عبادات رسم تو پہلے ہی بن گئیں تھیں اب تفریح کا سامان بھی بن گئی ہیں

حج یا پکنک

عبادات رسم تو پہلے ہی بن گئیں تھیں اب تفریح کا سامان بھی بن گئی ہیں

از:- عبدالغفارصدیقی

مومن کی پوری زندگی عبادت ہے۔ بشرط یہ کہ وہ احکامات الٰہی کے مطابق ہو۔امت میں دین کے صحیح تصور سے ناواقفیت کے سبب عبادت کا مفہوم بد ل گیا ہے۔موجودہ دور میں بیشتر مسلمان صرف چند افعال و اعمال کو ہی عبادت کہتے اور سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک نماز پڑھنا،قرآن کی تلاوت کرنا یعنی بغیر سمجھے پڑھنا،ذکر کرنا،ماہ مبارک میں روزے رکھنا،زکوٰۃ دینااور حج کرنا وغیرہ ہی عبادت ہیں۔تجارت کرنا،رزق حلال کمانا،جدید علوم حاصل کرنا،اہل و عیال کے حقوق ادا کرنا،کسی بیمار کی عیادت کرنا،قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے وقت لگانا وغیرہ اچھے کام تو ہیں لیکن ان کے نزدیک عبادات میں شامل نہیں ہیں۔

کلمہ شہادت کا اقرار کرکے ایک انسان خود کو اللہ کے حوالہ کردیتا ہے۔یہ کلمہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک معاہدہ بیع ہے۔جس کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے:۔”اور ہم نے مومن کی جان اور اس کا مال جنت کے بدلہ خرید لیا ہے۔“(سورہ توبہ آیت111)اس معاہدے کی رو سے ایک مومن کا اختیار جان اور مال دونوں پر سے ختم ہوجاتا ہے اور وہ پابند ہوتا ہے کہ ان کا استعمال اس مالک کی مرضی کے مطابق کرے،جو انھیں جنت کے بدلہ خرید چکا ہے کیوں اصلاً اب وہی ان کا حقیقی مالک ہے۔
امت جن کو عبادات میں شمار کرتی ہے ان کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب صرف رسم و رواج بن کر رہ گئی ہیں۔ان میں سے عبادت کی روح نکل چکی ہے۔کچھ الفاظ ہیں،جنھیں طوطوں کی طرح ہم دہراتے ہیں،اور کچھ افعال ہیں جنھیں ہم جانے ان جانے کرتے ہیں۔ہماری نمازیں کھیل اور تماشہ بن گئی ہیں۔الفاظ کے معانی و مفہوم کی بات تو دور ہے،خود قیام،رکوع اور سجود کی ادائیگی کی صحت بھی مشکوک ہے۔کچھ لوگ ہیں جو بغیر لب ہلائے سب کچھ پڑھ لیتے ہیں،اکثر لوگوں کی رفتار تلاوت خدا جانے کس قدر تیز ہے کہ ابھی کھڑے ہوئے اور پلک جھپکتے ہی سجدے میں پہنچ گئے۔اطمینان و سکون کی کوئی جھلک دیکھنے کو نہیں ملتی۔ایسامعلوم ہوتا ہے کہ چولہے پر ہانڈی چڑھا کر آئے ہیں۔یہی حال دوسری عبادات کا بھی ہے۔ان عبادات میں ایک عبادت حج ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے مستطیع بندوں پر حج کیوں فرض کیا تھا؟حج ہمارے اندر کیا تبدیلی پیدا کرتا ہے؟حج کے دوران انٹر نیشنل اجتماع (قیام عرفہ) کی مصلحت کیا ہے؟اس میں جو خطبہ دیا جاتا ہے اس کا مواد (content ) کیا ہونا چاہئے؟حج میں احرام کی غایت و مصلحت کیا ہے؟یہ لبیک لبیک کی صدا کیوں لگائی جارہی ہے؟سعی کی زحمت کیوں اٹھائی جارہی ہے؟یہ وہ سوالات ہیں۔جن پر شاید ہی کہیں گفتگو ہوتی ہو۔ذی قعدہ کا مہینہ شروع ہوتے ہی،مساجد میں فضائل اعمال سے فضائل حج کے حصہ کی خواندگی شروع کردی جاتی ہے۔جس میں حج کے نام پر فرضی واقعات اور موضوع احادیث کا انبار ہے۔؟بعض ملی و دینی جماعتوں کی جانب سے حج کیمپ لگائے جاتے ہیں،اس میں بھی صرف ارکان حج کی ادائیگی کی تعلیم پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔حجاج کو دی جانے والی حج گائڈ میں بھی ان سوالوں کے جوابات ندارد ہوتے ہیں۔مقدسات حج کے فضائل اور تبرکات اس طرح بیان کیے جاتے ہیں کہ حج پر جانے والوں کے ذہن تک میں یہ سوالات پیدا نہیں ہوتے۔جن لوگوں کے پاس وہ لٹریچر ہے جن میں ان سوالات کے جوابات ہیں وہ بھی خاموش تماشائی ہیں،یا لٹریچر کو خوب صورت الماریوں میں بند کرکے بیٹھے ہیں۔
حج بین الاقوامی اخوت کا داعی اور امت مسلمہ کے عالمی اتحاد کا مظہر ہے۔ایک امام کے پیچھے مختلف مسالک کے لوگوں کا نماز پڑھنا ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ فروعی اختلافات کے باوجود ہم بھائی بھائی ہیں،لبیک لبیک کی صدائیں اور سفید احرام ہمیں رنگ،زبان،ملک اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود سارے مسلمانوں کوہم زبان و ہم رنگ بنادیتا ہے۔ایک ساتھ ارکان حج کی ادائیگی نقش دوئی کے ہر شائبہ کو ختم کردیتی ہے۔حج بتاتا ہے کہ ہم سب ایک ہیں،ہمارا دین ایک ہے،ہمارا مرکز و محور ایک ہے۔ہماری زبان ایک ہے اور ہمارے سوچنے کا دھارا بھی ایک ہے،ہم دنیا کے کونے کونے سے آئے ضرور ہیں مگر ہماری منزل ایک ہے۔دوران حج براہیمی آثار کا دیدار نمرودی قوتوں کے مقابلہ ہمیں حوصلہ و ہمت عطا کرتا ہے۔غار حرا کی روشنی شرار بولہبی سے ٹکرانے کی طاقت عطا کرتی ہے۔یہ تو میں نے صرف چند فوائد کی طرف اشارہ کیا ہے،ورنہ حج کے سفر کے بے شمار فائدے ہیں۔بقول مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ:
”کسی تحریک کے ہزاروں لاکھوں ممبر ہر سال دنیا کے ہر حصے سے کھچ کر ایک جگہ جمع ہوں اور پھر اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں۔ ملک ملک اور شہر شہر سے گزرتے ہوئے اپنی پاکیزہ زندگی، پاکیزہ خیالات اور پاکیزہ اخلاق کا اظہار کرتے جائیں، جہاں جہاں ٹھیریں اور جہاں گزریں وہاں اپنی تحریک کے اصولوں کا نہ صرف زبان سے پرچار کریں، بلکہ اپنی عملی زندگی سے ان کا پورا پورا مظاہرہ بھی کردیں اور یہ سلسلہ دس بیس برس نہیں، بلکہ صدیوں تک سال بہ سال چلتا رہے۔۔۔۔۔۔ بھلا غور تو کیجیے کہ یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی کہ اس کے فائدے پوچھنے کی کسی کو ضرورت پیش آتی؟ خدا کی قسم، اگر یہ کام صحیح طریقے پر ہوتا تو اندھے اس کے فائدے دیکھتے اور بہرے اس کے فائدے سن لیتے۔ ہر سال کا حج کروڑوں مسلمانوں کو نیک بناتا، ہزاروں غیر مسلموں کو اسلام کے دائرے میں کھینچ لاتا، اور لاکھوں غیر مسلموں کے دلوں پر اسلام کی بزرگی کا سکہ بٹھادیتا۔ مگر برا ہو جہالت کا، جاہلوں کے ہاتھ پڑ کر کتنی بیش قیمت چیز کسی بری طرح ضائع ہورہی ہے۔“(خطبات حج)
مگر آج کل جو لوگ حج کو جارہے ہیں، ان میں سے بیشتر لوگ مقاصد حج سے ناواقف ہیں۔زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی حج پر جارہے ہیں،کچھ اس لیے بھی جارہے ہیں کہ ان کے ماضی کے گناہ ختم ہوجائیں اورکچھ اس لیے بھی جارہے ہیں کہ گناہوں سے پاک ہوکر مزید گناہ کرنے کے مواقع میسر آجائیں،جس طرح ان باکس(INBOX) کے بھر جانے پر ہم اسے خالی کردیتے ہیں،شاید اسی طرح حج کرنے کے بعد گناہوں کا ان باکس خالی ہوجاتا ہے۔چونکہ آپ اصل مقصد سے غافل ہیں اس لیے کعبہ میں موجود رہ کر بھی اللہ تعالیٰ کے جاہ و جلال کا کوئی اثر آپ پر نہیں ہے،احرام پہن کر بھی آپ کو اپنے عاجز وکمزور ہونے کا اندازہ نہیں،طواف کعبہ کے بعد بھی آپ پر خدا کی محبت غالب نہیں آتی،اگر ایسا ہی ہے تو آپ نے سفر کی زحمتیں کیوں برداشت کی ہیں،کیوں ایک خطیر رقم ضائع کی ہے؟
میں دیکھتا ہوں کہ حجاج کرام کی ایک بڑی تعداد موبائل سے ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کررہی ہے،ریلیں بنائی جارہی ہیں،ان پر لائک اور کمنٹ سمیٹے جارہے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ وہ حج پر نہیں گئے ہیں بلکہ پکنک پر گئے ہیں۔وہ سوشل میڈیا پر ہر روز نئی تصویر ڈال کر چاہتے ہیں کہ لوگ تعریف کریں،لوگ جان لیں کہ وہ حج کررہے ہیں،واپسی پر لوگ ان کو حاجی کے نام سے پکارنے لگیں۔شاید ان کو اللہ تعالیٰ کے کیمروں پر یقین نہیں،شاید ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس عمل خیر سے آگاہ ہو۔دنیا میں شہرت کی طلب اور احباب سے دادو تحسین کی خواہش ان کو اجرو ثواب سے محروم کرنے کے کافی ہے۔ ان کے چہرے کی بشاشت اور مسکراہٹ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ وہ کعبۃ اللہ کے تقدس اور مقام سے ناواقف ہیں۔وہ اپنی تاریخ سے بھی واقف نہیں ہیں،ان کو موجودہ حالات کی حساسیت کا بھی کوئی ادراک نہیں۔اگر وہ ان باتوں کا علم رکھتے تو اتنی فرصت کہاں ملتی کہ ریلیں بنابناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے اور ہر کمنٹ کا جواب دیتے۔اگر اپنے گناہ گار ہونے کا ذرا سا بھی شعور ہوتا تو ان کی آنکھیں اشک ندامت بہاتے بہاتے سرخ ہوگئی ہوتیں۔ان کواللہ سے محبت ہوتی تو یار دوست ہی نہیں،گھر بار اور اہل و عیال تک کو بھول جاتے۔جن علائق دنیا کو چھوڑ کر فقیرانہ لباس میں وہ فرمانروائے کائنات کی بارگاہ میں گئے ہیں،اگر ان کو اندازہ ہوتا کہ وہاں سے کیا کیا بیش قیمت نعمتیں میسر آنے والی ہیں تو وہ خدا کی قسم کھانا،پینا،سونا،جاگنا تک بھول جاتے۔
میرے عزیزو!آپ خوش نصیب کہ بیت اللہ میں موجود ہیں۔آپ کے لیے موقع ہے کہ اپنے رب کو راضی کرکے اپنے لیے بدی راحتیں سمیٹ لیں،ایک ایک لمحہ آپ کا قیمتی ہے،اپنے وقت کا صحیح استعمال کیجیے۔زیادہ تر وقت اللہ کی ذات اور اس کی صفات پر غور وفکر میں صرف کیجیے،اس کے مقام و منصب کو پہچانئے،اللہ سے اپنے تعلق کا جائزہ لیجیے،اس کو مستحکم اور پائدار کیجیے۔لذیذ کھانے تو آپ کو اپنے گھر بھی میسر تھے،وہاں آپ لذت و کام و دہن کی فکر نہ کیجیے،آپ کے پاس وقت کم ہے،چالیس دن کے اس سفر میں ہر اس شئی کو بھول جائیے جو اللہ کی یاد سے آپ کو غافل کردے۔موبائل کا استعمال ہنگامی حالات میں کیجیے۔روزانہ گھر والوں سے بات کرکے نہ آپ کو اجنبیت اور مسافرت کا احساس ہوگا نہ اہل خانہ کو آپ کی عدم موجودگی کا۔حج کو عبادت ہی رہنے دیجیے۔اس کو سیروتفریح اور پکنک نہ بنائیے۔مکہ و مدینہ کی ہر گلی سے اسلام کی تاریخ وابستہ ہے،کہیں آل یاسر کی چینخیں ہیں،کہیں بلال حبشی کی احد احد ہے،کہیں منافقین کی سازشیں ہیں،کہیں مشرکین سے نبردآزمائی ہے،کہیں بدرو احد کا غبار ہے، کہیں صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کا نور ہے۔قدم قدم پر باطل اور کفر سے کشمکش ہے۔آپ کے اپنے ملک میں بھی یہی کچھ حالات ہیں۔آپ وہاں سامان کی خریداری کرنے نہیں گئے ہیں کہ پنا بیشتر وقت بازار میں لگارہے ہیں،ہر قیمتی سامان آپ کے اپنے ملک میں دستیاب ہے۔آپ وہاں اس لیے گئے ہیں کہ اپنے ایمان میں وہ قوت و طاقت پیدا کریں جو واپس آکر اپنے ملک اور معاشرہ میں،شیطانی قوتوں سے مقابلہ کے لیے ضروری ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔