دستور ہند کا 75واں سال: اس کے نفاذ میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی رکاوٹیں اور منو سمرتی کے نفاذ کی کوششیں
از: محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
___________________
ہندوستان کا دستور 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی ایک جمہوری، مساواتی اور سیکولر ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ دستور ہند نے تمام شہریوں کو مساوات، آزادی، مذہب کی آزادی اور سماجی انصاف کے حقوق دیے، جس کا مقصد ہندوستانی معاشرتی انصاف کو بہتر بنانا اور اکثریتی طبقہ کے ساتھ دلتوں، مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتی طبقات کے حقوق کی حفاظت کرنا تھا۔ لیکن موجودہ سیاسی صورتحال میں، خصوصاً بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی حمایت یافتہ تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی جانب سے دستور ہند کے بنیادی اصولوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، جن کا مقصد ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے اور دلتوں اور مسلمانوں کے حقوق کو محدود کرنا ہے۔
ساورکر اور دستور ہند کی مخالفت:
ویئر ساورکر، جو ایک مشہور متشدد ہندوتوا اور آر ایس ایس رہنما تھے، نے ہندوستانی دستور پر شدید تنقید کی تھی۔ انہوں نے دستور کو "انگریزوں کا تحفہ” قرار دیا تھا اور اسے ہندو قوم کے مفادات کے خلاف سمجھا تھا۔ ساورکر کا خیال تھا کہ ہندوستان میں ہندو راشٹر کے قیام کے لیے ایک الگ قوانین کی ضرورت ہے، جو ہندوؤں کی ثقافت اور روایات کو مدنظر رکھ کر بنے ہوں۔ ان کے مطابق، ہندوستان کا دستور اقلیتوں کے حقوق کو زیادہ اہمیت دیتا ہے، جبکہ ہندو اکثریتی طبقہ کے حقوق کو کم کرتا ہے۔ ساورکر نے ایک جگہ لکھا:
”دستور ہند کی سب سے بری بات یہ ہے کہ اس میں ہندوستانیت کا کوئی بھی پہلو نہیں ہے۔ منو سمرتی وہ کتاب ہے جو ویدوں کے بعد سب سے زیادہ قابل عبادت ہے، اور جو قدیم زمانے سے ہماری ثقافت، روایات، خیالات اور اعمال کی بنیاد بنی ہوئی ہے۔
یہ کتاب صدیوں سے ہماری قوم کی روحانی اور الہامی ترقی کو ضابطہ دیتی رہی ہے۔ آج، منو سمرتی قانون بن چکی ہے۔”
یہ الفاظ ساورکر کے نظریات کی عکاسی کرتے ہیں، جنہوں نے دستور ہند کی مخالفت کرتے ہوئے منو سمرتی کو ایک مقدس قانون کے طور پر تسلیم کیا تھا، جو ان کے مطابق ہندوستانی ثقافت اور معاشرتی نظام کی بنیاد ہے۔ ساورکر جیسوں کے ان دستور مخالف نظریات کی بنیاد پر ہی در اصل آج کے بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے دستور ہند کی روح کو کچلنے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں۔
دستور ہند کی روح کو کچلنا: مودی حکومت کا طرز عمل:
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت نے دستور ہند کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوششیں تیز کی ہیں۔ خاص طور پر دلتوں اور مسلمانوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا ہے، وہ دستور کے دیے گئے حقوق اور آزادیوں کی بر خلاف ہے۔ مودی حکومت نے اقلیتی طبقات، خصوصاً مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں، جن میں گاؤ رکشا کے نام پر تشدد، ہجومی قتل، مسجدوں پر حملے، ناجائز گرفتاریاں، مسلم گھروں کو بلڈوز کیا جانا، شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، اور مختلف مقامات پر مسلمانوں کے خلاف ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی پشت پناہی کرنا اور مفسد عناصر کو تقویت دینا شامل ہیں۔
دلتوں اور مسلمانوں پر مظالم:
مودی حکومت کے دوران دلتوں اور مسلمانوں پر کئی طرح کے مظالم ہوئے ہیں، جن میں سماجی اور اقتصادی امتیاز، زمینوں کی چھین چھپٹ اور مذہبی تشدد شامل ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات، جیسے کہ گاؤ رکشا کے نام پر مسلمانوں کا قتل و غارت اور اقلیتی طبقات کو حکومت کی جانب سے تحفظ فراہم نہ کیا جانا، اس بات کا غماز ہے کہ دستور کی روح پر گہرا حملہ ہو رہا ہے۔
اس دوران، حکومت نے ہندو اکثریتی طبقہ کو کھلی چھوٹ دی ہے تاکہ وہ اقلیتی طبقات پر ظلم ڈھالیں۔ اس کا مقصد صرف ایک ووٹ بینک کی سیاست چلانا ہے، جہاں اقلیتی طبقات کو خوف اور اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے اور اکثریتی طبقہ کو ان کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔
منو سمرتی کا نفاذ: دلتوں کے حقوق کا قتل:
منو سمرتی ایک قدیم ہندوستانی قانون ہے جو ہندوؤں میں معاشرتی طبقات کی تفریق کو فروغ دیتا ہے۔ اس میں دلتوں کے لیے سخت قوانین اور ضوابط درج ہیں جو انہیں سماج میں نیچ ترین درجہ دیتے ہیں۔ منو سمرتی میں دلتوں کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھا گیا ہے اور انہیں مختلف حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس کے مطابق، دلتوں کو عزت، تعلیم اور سماجی ترقی کے تمام مواقع سے انکار کیا گیا ہے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس کی پالیسیوں میں منو سمرتی کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ یہ گروہ ہندوستان میں ایک ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں دلتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے اور مسلمانوں کو "دوسرے درجے کے شہری” کی حیثیت میں رکھا جائے۔ ان پالیسیوں کا مقصد ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا اور دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف امتیاز پیدا کرنا ہے۔
نتیجہ:
دستور ہند کی 75ویں سالگرہ پر یہ ضروری ہے کہ ہم اس پر کیے گئے حملوں کو پہچانیں اور اس کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔ مودی حکومت اور اس کی حمایت یافتہ تنظیموں کے اقدامات ہندوستانی سماج کی ہم آہنگی اور انصاف کی بنیادوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف جو مظالم ہو رہے ہیں، ان کی مذمت کی جانی چاہیے اور دستور کی روح کے مطابق ایک غیر امتیازی معاشرہ بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ ہندوستان میں منو سمرتی جیسے رجعتی قوانین کا نفاذ روک کر سب کے لیے انصاف اور مساوات کے اصولوں کو قائم کیا جا سکے۔