Slide
Slide
Slide

آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈکیوں ؟

آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈکیوں ؟

ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی

ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی کوئی حیثیت باقی ہے ؟ کیا جن مقاصد کے تحت بورڈ نے اپنا سفر شروع کیا تھا ، ان مقاصد کو حاصل کر سکا ؟یہ بھی ایک سوال ہے جس کا جواب شاید 3؍جون کے اجلاس میں مل جائے ۔در اصل رپورٹ یہ ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے صدر اور معروف بزرگ عالم دین مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی رحلت کے بعداب نئے صدر کی تلاش شروع ہو گئی ہے۔ نئے صدر کے انتخاب کے لیے اب 3؍جون کو اندور( مدھیہ پردیش) میں اجلاس کا انعقاد کیا جا رہا ہے ۔ اس کے لیے بورڈ کی جانب سے تمام ممبران کو سرکولر بھیجا گیا ہے اور شرکت کی اپیل کی گئی ہے ۔حالانکہ ابھی یہ طے نہیں ہے کہ صدر کے لیے اجلاس میں ووٹنگ ہوگی یا ماضی کی طرز پر کوئی بڑا نام پیش کر دیا جائے گا اور اس پر سب کا اتفاق ہو جائے گا ۔ فی الحال آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی صدارت کے لیے صرف ایک نام سب سے زیادہ زیر غور ہے اور وہ نام ہے مولانا سید ارشد مدنی کا جو کہ امیر شریعت ہند ، صدر جمعیۃ علماء ہند اور صدر اساتذہ دارالعلوم دیو بند ہیں۔

مولانا خلیل الرَّحمن سجاد نعمانی

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

مولانا ارشد مدنی

 اب ایک نظر بورڈ کی تاریخ پر ڈالنی ضروری ہے ۔ بورڈ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس کی بنیاد 7؍اپریل 1972؍کوبطور این جی او رکھی گئی ۔حالانکہ کچھ لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کا رجسٹریشن ہی نہیں ہواتھا لیکن بورڈ کی مظلوم ویب سائٹ پر جو دستیاب ہو سکا اس کے مطابق آپلی کیشن ایکٹ 1937؍کے تحت اس کا رجسٹریشن ہوا ہے اور اس وقت ملک کی وزیر اعظم اندر ا گاندھی تھیں ۔ بورڈ کی پہلی میٹنگ مولانا قاری محمد طیب قاسمی اور مولانا سید شاہ منت الرحمانی کے زیر اہتمام دارالعلوم بند میں منعقد ہوئی تھی جس میں پہلے اجلاس کی تاریخ کا اعلان کیا گیاتھا ۔ ویب سائٹ پر دستیاب تفصیل کے مطابق 27-28؍دسمبر 1972؍کو اس کا پہلا اجلاس حیدر آباد میں منعقد ہواتھا ۔حالانکہ ایک دوسری جگہ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ7؍اپریل 1973؍کو پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں مولانا قاری محمد طیب قاسمی صدر اور مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی بانی جنرل سکریٹری منتخب ہوئے ۔ یہ کب سے کب تک رہے اس کی تفصیل ویب سائٹ پر نہیں ہے اور جو لکھا گیا ہے بہت غلط ہے جس پر آئندہ اسٹوری کی جائے گی کہ ایسا کیوں ہے ؟ ایک ویب سائٹ تک بورڈ کی درست نہیں ہے تو پھر بورڈ کیسے چلے گا اور جو مقدمات ہیں ان کی فائلیں کیسے رکھی جائیں گی ؟ اس کے بعد مولانا علی میاں ندوی اور مولانا مجاہدالاسلام بورڈ کے صدر اتفاق رائے سے منتخب کر لیے گئے تھے ۔ انتقال سے پہلے تک مولانا رابع صاحب بورڈ کے صدر تھے ۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدور:

مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ

 علاوہ ازیں مسلم پرسنل لابورڈ کا اندور میں منعقد ہونے والا اجلاس بہت اہم بتایا جا رہا ہے ۔ اس میں صدارتی انتخاب کے ساتھ ساتھ ملک کی موجودہ صورت حال پر بھی غور کیا جائے گا ایسی رپورٹ ہے ۔ جس طرح سے یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے وہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے ۔ جس وقت بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا اس وقت بھی یکساں سول کوڈ کا ہی مسئلہ تھا چنانچہ جب بورڈ بن گیا تو اس نے سب سے پہلے حکومت سے اسی مسئلہ پر بات کی تھی اور حکومت کو سمجھانے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔ بابری مسجد اور تین طلاق کے معاملہ میں بورڈ کی شکست سے بورڈ کی حیثیت بھی پہلے کے مقابلہ کافی کمزور ہوئی ہے اور اس کی سرگرمیاں بھی اب پہلے جیسے نہیں رہیں چنانچہ اب کوشش ہوگی کہ بورڈ کی حیثیت اور اس کے وقار کو بحال کیا جائے ۔ اسی پر سب سرجوڑ کر بیٹھیں گے ۔اب اس رپورٹ کے بعد اس پر بات کرنی ضروری ہے کہ کیا اب بھی بورڈ کا کوئی وجود رہ گیا ہے ؟ بورڈ ایک اچھا پلیٹ فارم ہے لیکن کس کے لیے ؟ اب تک مسلم پرسنل لابورڈ سے ملت کے کون سے بڑے مسائل حل ہوئے ہیں ۔اس سے زیادہ کام تو جمعیۃ علماء ہند نے کر دیے ۔مقدمات کے سلسلہ میں بھی اگر دیکھیں جمعیۃ علما ء ہند کے بورڈ سے زیادہ کام ہیں ۔ اصلاح شریعت کی بات کریں تو اس میں بھی جمعیۃ زیادہ آگے نظر آئے گی ۔ کیا بورڈ کی ضرورت ہے ؟ اگر ہے تو پھر بورڈ کو بورڈ کی طرح ہونا چاہئے ، جس طرح بورڈ ہے وہ ٹھیک ہے ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: