حکم اور انتہا پسند عناصر

از: محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال

____________________

کل، 12 دسمبر 2024 کو، سپریم کورٹ آف انڈیا میں پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کے حوالے سے اہم سماعت دوپہر 3:30 بجے منعقد ہوئی۔ یہ ایکٹ ہندوستان کی مذہبی ہم آہنگی اور عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے ایک اہم قانونی دستاویز ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے ایک عبوری حکم نامہ جاری کیا جس کا مقصد ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنا اور غیر ضروری تنازعات سے ملک کو بچانا تھا۔

سپریم کورٹ کا عبوری حکم

عبوری حکم کے تحت سپریم کورٹ نے کہا:

  • 1. آئندہ سماعت تک کسی بھی مسجد کے خلاف کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا جا سکے گا۔
  • 2. جو مقدمات پہلے سے عدالت میں زیرِ غور ہیں، ان پر کسی بھی عدالت سے سروے کا حکم جاری نہیں ہوگا، اور نہ ہی کوئی ایسا فیصلہ دیا جائے گا جو معاملے پر اثر انداز ہو۔

چیف جسٹس آف انڈیا (CJI) نے اپنے ریمارکس میں کہا:
"ہم پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کی قانونی حیثیت اور اس کے دائرہ کار کا تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں۔ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ غور ہے تو دیگر عدالتوں کے لیے ایسے احکام جاری کرنا مناسب نہیں ہوگا جو کسی بھی صورت میں مقدمے پر اثر ڈال سکتے ہوں۔ اسی لیے کوئی بھی مؤثر حکم، جس میں سروے کے احکامات شامل ہوں، اگلی سماعت تک جاری نہیں کیا جائے گا۔”

ایکٹ کا پس منظر اور انتہاپسند عناصر:

یہ ایکٹ 1991 میں اس وقت بنایا گیا تھا جب بابری مسجد کا تنازعہ زوروں پر تھا۔ اس قانون کے تحت واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 تک کی تمام عبادت گاہوں کی موجودہ حالت برقرار رکھی جائے گی سوائے بابری مسجد کے اور کسی بھی مذہبی مقام کی نوعیت تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

لیکن حالیہ برسوں میں، انتہاپسند ہندو تنظیمیں، جن میں آر ایس ایس اور دیگر ہندوتوا نظریے کی حامل جماعتیں شامل ہیں، اس قانون کے خلاف اپنی مہم تیز کر چکی ہیں۔ ان تنظیموں کا مقصد صرف مذہبی مقامات کے تنازعات کو ہوا دینا ہی نہیں، بلکہ ہندوستان کے آئینی اصولوں کو کمزور کرنا بھی ہے۔ یہ عناصر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچا کر اپنے سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

آر ایس ایس اور اس کی ہم خیال جماعتیں تاریخی مساجد اور دیگر مذہبی مقامات پر دعویٰ کرکے عدالتوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ اس ایکٹ کو غیر مؤثر قرار دیں۔ ان کا اصرار ہے کہ وہ 15 اگست 1947 سے پہلے کے مبینہ حالات کا حوالہ دے کر عبادت گاہوں کی نوعیت تبدیل کر سکتے ہیں، جو آئین کی روح کے خلاف ہے۔

ہندوستانی آئین اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر حملہ:

پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 نہ صرف ایک قانونی دستاویز ہے بلکہ یہ ہندوستان کی جمہوری اور سیکولر بنیادوں کی حفاظت کی علامت بھی ہے۔ اس قانون کی مخالفت کرنے والے انتہاپسند عناصر دراصل ہندوستانی آئین کے بنیادی اصولوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو تمام عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ کا حق فراہم کرتا ہے۔

یہ تنظیمیں اپنے ایجنڈے کے ذریعے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنا چاہتی ہیں، تاکہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان دراڑ پیدا کی جا سکے۔ ان کے عزائم صرف مذہبی مقامات تک محدود نہیں، بلکہ وہ ہندوستان کے سیکولر کردار کو ختم کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ: امن کی ایک امید

سپریم کورٹ کا حالیہ عبوری حکم ان انتہاپسند عناصر کے عزائم کو ایک بڑا جھٹکا ہے۔ عدالت نے نہ صرف تمام عدالتوں کو پلیسز آف ورشپ ایکٹ کے خلاف کسی بھی نئے مقدمے یا سروے کے حکم سے روکا ہے، بلکہ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اس قانون کی قانونی حیثیت پر کوئی بھی فیصلہ احتیاط اور مکمل غور و فکر کے بعد ہی کیا جائے گا۔

اختتامیہ:

سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے ایک بار پھر ہندوستان کے جمہوری اور سیکولر نظام کو مضبوط کیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ملک کے عوام انتہاپسند عناصر کے مذموم عزائم کو ناکام بناتے ہوئے اپنے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور آئینی اصولوں کی حفاظت کریں۔ پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 نہ صرف ایک قانونی ضرورت ہے بلکہ یہ ملک کے امن و استحکام کے لیے ایک لازمی ستون بھی ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: