از:- ذکی نور عظیم ندوی- لکھنؤ
یقیناً آج کا دن نہایت عظمت و برکت کا دن ہے۔ وہ دن ہے جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ "الحج عرفۃ” کہ یوم عرفہ حج ہے”۔ آج دنیا بھر سے آئے ہوئے لاکھوں خوش نصیب اللہ کے بندے میدانِ عرفات میں اپنے رب کے سامنے گڑگڑائیں گے، اشکبار آنکھوں سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب گے، دلوں میں توبہ کی حرارت، اور زبانوں پر ذکر و دعا کا تسلسل ہوگا۔
اس مناسبت سے سنت نبوی کی پیروی میں مسجدِ نمرہ میں حج کا خطبہ اس عظیم عبادت کے موقع پر امت کے اتحاد کا اعلان اور اسلام کا پیغام سنانے کا ذریعہ بنے گا، جو ان شاءاللہ نہ صرف حجاج بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے رہنمائی، بصیرت، اور ایمانی قوت کا ذریعہ بنتا ہے۔
لیکن افسوس، کہ ایسے مبارک موقع پر بھی کچھ دل کے اندھے، فتنہ پرور اور ذہنی مریض، اس عظیم اجتماع کی روح کو مجروح کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں اخلاص کی روشنی اور دلوں میں امت کی خیرخواہی کے جذبہ کے بجائے یہ فکر رہتی ہے کہ وہ اسلام، مسلمانوں یا کسی خیر کے علمبردار پر کیسے کیچڑ اچھالیں۔ جن کی زندگی کا محور تنقید برائے تنقید ہے، نہ کہ اصلاح، فہم، یا خیر خواہی۔
وہ بد نصیب و بدخواہ خطبۂ حج کو سننے کے بعد اس کے روحانی پیغام، ایمانی حرارت اور عالمگیر وحدت کے تاثر سے متاثر ہونے کے بجائے، خطبہ کے پہلے ہی اس فراق میں لگ گئے ہیں کہ اس میں کوئی خامی کمی یا کوئی اور منفی بات تلاش کر کے اسے سازش، مسلم مسائل سے بے اعتنائی، اور فکر اسلامی کے سراسر خلاف قرار دے کر ایک پروپگنڈا چلا کر اسے اسلام مخالف ہونے کا دعوی کر دیں۔
یہی وہ سوچ ہے جو امت میں زہر گھولنے کا کام کرتی ہے۔ جو حق کی آواز کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتی ہے، اور جو ہر اس بات سے الرجک ہو جاتی ہے جو اتفاق، اتحاد، اور اعتدال کی دعوت دیتی ہے۔ ان کا اصل درد یہ نہیں کہ خطبے میں کیا کہا گیا، بلکہ ان کا دکھ یہ ہے کہ اسے سعودی عرب جیسے مقامِ احترام سے کیوں کہا گیا. انہیں اصل چبھن اس بات کی ہوتی ہے کہ یہ عظیم پیغام ایمان کے مرکز، امن کا پیغام دینے والے ملک سے کیوں گونجے۔ وہ اس قدر اخلاقی افلاس کا شکار ہو چکے ہیں کہ اپنے بغض و عناد کی بھینٹ حج جیسے مقدس رکن کو بھی چڑھا دینے سے دریغ نہیں کرتے۔
ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اختلاف رائے اپنی جگہ، لیکن طعن و تشنیع، شبہات اور فتنہ انگیزی امت کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ حرمین شریفین کا تقدس، حج کی حرمت، اور یومِ عرفہ کی عظمت، ان سب کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے دلوں کو حسد، تعصب اور بدگمانی سے پاک کریں، اور ان لمحات میں صرف خیر کی بات کریں، اور خیر کی نیت سے کریں۔ اگر کسی کو خطبہ یا کسی بات سے اختلاف ہو بھی، تو کیا یہ وقت مناسب ہے کہ اس اختلاف کو سوشل میڈیا کے فتنہ بازار میں اچھالا جائے؟ کیا عرفہ کے دن کا تقدس ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم امت کے امام، خادم الحرمین، یا کسی خطیب کو سرِ عام مشقِ ستم بنائیں؟
جو لوگ ان عظیم مواقع پر بھی اپنی فکری گندگی پھیلانے سے باز نہیں آتے، ان کی نہ صرف مذمت ضروری ہے، بلکہ ان کی نیت و کردار کی پیشگی شناخت بھی لازم ہے تاکہ سادہ دل عوام ان کے دامِ فریب میں نہ آئیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان فتنہ پردازوں کو ان کی اوقات سے مطلع کرتے رہیں۔ان کے عزائم کو بے نقاب کریں، اور امت کو ان کی زہریلی سوچ سے بچائیں۔
حج اتحاد، امن، اور اخلاص کا پیغام ہے۔ اسے اختلاف، شر، اور افتراق کی نذر کرنے والے دراصل خود اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچ کو سچ کہنے، خیر کو اپنانے، اور شر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ایسے تمام فتنہ پرور عناصر کو بے نقاب کرے جو امت میں نفاق، تفرقہ اور فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ آمین۔