مٹھ اور مت(ووٹ )کی سیاست
از: عبدالحمید نعمانی
سماج میں عموما مذہبی شناخت سے وابستہ افراد کا احترام پایا جاتا ہے، ان کے لیے اس کا لحاظ ضروری ہے، لیکن بسا اوقات بہت سے لوگ احترام کا غلط استعمال کر کے اپنی بالا تری اور انا کی تسکین کرتے ہیں، اس کی ایک بڑی مثال و نمونہ، گور کھ ناتھ مٹھ کے مہنت دگ وجے ناتھ(ناہوں سنگھ ) مہنت اویدیا ناتھ(کرپال سنگھ بشٹ )اور یوگی آدتیہ ناتھ(اجے سنگھ بشٹ )ہیں، یہ تینوں ایک ہی ٹھاکر برادری کے ہیں، یہ ایک نئی روایت ہے، ورنہ ہندو سماج کی جاری روایت میں اہم مٹھ، مندر کے پردھان پجاری عموما برہمن ہوتے رہے ہیں، یوگی آدتیہ ناتھ کا خاندانی پس منظر فرقہ وارانہ نفرت کا نہیں ہے لیکن طالب علمی کے زمانے میں آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم، ودیارتھی پریشد کے رابطے میں آنے کے ساتھ فرقہ پرستی سے متاثر ہو کر زہریلے سے زہریلا ہوتے چلے گئے اور گورکھ ناتھ مٹھ سے وابستہ مہنت اویدیا ناتھ کے رابطے میں آنے کے بعد فرقہ پرستی کی رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی ،گزشتہ دنوں میں کئی کتابیں یوگی آدتیہ ناتھ پر شائع ہو کر منظر عام آ چکی ہیں، ان میں سے بڑے حصے کا ہم نے مطالعہ کیا ہے، یوگی جی کے حالات زندگی کے مطالعے سے یہ صاف ہو کر سامنے آتا ہے کہ وہ ماضی سے حال تک فرقہ وارانہ نفرت اور انتقام کے زہر میں ڈوبے ذہن کے ساتھ پروان چڑھے ہیں، ان کے لیے یہ مشکل ہے کہ یوگ، دھرم کا پالن کرتے ہوئے غیر جانبداری اور فرقہ واریت سے اوپر اٹھ کر، انصاف، برابری کے جذبے سے کام کر سکیں، ہمیں حیرت ہے کہ یوگی اور دھرم گرو ہوتے ہوئے بھی ان کو کبھی دھرم، وید، اپنیشد وغیرہ کی روحانی باتیں کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، ان کا گفتار و کردار دونوں گرو گورکھ ناتھ کے فکر و عمل کے خلاف نظر آتے ہیں، اس جہت سے معاملے کو سامنے لا کر مسائل کو سمجھنے کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے ،یوپی میں جس طرح سرکار چلائی جا رہی ہے اور یوگی آدتیہ ناتھ کے طرز خطاب و عمل سے ایسا بالکل نہیں لگتا ہے کہ وہ بلا امتیاز مذہب و فرقہ، تمام مذاہب و فرق کے وزیر اعلی اور غلط جذبے سے اوپر یوگی ہیں، وہ کھلے عام فرقہ پرستی اور جارحانہ ہندوتو کی تائید و تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں، جب کہ گورکھ ناتھ مٹھ اور گرو گورکھ ناتھ کی جو بھی کچی پکی تاریخ ملتی ہے وہ بالکل الگ قسم کی رہی ہے، اس مسئلے کو راقم سطور نے چند دنوں پہلے ،بی جے پی لیڈر پریم شکلا اور وشو ہندو پریشد کے ترجمان وجے شنکر تیواری کے سامنے بھی اٹھایا تھا، لیکن وہ اس پر بحث کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آئے، اس تعلق سے کئی ساری باتیں ہیں، ہندوتو وادی عناصر کے حسب عادت مستند تاریخ نگاری پر توجہ نہ دینے کے سبب کسی بھی ادارے یا شخصیت کے عہد کا صحیح تعین ایک مشکل ترین کام ہے، بس چلن میں رہنے والی روایات و افکار کی روشنی میں حالات و مسائل کا مطالعہ کر کے کچھ کام کے نکات سامنے لائے جا سکتے ہیں۔
گرو گورکھ ناتھ کا نام بھی دیگر عظیم شخصیات کی طرح مسلم سماج میں ہمیشہ احترام کے ساتھ لیا جاتا رہا ہے، کرشن شری واستو جیسے لوگوں کا یہ کہنا سراسر جھوٹ ہے کہ مسلم مولوی ملا رام وغیرہ کو شیطان سمجھتے ہیں، گرو گورکھ ناتھ کا نام بھی مسلمانوں نے ہمیشہ احترام سے لیا ہے، ان کی روایت کے جوگیوں میں مسلم بھی شامل رہے ہیں، کچھ برسوں پہلے تک ایسا سب نے دیکھا ہوگا، ہمارے گاؤں میں ہر سال دس پندرہ جوگیوں کی ایک منڈلی آتی تھی، اس کا ہمارے بڑے ابو عباس رح کے حصے میں بنے بڑے بنگلے میں میں کئی کئی ہفتے قیام رہتا ہے، ان سے ہماری بہت سی باتیں ہوتی تھیں، یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ کہنا پوری طرح بے بنیاد اور ہندو سماج کے ایک حصے میں اشتعال پیدا کرکے اس کو ووٹ بینک کے لیے اپنے ساتھ لانے، رکھنے کے مقصد سے ہے کہ ہمارے مہا پرشوں اور دیوی دیوتاؤں کی توہین کی جاتی ہے اور ان کے لیے غلط الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے، حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ ہندوتو وادی سماج بہ ذات خود اپنے مہا پرشوں اور اپنی قابل پرستش ہستیوں کا مطلوبہ احترام نہیں کرتا ہے، مختلف مواقع پر چند دنوں کی پوجا کے بعد کس بری طرح سے مورتیوں کو، ندی، تالاب، گنگا، جمنا میں پھینک دیا جاتا ہے، کہانیوں میں دیوی دیوتاؤں کو ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، آج کے سائنسی، الیکٹرانک، ڈیجیٹل دور میں ان کو فلما کر، باتوں کو کچھ سے کچھ کر کے پیش کیا جا رہا ہے، اس سے یوٹیوب بھرا ہوا ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ جیسے لوگوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ حالات کس رخ پر جا رہے ہیں، وہ جو کچھ کہہ اور کر رہے ہیں وہ بابا گورکھ ناتھ کے قطعی بر خلاف ہے، ایسا صرف سیاسی مقاصد و تفوق کی خاطر کیا جاتا ہے، گرو گورکھ ناتھ اور ان کے پیروکار جنگل میں، پیڑ کے نیچے دھیان، تپسیا کرتے تھے، ایسا گورکھ پور کی تقریباً تمام تاریخ میں ملتا ہے، آج کے معروف ہندوتو اور مورتی پوجا سے ناتھ پنتھ کا کوئی تعلق نہیں ہے، وہ تانترک طریقوں سے قریب اور ہندو، مسلم طریقہ ریاض و مراقبہ سے کلی مطابقت کے بجائے” تیسرے راستہ ” کے طور پر رائج رہا ہے، کئی سال پہلے جب ہم سوامی اگنی ویش کے ساتھ، مگہر میں کبیر پر منعقد ایک پروگرام میں شریک ہوئے تھے اور گورکھ پور جانا ہوا تھا تو کئی ذی علم و واقف حال لوگوں نے بتایا تھا کہ آج کے برعکس، گرو گورکھ ناتھ کی روایات کچھ اور ہی تھیں، اس سلسلے کے دستیاب لٹریچر میں بھی یہی کچھ ہے، ہزاری پرشاد اور گورکھ پور کی تہذیب و سیاست اور مذہب پر تحقیقی کام کرنے والے ششانت چترویدی نے اس پہلو پر، ضرورت بھر اچھی روشنی ڈالی ہے، انھوں نے اپنی تحقیقی کتاب” دھرم، سنسکرتی اور راجنیتی ” میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ناتھ روایت ،بنیادی طور سے ہندو واد کے مین اسٹریم یا برہمن واد سے بہت الگ تھی، اس کے مراسم تانترک والے تھے، حالاں کہ اس کا درشن(فلسفہ ) جیسا کہ گورکھ بانی میں ظاہر کیا گیا ہے، نرگن بھگتی، نراکار( بلا تجسیم ) ،اور کبیر، سکھ روایت کے مطابق ہے، گرنتھوں کے تحت کچھ جگہوں پر گورکھ ناتھ روایت ،فلسفیانہ طرز فکر، ہندو مسلم حد سے پرے جاتی ہے، وہ یوگی کے ایک تیسرے اقتدار ہونے کا دعوٰی کرتی ہے ایک دوہے میں کہا گیا ہے کہ میں پیدائش سے ایک ہندو، پختہ عمر میں ایک یوگی اور ذہن سے ایک مسلم ہوں، دوسرے لفظوں میں ناتھ روایت، ہندو مسلم کی ایک مشترکہ، عہد وسطی کی مورتی پوجا سے خالی، گرو مرتکز، مذہبیت کا حصہ تھی، اس کے برعکس 1930 کی دہائی میں مسلسل بدلتی صورت کے تشکیلی عمل کے ذریعے، ہندو واد اور اسلام کے درمیان، ایک درمیانی مفاہمت پر مبنی راہ کو مسترد کرتے ہوئے گورکشا ناتھ مندر، ایک طاقت ور ہندو دعوے کی علامت بن گئی ہے، جہاں پہلے صرف یوگیوں کے قدم کے نشانات ہی ایک عام طبقے کی پوجا، اصل چیز ہوا کرتے تھے، وہیں اب ہندو بھگوان، جیسے، درگا، کالی اور ہنومان نے جگہ لے لی ہے، (دیکھیں کتاب کا صفحہ 88/89 ،مطبوعہ سیتو پرکاشن، نوئیڈآ، اشاعت اول 2023)
یہ ایک منصوبہ بند عمل تھا، گرو گورکھ ناتھ مٹھ کی اصل روایت کو ختم کر کے برہمن واد اور ہندوتو ضم و تحلیل کرنے کے ساتھ، اپنے تفوق اور فرقہ وارانہ تقسیم کے تحت، مٹھ کا مت(ووٹ ) کے لیے استعمال کا، دگ وجے ناتھ نے ایک خاص فرقہ وارانہ سوچ کے تحت اپنی بالا تری کی خاطر، گورکھ ناتھ مٹھ کو سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے زینہ بنایا، اسی سلسلے کی کڑی یوگی آدتیہ ناتھ ہیں، ابتدائی ایام سے بعد کے دنوں کے بدلتے سیاسی، مذہبی و تہذیبی منظر نامے کو دیکھنے سے بہت سی باتوں کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے، برہمن واد نے ملک کی بہت سی تحریکات مثلا، بدھ مت اوراس کے پیروکاروں کو مختلف ترکیبوں، طریقوں سے جس طرح ختم یا تبدیل کر دیا، وہ کسی واقف حال سے مخفی نہیں ہے یہی کچھ قریب قریب ناتھ پنتھ کی اصل فکر و روایت کے ساتھ بھی کیا گیا ہے، ایک طویل عرصے سے اسلام اور مسلمانوں کو برہمن واد میں تحلیل و انضمام کی مختلف سطحوں پر کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن ان میں مطلوبہ کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے، مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والوں میں تشویش و غصہ ہے، حتی کہ رام دھاری سنگھ دنکر تک اپنی کتاب "بھارتیہ ایکتا، راشٹریہ ایکتا "میں کہتے ہیں کہ ملک میں مسلمان، اس لیے مسئلہ ہے کہ ہندو سماج اسے پچا(ہضم ) نہیں سکا، اس طرح سوچنے والوں کی ایک تعداد ہے، اس سلسلے کے کئی سارے حوالے راقم سطور کی کتاب، سنگھ بانی، ڈاکٹر ہیڈ گیوار، حیات و تحریک، میں ہیں، ہر سماج میں تہذیبی و فکری لین دین کے تحت مختلف مذاہب والے ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی کچھ باتوں کو اپنا لیتے ہیں، ناتھ پنتھ بھی اسلام کی تعلیمات اور مختلف صوفیاء مکاتب فکر کے کچھ مراسم و روایات سے متاثر ہوا، جس طرح کہ مختلف بھگتی تحریکات کے علاوہ ناتھ پنتھ کی بھی کچھ باتوں سے مسلم سماج کے کئی تصوفانہ مکاتب فکر والے اور عام مسلمان بھی متاثر ہوئے، اس سلسلے کے کئی سارے حوالے، ڈاکٹر تارا چند کی کتاب” اسلام کا ہندستانی تہذیب پر اثر” اور ڈاکٹر محمد عمر کی کتاب "ہندستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر "میں ہیں، اگر دنکر کی کتاب، سنسکرتی کے چار ادھیائے کو شامل کر لیا جائے تو اور بھی کئی باتیں سامنے آتی ہیں تاہم اثرات پذیری کا یہ عمل بالکل الگ نوعیت کا ہے، اس سے سماج میں نفرت انگیز فرقہ وارانہ تصادم پیدا نہیں ہوتا ہے، لیکن 1930 کی دہائی میں گورکھ ناتھ مٹھ کو دگ وجے ناتھ نے کچھ مخصوص سیاسی و سماجی مقاصد کے تحت ایک الگ قسم کے فرقہ وارانہ تصادم کی راہ پر ڈال دیا، اسے انتہا تک پہنچانے کا کام مہنت اویدیا ناتھ اور یوگی آدتیہ ناتھ نے کیا ہے، یہ مٹھ، مندر کا مت(ووٹ ) کے لیے انتہائی غلط استعمال ہے، اس پر روک لگانا موجودہ حالات میں کوئی آسان نہیں رہ گیا ہے،