مولانا طارق جمیل کا حالیہ قضیہ

✍ سید احمد اُنیس ندوی

اِدھر چند دنوں سے تبلیغی جماعت میں بعض شخصیات کے بیانات روکنے کی خبریں عام ہو رہی ہیں۔
آج حضرت مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم کے متعدد صوتی پیغامات سنے، اور پھر ان کے فرزند مولانا یوسف جمیل کا تفصیلی ویڈیو نظر سے گزرا۔ گزشتہ دنوں مانسہرہ کے اجتماع میں مولانا کی شمولیت اور ان کا بیان روکنے کے لیے جو حرکتیں کی گئیں وہ سب تاریخی تسلسل کے ساتھ تفصیل سے معلوم ہوئیں۔
پہلے کچھ اصولی باتیں سمجھ لیجیے۔
جماعت تبلیغ کے متعدد مقتدمین و متاخرین اکابر و اصاغر پر یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ صلاحیتوں کے قدردان نہیں ہوتے۔ یہ محض الزامات نہیں ہیں بلکہ بہت سے معتبر اہل علم و مشائخ انہی سب وجوہات کی بنا پر جماعت کے کام سے متنفر ہوتے گۓ۔ بعض نے خاموشی سے علیحدگی اختیار کی اور بعض نے حقائق لکھ دیے۔ واقعہ یہ ہے کہ جماعت تبلیغ کے غیر تربیت یافتہ امراء و زعماء نے علم اور اہل علم کی خوب ناقدری کی، ان کی صلاحیتوں کا مثبت استعمال نہیں ہونے دیا۔
اگر آپ کو جماعت تبلیغ میں کچھ کام کرنا ہے تو پھر آپ اپنی پوری فکر کو بالاے طاق رکھ کر ان کے نظریہ اور افعال میں پوری طرح ضم ہو جائیے تب تو ٹھیک ! ورنہ آپ کا علم و تفقہ، بصیرت و خشیت سب نظر انداز کر دیے جائیں گے۔
کام سے ربط رکھنے والے علماء و مشائخ کو بھی نظر انداز کرنے کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ غیر تربیت یافتہ، علم و بصیرت سے محروم افراد کے آگے آنے سے نوبت یہاں تک پہنچی کہ خود اس محنت میں پورے اصولوں کے ساتھ چالیس پچاس سال قربانی دینے والے پرانوں کو بھی محض بہتان اور الزام کی بنیاد پر نظر انداز کرنے کی کوششیں ہر علاقے میں شروع ہو گئیں۔
جہاں تک حضرت مولانا طارق جمیل صاحب مدظلہ کے حالیہ قضیہ کا تعلق ہے, تو مولانا کے صوتی پیغامات سے آپ چالیس سال کا درد محسوس کر سکتے ہیں۔ مولانا تو صبر و اخلاق کا پیکر ہیں، لیکن بہرحال انسان ہیں۔ بڑے سے بڑا حلیم و بردبار بھی کسی خاص موقع پر بہہ پڑتا ہے۔ ایسے میں جو اس پوری تاریخ کو نظر انداز کر کے صرف اس ایک واقعہ سے نتیجہ نکالے گا وہ یقینی طور پر غلط نتیجہ اخذ کرے گا۔
اس قضیہ کے پیچھے دوسری اہم وجہ سیاسی علماء کی طرف سے سامنے آنے والا وہ دباؤ بھی ہے جو مولانا کی شخصیت کے ساتھ گزشتہ چند سالوں سے مستقل وابستہ ہے۔
ویسے یہ سارے فتنہ پرور مل کر تنہا مولانا کی شخصیت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ رہی بات تحریک کی تو اس کی باقی ماندہ رمق عام مخلصین کی برکت سے ہے۔ اس جوڑ توڑ کی سیاسی دینی محنت سے نہ تو اخلاص باقی رہتا ہے اور نہ نصرت الہی اس کے ساتھ ہوتی ہے۔
صف اول کی اکثریت جب اس مزاج کے ساتھ کام کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے تو اب یہی سب اثرات کام کرنے والوں میں شہر شہر داخل ہو رہے ہیں۔ اپنی اپنی سطح پر ایک سے بڑھ کر ایک بازی گر موجود ہیں۔ لکھنؤ مرکز بھی اس ہفتے اسی قسم کی سطحی ڈرامے بازی دیکھ چکا ہے۔
دوسروں کی صلاحیت, مقبولیت اور نیک نامی سے حسد, کینہ اور بغض انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ ان رذائل سے گھرا ہوا انسان دنیا سے آخرت تک ذلیل و رسوا ہوتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو ان شرور و فتن سے محفوظ رکھے۔ آمین

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔