بدلتا سعودی عرب …. کس حد تک !!

بدلتا سعودی عرب …. کس حد تک !!

از:- ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

سعودی عرب تیزی سے بدلتا جارہا ہے، اسے پرنس محمد بن سلمان عصری سانچوں میں ڈھالنے کے لئے ممکنہ کوششیں کر رہے ہیں۔ ویژن 2030ء کے تحت وہ اس ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک کی پہلی صف میں لا کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورے اور اہم باہمی معاہدات کے بعد سعودی عرب کو بین الاقوامی میڈیا نے غیر معمولی اہمیت دی، ساتھ ہی ایک قدامت پسند اپنی دیرینہ روایات کو برسوں سے سینے سے لگائے ہوئے اس ملک کی آزاد اور روشن خیال مملکت میں تبدیلی کی پیشن گوئیاں کی ہیں جس کے بعد وہ لوگ جن کے دلوں میں حرمین شریفین اور نبی آخر لزماں ؐ کی سرزمین کی وجہ سے غیر معمولی قدر و منزلت اور عقیدت ہے ان میں کسی قدر بے چینی پیدا ہوئی ہے۔خاص طور پر اس خبر نے کہ سعودی عرب نے 2026ء سے شراب کی فروخت پر پابندی ختم کردی جائے گی۔ ایک قسم کی تشویش پیدا کردی ہے۔ اگرچہ کہ یہ بات یقینی ہے کہ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کی سرزمین پر شراب کی فروخت نہیں ہوگی تاہم حالیہ عرصے کے دوران مدینہ منورہ میں غیر مسلم مرد و خواتین کی آمد و رفت شروع ہوچکی ہے تو اس اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ان مقدس مقامات کی حامل سرزمین پر بھی چوری چھپے حرام مشروبات استعمال کی جاسکتی ہیں۔ ویژن 2030ء کو مد نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب نے بہت ساری سماجی تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں۔ اب یہ G-20میں شامل ایک ایسا ملک بن گیا ہے کہ جہاں مختلف ممالک کی خواتین تنہا سفر بھی کرسکتی ہیں اور قیام بھی بلکہ غیر ملکی، غیر شادی شدہ جوڑے بھی سعودی ہوٹلوں میں قیام کرسکتے ہیں۔ خواتین کی آزادی اور 70 سال بعد الکحل پر پابندی کا مقصد سیاحت کو فروغ دینا ہے۔ اور اب تک سعودی عرب کی معیشت کا انحصار تیل پر تھا جیسے جیسے دنیا میں تیل کی کھپت کم ہونے لگی ہے ویسے ویسے سعودی عرب نے خود کو دنیا کے ساتھ ہم قدم رکھنے کے لئے اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ اس کی معیشت کا دار و مدار تیل کے ساتھ ساتھ سیاحت پر ہو۔ یوں تو عمرہ زائرین اور عازمین حج سعودی عرب میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ محمدبن سلمان نے 2024ء میں 11.3ملین عمرہ زائرین کا ٹارگیٹ رکھا تھا اور اس سال 16.92 ملین زائرین نے عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ اس وقت حج اور عمرہ زائرین سے 150 بلین ڈالر سعودی خزانہ میں جمع ہوتے ہیں۔ محمد بن سلمان اگلے سات برس میں اسے 350 بلین ڈالرس تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ صرف حج سے ہر سال 12 بلین ڈالر حاصل ہوتے ہیں جو اس کی جملہ آمدنی کا 20 فیصد ہے۔ حج اور عمرہ کے علاوہ اب سیاحت، اسپورٹس، انٹرٹینمنٹ کے ذریعہ آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا۔ چنانچہ 2030ء تک تین اہم سیاحی پروجیکٹ نیوم سٹی، Qiddia پروجیکٹ اور ریڈ سی نیوم سٹی پروجیکٹ پر 500 بلین ڈالر سے 8.8ٹریلین ڈالر کے مصارف ہوں گے۔ صرف پہلے مرحلہ پر 370 بلین ڈالرس خرچ ہو رہے ہیں، پہلا مرحلہ 2030 ء پر مکمل ہوگا، نیوم پروجیکٹ جو دراصل 170 کلو میٹر طویل پٹی پر تعمیر کیاگیا شہر ہے جو 2080 تک مکمل ہو سکتا ہے۔اس شہر میں شیشہ کی بنی فلک بوش عمارتیں، آرٹیفیشل اسکائی رزورٹ اور پانی میں ہلکورے لطاوا فیناشیل ڈسٹرکٹ شامل ہے۔ اس پروجیکٹ کے تشہیر اور اس میں سرمایہ کاری کے لئے اکتوبر 2024ء میں سندھلا میں جو ایک ساحلی رزورٹ ہے، شاندار پروگرام کا اہتما م کیا گیا جس میں Will smith اور Tom Brady نے حصہ لیا تھا۔ اس پروگرام پر 45 ملین ڈالرس کے مصارف ہوئے تھے۔اسی طرح خدیہ دار الحکومت ریاض میں ایک انٹر ٹینمٹ اور ٹورزم پروجیکٹ ہے۔ اقوا عربیہ واٹر پارک، فارملہ ون، ریسٹریک 2027 تک مکمل ہو جائے گا جس پر 10 بلین ڈالرس کے مصارف ہوں گے۔ یہ ساری دنیامیں سب سے بڑا سیاحت کا مرکز ہوگا۔جس میں توقع ہے کہ سالانہ 17 ملین سیاح آئیں گے۔ اس پروجیکٹ سے 3,25000 افراد کو روزگار ملے گا۔ عرب نیوز کے مطابق یونیورسٹی آف سنٹرل فلوریڈا سعودی نوجوانوں کو سیاحت، میزبانی اور اسپورٹس مینجمنٹ میں تربیت کی ٹریننگ دے رہی ہے۔ Six Flags Qiddia میں دنیا کا سب سے بڑا ڈراگن بال تھیم پارک بھی ہے جو 70 فٹ بلند Shenron ہے۔ ڈراگن اژد ہے‘یا اڑنے والے جانور کو کہتے ہیں جو اپنے منھ سے آگ نکالتا ہے اور چینی دیومالائی کاریوں میں Shenron کا ذکر اژدھے کے دیوتا کے طور پر ملتا ہے۔

ان پروجیکٹس پر محمد بن سلمان نے کافی محنت کی اور محنت کر رہے ہیں اس سے ہٹ کر وہ سعودی عرب کو طاقتور ترین ملک بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتے چنانچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورے کے موقع پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان 142بلین ڈالرس کا ڈیفینس ایگریمنٹ کیا گیا۔ امریکہ نے فضاء سے فضاء میں نشانہ لگانے والے 1 ہزار Aim 12c – 8 میزائلس اور گائیڈنس میزائل سسٹم فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ 3.3 بلین ڈالرس کی مالیت کے ہوں گے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ سعودی عرب کی سرمایہ کاری 1 ٹریلین ڈالر ہو۔ سعودی ولیعہد نے اپنے ملک کو ہر شعبہ حیات میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ اس کی معیشت کو مستقل بنانے کے لئے سب سے پہلے بیروزگاری کے خاتمہ، دیسی ساختہ اشیاء کا استعمال اور فوج میں زیادہ سے زیادہ سعودی جوانوں کی بھرتی پر توجہ دی ہے۔ تعلیمی شعبہ میں نمایہ ترقی ہوئی ہے چنانچہ کنگ سعود یونیورسٹی دنیا کے ٹاپ 90 یونیورسٹی میں شامل ہے۔ 7 سعودی ہاسپٹلس دنیا کے ٹاپ 250 ہاسپٹلس میں شامل ہیں، اور میڈیکل ٹیکنالوجی کی بدولت کنگ فیصل ہاسپٹل دنیا کا بہترین ہاسپٹل قرار پایا ہے۔ اسپورٹس کے شعبہ کو ترجیح دی جارہی ہے۔ اس وقت 128 اسپورٹس کلبس اور 97 فیڈریشن ہیں، 2034ء میں FIFA ولڈ کپ فٹ بال کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوگا۔ اس سے پہلے قطر کو یہ اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔

بنجر زمین کو سرسبز و شاداب اور قابل کاشت بنانے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے جو ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ٹرمپ کے دورہ اور ان کے غیرمعمولی استقبال اور کئی بلین ڈالرس کے معاہدات پر کئی کوشوں سے تنقید کی گئی کہ بھوک سے بلکتے، اسرائیلی حملوں سے تڑپتے، سسکتے فلسطینیوں پرسعودی عرب توجہ نہیں دے رہا اگر وہ چاہے تو بین الاقوامی طاقتوں پر دباؤ ڈال کر اسرائیلی حملوں کو رکوا سکتا ہے۔ ان تنقیدوں کے بیچ محمد بن سلمان نے شام کے عبوری صدر کی ٹرمپ سے ملاقات کروائی اور ٹرمپ نے شام پر عائد پابندیوں کو ختم کردیا۔ سعودی عرب اور قطر نے مل کر شام کا تمام بین الاقوامی قرض اداکردیا۔ سعودی عرب اپنے ہم سایہ ممالک سے یقینی طور پر خطرہ لاحق ہے۔ ایران اور یمن سے اگرچہ کہ دشمنی کا سلسلہ جاری ہے تاہم خفیہ طور پر مصالحت کے لئے کوششیں بھی جاری ہیں۔ چنانچہ ایران اور سعودی عرب معاہدہ اس سلسلہ کی کڑی سمجھا جاتا ہے۔ چین اور ایران نے ایک 25 سالہ معاہدہ کے تحت ایران نے چینی سرمایہ کاری سے اتفاق کیا ہے اور ایران‘ چین کو رعایتی قیمت پر تیل اورگیس فراہم کرے گا۔ یاد رہے کہ! سعودی عرب اس معاہدہ کا اہم فریق ہے۔ سعودی اورایران کے درمیان 2024 ء چین کی ثالثی سے بیجنگ میں ایک معاہدہ طے پایا گیا تھا جس میں سفارتی تعلقات کی بحالی پر سلامتی کو یقینی بنانے کا باہمی تعاون سے اتفاق کیا گیا تھا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران نے 14 ملین ڈالرس کا اسٹیل سعودی عرب کو ایکسپورٹ کیاتھا۔اور اس نے سعودی عرب کے خلاف حوثی باغیوں کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی نہ کرنے کا بھی تیقن دیا تھا۔ سعودی عرب کو اگر ایران سے خطرات میں کمی ہوجاتی ہے تو اس کی ترقی یافتہ میں مزید تیزی آسکتی ہے۔
بہرحال! ہر محاذ پر سعودی عرب نے خودکو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کی ترقی کو ہر مسلمان یقینی طور پر مسرور ہے البتہ روشن خیالی اور ترقی پسندی کے نام پر سعودی سرزمین کے تقدس کی پامالی اسے کسی بھی قیمت پر گوارہ نہیں۔

عرب نیوز۔ وکی پیڈیا سے مدد

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔