سچ تو مگر کہنے دو!! اجمیر سے کمبھ میلے تک

سچ تو مگر کہنے دو!!

اجمیر سے کمبھ میلے تک

از:- ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز

نئے سال 2025 ء کا آغاز در اصل گزرے ہوئے سال کا تسلسل ہے۔ وہی تنازعات، کشیدگی، نفرت انگیز ماحول اور اس اندھیری نگری میں کبھی کبھی امید کہ جگنو بھی نظر آتے ہیں جیسے ایک طرف حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے آستانے پر بھی فرقہ پرستی سے آلودہ ذہنوں کے حامل بعض عناصر نے مندر ہونے کا دعوی کیاتو وزیر اعظم نریندر مودی نے عقیدت و احترام اور امن و سلامتی کے پیغام کے ساتھ چادر راجناتھ سنگھ کے ساتھ اجمیر کو روانہ کی۔ جس سے عام ہندوستانی تذبذب کا شکار ہیں کہ آیا نریندر مودی کا یہ اقدام ہندوتوا عناصر کی شرپسندی کا جواب تو نہیں، حال ہی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھی ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ ایسا کرتے ہوئے خود کو ہندؤں کا نیتا منوانا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مودی اور بھاگوت کے بیانات کیا مسلمانوں کی دل آزاری کے سلسلے کو ختم کرنے کی کوشش ہے یا یہ ایک حکمت عملی ہے کہ ہندوتوا عناصر تو مسلمانوں کی دل آزاری کرتے جائیں گے انہیں زخم پر زخم لگاتے جائیں‘ بی جے پی اور آر ایس ایس کی اعلی قیادت ان زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کرتی رہے گی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بزرگان دین کا ہندوستان کے ہر طبقے اور فرقے نے احترام کیا ہے۔ بزرگان دین کے آستانے ہمیشہ فرقہ وارانہ اتحاد اور ہم آہنگی کا مرکز رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں بزرگان دین کے آستانوں میں غیر مسلم عقیدت مندوں کی تعداد قابل لحاظ ہوتی ہے۔ کئی ایسے آستانے ہیں جن کی دیکھ بھال اور اعراس و دیگر تقاریب کے موقع پرصرف ان کے خراجات غیر مسلم عقیدت مند برداشت کرتے ہیں اور اسے سعادت سمجھتے ہیں۔ اچھے ہندو اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ اولیاء کرام کی بدولت ہندوستان میں اسلام کا نور پھیلاتو جہالت جبر و تشدد، ناانصافی، سماجی، عدم مساوات کے اندھیرے بڑی حد تک دور ہوئے۔ اولیاء کرام نے صرف اور صرف پیار ومحبت،بھائی چارگی کا درس دیا یہی وجہ ہے کہ ان کے اخلاق و کردار سے متاثر ہوکر لاکھوں ہندوستانی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اجمیر کے ہندو آستانے حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو اپنے علاقے کیلئے خوش نصیبی سمجھتے رہے ہیں کیونکہ اس آستانے کے بدولت اجمیر اور راجستھان کے سرکاری اور خانگی خزانے بھر جاتے ہیں۔ ہزاروں افراد کو بلا لحاظ مذہب ذات پات روزگار ملتا ہے۔ حضرت معین الدین چشتیؒ نے 45 سال اجمیر میں قیام کیا اور یہیں کہ سرزمین کی آغوش میں آرام کر رہے ہیں۔ ان کے خلفاء حضرت قطب الدین بختیار کاکی اور حضرت قاضی حمید الدین ناگوری نے بھی اپنے پیر و مرشد کے مشن کو ہندوستان میں عام کیا۔ حضرت چشتی کے خلفاء کے خلفاء نے بھی پیار و محبت، امن و سلامتی کو جاری رکھا۔ حضرت بابافرید الدین گنج شکرؒ، حضرت شیخ جمال الدین ہانسویؒ اور حضرت شیخ نظام الدین اولیاءؒان میں قابل ذکر ہیں۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہر دور میں شاہی حکمرانوں سے لے کر جمہوری دور کے ارباب اقتدار نے اور ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والوں نے خواجہ اجمیریؒ سے عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ رہی بات ان کے آستانے کو نشانہ بنانے کی تو اس سے پہلے شر پسندوں نے یہاں بم دھماکے بھی کئے تھے اب الفاظ کے ذریعے دھماکے کر رہے ہیں۔ بہت جلد یہ طوفان تھم جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اولیائے کرام کے آستانوں کو کم از کم مسلمانوں کیلئے توحید کا مرکز بنایا جائے۔ اندھی عقیدت کے نام پر جو غیر شرعی رسومات ہوتی ہیں انہیں ختم کیا جائے۔ ان بزرگان دین نے اللہ اور اس کے رسول کے پیام کو عام کیا۔ افسوس! اس بات کا ہے کہ بعض آستانوں کے خدام اور سجادگان خود کو بادشاہ وقت سمجھتے ہیں اور انہوں نے اپنی مسند بچانے و دولت کمانے کیلئے اسلامی تعلیمات پر پردہ ڈال دیا ہے۔ انہیں اپنا محاسبہ کرکے اصلاح کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب اللہ کی دی ہوئی نعمت کا غلط استعمال ہوتا ہے تو اللہ رب العزت اسے چھین لیتا ہے۔ آج کا دور سائنس ٹکنالوجی، آرٹی فیشل انٹلیجنس کا دور ہے۔ اس دور کی نسلوں کو اسلامی تعلیمات سے واقف کروانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت جبکہ تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ ایسے وقت مسلم اداروں کی جانب سے بزرگان دین کی تعلیمات کو ہر زبان میں اسکولس اور کالجس کے طلبہ کو پہنچانے کی ضرورت ہے۔

اجمیر شریف کا تنازعہ ابھی جاری ہے عدالت عالیہ کی ہدایت کے باوجود مساجدمیں مندروں کی تلاش کی مہم جاری ہے۔ ابھی سنبھل کے واقعات سے سنبھل بھی نہ پائے کہ علی گڈھ کی جامع مسجد کو ہندو قلعہ ہونے کا دعوی کردیا گیا۔ بات پھر عدالت تک جا پہنچی مسلم حکمرانوں کی یاد گاروں کو مٹانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ابھی آگرہ میں اورنگ زیب کی ہویلی مبارک منزل کو مسمار کردیا گیا۔ ساری دنیا نے لعنت و ملامت کی۔ اسکاٹ لینڈ کے مؤرخ DALRYMPLE نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اپنے تاریخی ثقافتی ورثہ کو خود پامال کر رہا ہے۔ مبارک منزل جسے اورنگ زیب نے سمو گڑھ جنگ کے بعد تعمیر کروایا تھا۔ سترہویں صدی کی یادگارہے۔ DALRYMPLE نے کہا کہ تاریخی ورثہ کو برباد کرکے ہندوستان شکایت کرتا ہے کہ سنگا پور کے مقابلہ ہندوستان کو آنے والے سیاحوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم ٹراویل اینڈ ٹورزم ڈیولپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 2019ء میں گیارہ ملین غیر ملکی سیاح ہندوستان آئے، جبکہ اسی سال 90 ملین سیاحوں نے فرانس کا دورہ کیا۔ آگرہ میں زہرہ باغ، لودھی کے دور کی تعمیرات، شاہی حمام کو مسمار کردیا گیا۔ تاج محل میں پانی ٹپک رہا ہے۔ اکبر کے مقبرہ میں چار سو سالہ قدیم پینٹنگ خراب کردی گئی۔ ان خبروں کا غیر ملکی سیاحوں پر منفی اثر ہوتا ہے۔ ان وقعات کے درمیان کمار وشواس نے بھی اپنی اصلیت دکھا دی۔ سیف علی خان پر تنقیدکی کہ اپنے بیٹے کا نام تیمور کیوں رکھا جو حملہ آور تھا۔ کمار وشواس نے ویسے ہندو دھرم کے خلاف بھی کچھ کہا ہے؟ بہرحال! آہستہ آہستہ سیکولر چہرے بے نقاب ہوتے جارہے ہیں۔ آئیے اب پریاگ راج کی طرف کہ کمبھ میلے سے متعلق متضاد خبریں ملنے لگی ہیں۔پہلے تو ناصر پٹیل کے نام سے سوشل میڈیا کے ذریعے کمبھ میلے میں دھماکے کی دھمکی سے ہلچل مچی۔ شکر ہے کہ ہمیشہ کی طرح یہ شرپسند غیر مسلم (جیسوال) نکلا۔ اترپردیش پولیس اور تحقیقاتی اداروں کی تعریف کی جانی چاہئے کہ انہوں نے نفرت اور فرقہ واریت کا ماحول پیدا کرنے والی سازش کو بے نقاب کیا۔ اسی دوران اس اندیشے کا اظہار کیا کہ کمبھ میلے کے دوران ہزاروں مسلمانوں کو ہندو بنایا جائے گا اور کمبھ میلہ اوقاف کی زمین پر ہو رہا ہے۔ یہ مسلمانوں کی فراخ دلی ہے جس پر مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے تنقید کرتے ہوئے ماحول بگاڑنے کی کوشش قرار دیا۔ 2025 ء کا کمبھ میلہ مہا کمبھ میلہ ہے۔ جو در اصل144 برس بعد اس نوعیت کا ہو رہا ہے جب 6 سیارے ایک قطار میں ہوں گے۔ اگر کمبھ میلے کے تاریخی پس منظر پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کمبھ سنسکرت کا لفظ ہے۔ جس کے معنی امرت یا آب حیات والے مٹکے کے ہیں۔ ہند و، جین اور بدھسٹ، دیومالائی عقائد کے مطابق کمبھ زر خیزی زندگی انسان کی تخلیقی صلاحیتوں اور گنگا ندی سے متعلق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ ہریش چندر کے دور میں پہلی بار کمبھ میلہ منعقد ہوا تھا۔ جس میں راجہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو انعامات سے نوازہ کرتا تھا جس کاذکر اس دور میں ہندوستان کا دورہ کرنے والے چینی سیاح ہیون سانگ نے اپنے سفر نامے میں کیاہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں سال قبل مسیح سمندر میں جوا ر بھاٹھا آیا تھا تب سمندر کی تہہ سے ایک مٹکا (گھڑا/کلش) سطح سمندر پر ابھر آیا جس میں امرت یا آب حیات تھا اس وقت ہندوکی دیوتاؤں اور بدی کی طاقتوں کے درمیان مقابلہ تھا بدی کی طاقتیں یہ مٹکا جسے کمبھ کہا جاتا ہے چھیننا چاہتی تھی مگر دیوتا اسے لے کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے مگر اس دوران یہ امرت پریاگراج (الہ آباد)، ہری دوار، اجین اور ناسک میں چھلک کر گرا جس کی وجہ سے ان چاروں شہروں یا علاقوں کے ہندو مقدس مانتے ہیں تین تین سال کے وقفہ سے ایک ایک علاقے میں کمبھ میلے کا اہتمام کرتے ہیں۔ پریاگ راج گنگا جمنا سرسوتی دریاؤں کا سنگم ہے۔ ہری دوار گنگا کا کنارہ، ناسک سے گودا وری بہتی ہے اور اجین میں شپرا ندی کا بہاؤہے۔ حالیہ عرسے کے دوران پانچویں مقام مغربی بنگال کے ہگلی کے بانس بہرا تری وینی سنگم پر بھی کمبھ کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ یوں تو کمبھ کی تاریخ بہت قدیم مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا احیاء انگریزوں نے 1857ء میں غدر کے بعد کیا ہے۔ کمبھ میلے میں کروڑوں ہندو خاص طور پر سادھو، ناگا سادھو آچاریہ جمع ہوتے ہیں۔ کمبھ میلے میں 13 اکھاڑے اہم رول ادا کرتے ہیں۔ یہ اکھاڑے سناتن دھرم کے مختلف گروپ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ سادھوؤں کے لئے ان کی روحانیت کا مرکز اور اجتماع گاہ ہیں۔ 13 اکھاڑوں میں سر فہرت آنند اکھاڑہ ہے۔ جس سے ناگا سادھو آچاریہ اور ہندو روحانی پیشوا بابا صاحب یہ ہاتھی اونٹ، گھوڑے اور رتھوں پر سوا ر ہوکر پریاگ راج میں داخل ہوتے ہیں تو یہ کمبھ میلے کے آغاز کی علامت ہے۔ 13 اکھاڑوں میں 3 زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ شیوا اکھاڑہ جو شیوا کے پچاریوں کا ہے۔ وشنو اکھاڑہ وشنو کے پجاریوں کا، اداسین اکھاڑہ جو گرونانک کے تعلیمات پر عمل کرنے والوں کا ہے۔ کمبھ میلے کی سب سے اہم خصوصیت شاہی اسنان یا شاہی غسل ہے یعنی مختلف اہم تاریخوں میں ہندو مذیبی پیشوا عام ہند ؤں سے پہلے گنگا میں ڈبکی لگاکر خود کو گناہوں سے پاک تصور کرتے ہیں۔یہ شاہی اسنان 13 جنوری (پورنیمہ)، 14 جنوری (سنکرانتی)، 29 جنوری (اماوس)، 3 فروری (بسنت پنچمی)، 12 فروری (ماگھی پورنیمہ) اور 26 فروری (شیو راتری) کو ہوں گے۔ بی جے پی حکومت آنے سے پہلے تک کمبھ میلے میں مسلم تاجر بھی مل جل کر کاروبار کیا کرتے تھے۔ اکھیل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد نے میلے کے دوران مسلم ہوٹلس اور ان کی دکانیں لگانے پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے غیر سناتنی یا غیر ہندؤں کو میلے میں داخل نہ ہونے دینے کا اعلان کیا ہے۔ البتہ سکھ، بدھسٹ اور جین مذہب کے ماننے والے اپنی دکانیں یا ہوٹلیں لگا سکتے ہیں۔ اے بی اے پی کے اس اعلان کی صرف مسلمانوں نے ہی مخالف اور مزاحمت کی ہے دوسری جماعتیں مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

اگرچہ کہ کمبھ میلے میں مسلم تاجروں کے داخلے اور مسلمانوں کو ہندو بنانے کے اندیشے تشویشناک ہے۔ تاہم خود مسلمانوں کو اس بات پر غورکرنا چاہئے کہ کیا مشرکانہ تہواروں میں ان کے کاروبار جائز ہوسکتے ہیں۔44 دن کے اس میلے میں اگر مسلمان کاروبار نہ کرسکے تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ بلکہ اسے اللہ کی رحمت سمجھنی چاہئے کہ انہیں اپنی گزر بسر کیلئے غیر اسلامی ماحول میں جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اس دوران ان مسلم تاجروں کو اترپردیش کے امیر طبقے کی جانب سے نقصان کی پابجائی کیلئے مدد کرنی چاہئے۔ اور مسلم تاجروں کو بھی اس بات کا عہد کرنا چاہئے کہ حلال طریقوں سے تجارت کریں گے۔ چاہے اس کے لئے کئی مشکل مراحل سے گزرنا پڑے۔ جہاں تک مسلمانوں کو غیر مسلم بنانے کا تعلق ہے، وہ مسلمان جس میں رتی برابر ایمان ہے وہ تو لاکھ جبرو ستم کے باوجود مذہب تبدیل نہیں کرسکتا۔ غربت اور آل اولاد کی گزر بسر کیلئے اگر کوئی مذہب سے دور ہوتا ہے ان کی غربت اور مجبوری کی وجہ وہ صاحب حیثیت مسلمان ہیں جو اپنے مال کی زکوۃ مستحق اور غریب مسلمانو ں میں تقسیم نہیں کرتے۔ زکوۃ تو فرض ہے اس کے ساتھ عشر یعنی اپنی آمدنی کا 10فیصد حصہ اور صدقات و عطیات سماج کے غریب مسلمانوں کو باعزت زندگی گزرانے کیلئے کافی ہو جاتی ہے دولتمند مسلمان محاسبہ کریں اور غریب مسلمانوں کی مدد کریں۔ اگر مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ فرار ہو رہی ہیں یا علی الاعلان شادی کر رہی ہیں اور پھر عبرتناک انجام سے دو چار ہو رہی ہیں توان واقعات پر واویلا کرنے کے بجائے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم میں اگر دم ہے تو کس میں اتنا دم ہوسکتا ہے کہ وہ ہماری عزتوں کو سر بازار رُسوا کرسکے

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔