اردو زبان اور دینی مدارس: حقیقت کیا ہے؟

از:- محمد علم اللہ، سوانسی، یوکے

اردو زبان کے حوالے سے حالیہ دنوں میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز اور بعض اخبارات میں ایک مخصوص طبقہ دینی مدارس پر تنقیص کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ایک غیر اہم اور سطحی بیان نے دانشوروں اور اہلِ زبان کے درمیان ایسی ہلچل پیدا کر دی ہے کہ گویا یہ کوئی عالمی علمی بحران ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی دینی مدارس میں اردو زبان کی تعلیم نہیں دی جاتی؟ اور اگر دی جاتی ہے تو پھر بعض حضرات اس قسم کے بیانات کیوں دیتے ہیں؟۔

اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے قائم کردہ اداروں کی کارکردگی کو سمجھنا اس بحث کا ایک اہم پہلو ہے۔ 2012 سے انجمن ترقی اردو کے جنرل سیکریٹری کے طور پر محترم اطہر فاروقی صاحب کی تعیناتی کے بعد، اس ادارے کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھے ہیں۔ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ انہوں نے اس ادارے کو محض ایک رسمی حیثیت تک محدود کر دیا ہے۔ علمی سرگرمیوں، مطالعاتی منصوبوں، اور تخلیقی کاموں کا فقدان اس تنقید کا بنیادی نکتہ رہا ہے۔ اگر محترم اطہر فاروقی صاحب کی علمی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو چند مرتب کردہ کتابوں کے علاوہ ان کے مضامین، جو کبھی کبھار اخبار انقلاب یا دیگر اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے ہیں، عموماً انگریزی سے ترجمہ شدہ ہوتے ہیں۔ ان ترجموں کی زبان کا معیار بھی بعض اوقات علمی حلقوں میں تنقید کی زد میں رہا ہے۔

اردو زبان کے ایک اہم ادارے کو چلانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف تقریری بیانات اور دعوؤں تک محدود نہ رہیں، بلکہ عملی اقدامات سے اردو کی خدمت کریں۔ بدقسمتی سے، انجمن ترقی اردو جیسی تنظیموں سے وابستہ کچھ افراد اپنی ذاتی شہرت یا مراعات کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے زبان کے فروغ کا اصل مقصد پس پشت چلا جاتا ہے۔

اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں: کیا دینی مدارس میں اردو زبان کی تعلیم نہیں دی جاتی؟ یہ سوال سن کر حیرت ہوتی ہے، کیونکہ دینی مدارس کا نصاب، اگرچہ بنیادی طور پر دینی علوم جیسے عربی، فارسی، فقہ، اور حدیث پر مرکوز ہوتا ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اردو زبان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر، مدرسۃ الاصلاح جیسے قدیم اور معروف اداروں میں اسماعیل میرٹھی کی مرتب کردہ اردو کی کتابیں (پہلی سے پانچویں جماعت تک) نصاب کا حصہ ہیں۔ یہ کتابیں مکتب کی سطح پر، یعنی عربی اول سے قبل پڑھائی جاتی ہیں۔ یہی کتابیں پاکستان اور ہندوستان کے بیشتر دینی مدارس میں اردو کی بنیادی تعلیم کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اسماعیل میرٹھی کی یہ کتابیں اپنی سادگی، ادبی ذوق، اور زبان کی پاکیزگی کے اعتبار سے ایک شاہکار ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹیوں کے کئی پروفیسرز ان کتابوں کی متن خوانی بھی درست طریقے سے نہیں کر سکتے، جو ان کی زبان و ادب پر گرفت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔

اسی طرح، جامعۃ الفلاح اور جماعت اسلامی سے وابستہ دیگر اداروں میں افضل حسین ایم اے ایل ٹی کی مرتب کردہ کتاب تعمیری ادب نصاب کا حصہ ہے۔ یہ کتاب اردو ادب کے کلاسیکی نمونوں پر مشتمل ہے، جو طلبہ کے ذوق اور فہم کے مطابق ترتیب دی گئی ہے۔ اگر کوئی طالب علم اس کتاب کی ابتدائی دو جلدیں سمجھ کر پڑھ لے تو اسے اردو ادب کی فنی جہات کو سمجھنے کے لیے کسی اضافی کتاب کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ صرف دو مثالیں ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس میں اردو ادب کی تعلیم کو نظرانداز نہیں کیا جاتا، بلکہ اسے نصاب کا ایک اہم حصہ بنایا جاتا ہے۔
دینی مدارس کی علمی روایت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کا نصاب صرف دینی علوم تک محدود نہیں ہوتا۔ اگرچہ اردو ادب کا باضابطہ تخصص ان اداروں میں نہیں ہوتا، لیکن بنیادی سطح پر دی جانے والی تعلیم بعض اوقات یونیورسٹیوں کے گریجویٹس سے کہیں زیادہ معیاری ہوتی ہے۔ ایک ایڈیٹر کی حیثیت سے، مجھے آل انڈیا ریڈیو، این سی ای آر ٹی، اور ای ٹی وی جیسے اداروں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران میں نے کئی یونیورسٹی پروفیسروں کی تحریریں دیکھیں، جن میں اردو زبان کی بنیادی غلطیاں موجود تھیں۔ کچھ پروفیسرز ایک سادہ اردو عبارت بھی بغیر غلطی کے لکھنے سے قاصر تھے۔ یہ صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ رسمی تعلیمی ڈگریاں زبان کی اہلیت کی ضمانت نہیں ہوتیں۔

دوسری طرف، دینی مدارس کے طلبہ نہ صرف اردو زبان بلکہ عربی اور فارسی ادب کے کلاسیکی متون سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، عربی ادب کی کتابیں جیسے معلقات، البلاغۃ الواضحہ، اورحماسہ ان کے نصاب کا حصہ ہوتی ہیں۔ قرآن مجید، جو خود عربی ادب کا ایک عظیم شاہکار ہے، ان کے مطالعے کا بنیادی حصہ ہوتا ہے۔ یہ طلبہ جب اس طرح کی گہری ادبی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی لسانی صلاحیتوں میں نکھار آتا ہے، جو اردو زبان کی جڑوں (جو عربی اور فارسی سے ملتی ہیں) کو مزید مضبوط کرتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر دینی مدارس پر اردو زبان سے لاتعلقی کا الزام کیوں لگایا جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے دعوے عموماً وہ لوگ کرتے ہیں جو خود کو علمی اور ثقافتی حلقوں میں نمایاں کرنے کے لیے "شوشے” چھوڑتے ہیں۔ ان کا مقصد اردو زبان کی خدمت سے زیادہ اپنے عہدوں پر قبضہ برقرار رکھنا، حکومتی مراعات حاصل کرنا، اور سماجی مقام کو بلند کرنا ہوتا ہے۔ دینی مدارس کو بدنام کر کے یہ حضرات یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ صرف یونیورسٹیوں اور سیکولر اداروں میں ہی اردو زبان و ادب کی خدمت ہو رہی ہے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

یہ طبقہ، جسے عرف عام میں "خود ساختہ اشرافیہ” کہا جاتا ہے، اردو کو محض ایک نمائشی زبان کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو میکڈونلڈز میں پیزا کھاتے ہوئے یا انڈیا ہیبی ٹیٹ سینٹر جیسے اداروں میں دارو پیتے ہوئے رسمی گفتگو کے دوران اردو کے مسائل پر بحث کرتے ہیں، لیکن زمینی سطح پر کوئی عملی کام نہیں کرتے۔ ان کی دلچسپی اردو کی ترقی سے زیادہ اپنے سماجی مقام کو برقرار رکھنے میں ہوتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان کی اصل خدمت وہ لوگ کر رہے ہیں جو گمنامی میں دیہاتوں، قصبوں، اور چھوٹے چھوٹے مدارس و اسکولوں میں زبان کے چراغ روشن رکھے ہوئے ہیں۔ یہ وہ اساتذہ، مدرسین، اور شعرا ہیں جو بغیر کسی تمغے یا فورم کے خاموشی سے اردو کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اگر ہم اردو کے نامور شعرا، ادبا، اور معلمین کی فہرست دیکھیں تو ان میں سے بڑی تعداد دینی مدارس کے تربیت یافتہ افراد کی ہوگی۔
مثال کے طور پر، مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال، اور مولانا حالی ، مولانا مودودی، مولانا عبد الحلیم شرر جیسے عظیم ادبا کی علمی روایت دینی مدارس سے جڑی ہوئی ہے۔ آج بھی بے شمار بزرگ اساتذہ اور شعرا اردو زبان میں اعلیٰ شاعری اور نثر لکھ رہے ہیں اور نئی نسل کو زبان و ادب کی تربیت دے رہے ہیں۔ یہ لوگ بغیر کسی واہ واہ کے، بغیر کسی ثقافتی سینٹر میں تصویر کھنچوائے، اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

زبان کی خدمت محض سمیناروں، مشاعروں، یا ہوٹلوں میں منعقد ہونے والی محفلوں سے نہیں ہوتی۔ وہ استاد جو روزانہ گاؤں کے بچوں کو اردو کی الف بے سکھاتا ہے، وہ شاعر جو چپ چاپ اپنے کمرے میں تخلیقی عمل میں مشغول ہے، وہی اردو کا حقیقی نمائندہ ہے۔ دینی مدارس، جو اپنی علمی روایت اور ادبی تربیت کے ذریعے اردو زبان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، ان پر بے جا تنقید نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ اردو کی ترقی کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔