تحریر: سید سرفراز احمد
جب سزاؤں کو بھگتنے کے وقت کا آغاز ہوتا ہے تو سازشیں بھی رچی جاتی ہیں۔اور پینترے بھی بدلے جاتے ہیں۔یہ بات شعبہ سیاست میں پوری آب و تاب سے دیکھنے کو ملتی ہے۔اگلے تین تا چار ماہ کے درمیان بہار اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔جس کو لے کر بہار میں سیاست نے زور پکڑلی ہے۔الیکشن کمیشن کی ٹیم تیاریوں کو لے کر دورے کررہی ہے۔الیکشن کمیشن کا ہمیشہ کی طرح دعوی ہے کہ وہ بہار اسمبلی انتخابات کو شفاف طریقے سے انجام تک پہنچائے گی۔الیکشن کمیشن کی جانب سے لفظ شفاف تو استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن عملی طور پر اپنے طریقہ کار کو غیر شفاف سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے۔تب ہی کچھ سالوں سے الیکشن کمیشن بھی سوالات کے گھیرے میں جی رہا ہے۔جس سے عوام کے ذہنوں میں یہ سوال الجھ کر رہ گیا ہے کہ کہیں انتخابی ادارہ حکومت کے ماتحت بن کر تو کام نہیں کررہا ہے؟یہ سوال الیکشن کمیشن کی خود مختاری کو اٹھا رہا ہے۔یہ سوال شفاف اور غیر شفاف کے امتیاز کو واضح کررہا ہے۔یہ سوال الیکشن کمیشن کی ساکھ کو بھی متاثر کررہا ہے۔لیکن انتخابی ادارہ نہ ان سوالوں کو تلاش کرنا چاہتا ہے نہ ان کے جوابات دینا چاہتا ہے۔نہ ہی اپنا جائزہ و احتساب کرنا چاہتا ہے۔
اس وقت بہار میں جو سیاسی سازش چل رہی ہے جو خود کو ایک منظم منصوبہ بند سازش کے طور پر پیش کررہی ہے۔انتخابی ادارے نے راۓ دہندہ گان کی ازسر نو فہرست کے نام پر خصوصی نظر ثانی (Special Intensive Revison) مہم چھیڑ رکھی ہے۔جو اس وقت مختلیف سوالات کے گھیرے میں ہے۔کیونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پورے بہار میں 25 جون تا 25 جولائی بوتھ لیول آفیسرس گھر گھر جاکر راۓ دہندہ گان کی تمام تر تفصیلات کی جانچ اور تصدیق کررہے ہیں۔اگر بات صرف جانچ تک محدود ہوتی تو غیر شفافیت یا سازش پر سوال نہیں اٹھتا۔لیکن اس جانچ اور خصوصی نظر ثانی کے نام پر راۓ دہندہ اور اس کے والدین کی شہریت و پیدائشی سند طلب کی جارہی ہے۔اس ضمن میں انتخابی ادارے نے جو خصوصی اسنادات کو طلب کیا ہے۔اس میں شناختی، رہائشی، پیدائشی، پاسپورٹ،والدین کے اسنادات و دیگر اسنادات شامل ہیں۔ جس سے نہ صرف شک کا بالبداخلہ کھل رہا ہے۔بلکہ اس کام کو ایک بڑی سازش کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔چونکہ یہ وہی دستاویزات ہے جو این آر سی کے لیئے مطلوب ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر الیکشن کمیشن کو اس طرح کی تنقیح کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟جس کا آسان سا جواب اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے دیا جارہا ہے کہ الیکشن کمیشن سرکار کی ایماء پر یہ تنقیح کررہی ہے۔جس سے لاکھوں راۓ دہندہ گان کو اپنی راۓ سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اور سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا ایک مہینے میں بہار اسمبلی کے 243 حلقوں کا یہ کام مکمل ہوجاۓ گا؟کیونکہ یہ تو خود اپنے آپ میں ایک کٹھن کام ہے۔یہاں دو باتیں انتہائی اہم ہے ایک تو یہ کہ بہار میں این ڈی اے اتحاد کی سیاسی ساکھ انڈیا اتحاد سے کمزور دکھائی دے رہی ہے۔دوسرا نتیش کمار کی قیادت میں این ڈی اے کی موجودہ حکومت عوامی مفادات اور ترقی میں بری طرح سے ناکام رہی ہے۔شائد اسی بوکھلاہٹ کا شکار این ڈی اے سرکار الیکشن کمیشن کی پشت کا استعمال کرتے ہوۓ غیر ضروری جانچ کروائی جارہی ہے۔اس جانچ کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ کسی بھی طرح عوام سے خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں سے وہ دستاویزات کو طلب کیئے جائیں۔جس کو وہ پیش کرنے سے قاصر رہیں گے۔اگر کوئی دستاویزات پیش نہیں کرے گا تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کا نام راۓ دہندہ گان کی فہرست سے حذف کیا جاسکتا ہے۔جس سے راۓ دہندہ گان کا ایک بڑا تناسب حق راۓ دہی سے محروم ہوجاۓ گا۔
بہار میں تیجسوی یادو کی بڑھتی عوامی مقبولیت کو دیکھ کر اس وقت این ڈی اے اتحاد تذبذب کا شکار ہے۔این ڈی اے اتحاد چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح انڈیا اتحاد کو حکومت میں آنے سے روکا جاسکے۔کیونکہ عوامی مقبولیت کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔لہذا ایسے وقت میں سازشیں ہی کام آتی ہے۔تب ہی راۓ دہندہ گان کی فہرست پر دوبارہ نظر ثانی کا بہانہ بناکر ایک بڑی تعداد کو ووٹر لسٹ سے غائب کیئے جانے کا امکان ہے۔سوال ہے این ڈی اے کو خدشہ کس بات کا ہے؟جس کا جواب مختلیف سروے رپورٹوں یا اوپینین پولس بتارہے ہیں کہ این ڈی اے اور انڈیا اتحاد میں سخت مقابلے کے امکانات ہیں۔ہم نے دس نامور اوپنین پولس کی تحقیق کی ہے جس میں پانچ اوپینین پولس این ڈی اے کو انڈیا اتحاد پر معمولی سبقت دکھا رہے ہیں۔اور پانچ اوپنین پولس انڈیا اتحاد کو این ڈی اے پر سبقت لے جاتے ہوۓ دکھا یا جارہا ہے۔جس سے ایک دھندلی سی تصویر تو صاف ہورہی ہے کہ بہار میں جو بھی اتحاد حکومت بناۓ گا وہ بہت ذیادہ سبقت حاصل نہیں کرے گا۔اسی کش مکش کو دور کرنے کے لیئے وزیراعظم خود بہار کا میدان سنبھالے ہوۓ ہیں۔اور بہار کے لیئے کروڑوں کے فنڈس کا اعلان کررہے ہیں۔اور بھاجپا کے کئی قائدین تیجسوی یادو کی شبیہ بگاڑنے میں اپنے شب و روز لگارہے ہیں۔تاکہ عوام کو ورغلا کر اپنی جانب پر کشش بنایا جاسکے۔
اپوزیشن جماعتوں کو فوری پوزیشن سنبھالنی ہوگی۔ورنہ اگر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں گے تو سازشیں کامیاب ہوتی جائیں گی اور مہاراشٹر کی طرز پر ایک بڑا سیاسی کھیل کھیلا جاۓ گا۔پھر انڈیا اتحاد کو بہار جیسی ریاست سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔چونکہ راہل گاندھی نے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں الیکشن کمیشن پر دھاندلیوں کے جو الزامات عائد کیئے ہیں۔وہ اپنے آپ میں حیرت انگیز ہے۔بلکہ انھوں نے خود ایک مضمون کو پانچ مرحلوں میں تقسیم کرتے ہوۓ مختلیف شکوک کو پیش کرکے بتایا ہے۔اور ہونے والی بے ضابطگیوں پر حوالوں کے ساتھ کھل کر اپنی بات رکھی ہے۔ایک تو یہ کہ الیکشن کمیشن آفیسر کا انتخاب منصوبہ بندی سے کیا جانا جس میں جو خود الیکشن لڑ رہے ہیں وہی ان کا انتخاب کررہے ہیں۔دوسرا اچانک مہاراشٹر میں فرضی ووٹرس کی تعداد میں اضافہ ہوجانا۔ تیسرا راۓ دہی کے تناسب میں تصادم کا پایا جانا۔جو شام پانچ بجے تک الگ اور بعد میں الگ تناسب اس معمولی تناسب سے لاکھوں ووٹرس شامل ہوجاتے ہیں۔چوتھا مہاراشٹر میں جملہ ایک لاکھ پولنگ بوتھس میں سے صرف بارہ ہزار پولنگ بوتھس پر راۓ دہندہ گان میں اضافہ کیا گیا۔جس میں 85 اسمبلی حلقہ جات پاۓ جاتے ہیں۔لوک سبھا میں ان اسمبلی حلقہ جات میں بی جے پی کا مظاہرہ ناقص رہا تھا۔یہاں اس بات کا تضاد پایا گیا کہ جس اسمبلی حلقہ میں لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو جتنے ووٹ ملے تھے وہی ووٹ اسمبلی انتخابات میں ملے لیکن بی جے پی کو لوک سبھا کی بہ نسبت اسمبلی انتخابات میں 56 ہزار ووٹ زائد ملے۔پانچویں بات الیکشن کمیشن ہر بار سوالات کے جوابات خاموش رہ کر یا جارحانہ طریقے سے دیتا ہے۔جو ثبوتوں کو چھپانے کے مترادف ہے۔چونکہ جب الیکشن کمیشن سے سال 2024 کے لوک سبھا و اسمبلی انتخابات کے ووٹر لسٹ کو معہ تصویروں کا مطالبہ کیا گیا تو انھوں نے اس مطالبے کو مسترد کردیا۔
ایسا ہی کچھ سیاسی کھیل یا سیاسی سازش بہار میں بھی اگر کھیلی جارہی ہے تو پھر شفاف نتائج کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔بلکہ یہ کھیل تو ایسا ہے جو جمہوریت کی پشت پر سواری تو کرنا چاہتا ہے لیکن منزل پر پہنچتے ہی اسے قتل بھی کرنا چاہتا ہے۔اپوزیشن جماعتوں کو چاہیئے کہ اس طوفان بد تمیزی کو ہلکے میں نہ لیں۔دلچسپ بات بتادیں بھاجپا اپنی شکست کے ڈر سے اپنے ہی دو بازؤں جن میں پرشانت کشور اور پاسوان کو بہار کے میدان جنگ میں اتار دیا ہے۔تاکہ یہ قبائلی اقلیتی و پسماندہ طبقات کے راۓ دہندوں کو تقسیم کریں اور بھاجپا ہندوتوا کے نام پر اکثریتی طبقہ کے ووٹرس کو بٹورتے ہوۓ اکثریت کا دم بھریں۔پھر تو لازمی ہے کہ انڈیا اتحاد کے ووٹرس پوری طرح تقسیم ہوجائیں گے۔انڈیا اتحاد کو چاہیئے کہ وہ پرشانت کشور اور پاسوان کے سیاسی کارڈ کو اچھی طرح سمجھتے ہوۓ سمجھ بوجھ سے منصوبہ بند کام کریں۔
اب عآم آدمی پارٹی بھی بہار میں پوری مضبوطی کے ساتھ میدان جنگ میں اترنے کی تیاری کررہی ہے۔اگر چہ عآپ کی نیت بھاجپا کو جتانے کی نہ ہو لیکن ان کا میدان میں اترنا صرف اور صرف راۓ دہندوں کی تقسیم اور بھاجپا کی جیت کے لیئے راہیں ہموار کرنے کے مترادف کہلاۓ گا۔جب کہ اروند کیجریوال صاف کہہ رہے ہیں کہ انڈیا اتحاد صرف لوک سبھا تک محدود تھا۔انھوں نے کانگریس پر الزام لگایا کہ دہلی میں کانگریس نے بی جے پی کے لیئے کام کیا ہے۔لہذا ہم بہار میں تمام سیٹوں پر انتخابات لڑرہے ہیں۔اگر ایسا ہوگا تو بی جے پی کا راستہ پوری طرح سے صاف ہوجاۓ گا۔کیونکہ تمام سیکولر جماعتیں ایک دوسرے کا ہی گلہ کاٹنے پر تلی ہوئی ہیں۔جس سے بھاجپا کو اپنے منصوبے میں کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ابھی بھی وقت ہے انڈیا اتحاد بیٹھ کر سنجیدگی سے بہار کی صورت حال پر غور و خوض کرتے ہوۓ فیصلہ کریں۔کانگریس کو بھی چاہیئے کہ وہ تمام چھوٹی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں۔خاص طور پر الیکشن کمیشن کی نظر ثانی مہم کو رکوانے کے اقدامات کریں۔کیونکہ عوام میں ایک بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔اگر سب خاموش تماشائی بنے رہیں گے تو انڈیا اتحاد کو سیاسی نقصان کے ساتھ ساتھ آئینی ڈھانچہ بھی کمزور ہوگا۔جمہوریت کی روح کو نقصان پہنچے گا۔ بلکہ عوامی حقوق اور انکے مفادات کو بھی شدید ضرر پہنچے گا۔بقول ڈاکٹر کلیم عاجز؎
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو