از:- محمد ناصر ندوی پرتاپگڑھی
جب انسانیت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ایک صالح پُرامن اور متوازن نظامِ زندگی قائم کرنے میں ناکام ہوچکی تھی، جب ظلم و جبر، نفس پرستی، نسلی تفاخر، فکری پستی اور اخلاقی گراوٹ نے سماج کو تاریکی کے گڑھے میں ڈھکیل دیا تھا، جب انسان انسان کا دشمن، اور طاقتور کمزور کو نگلنے کو کھڑا رہتا تھا ،تب ایک آفتابِ ہدایت، صحرائے عرب کے اُفق پر طلوع ہوا، اور اس کی روشنی نے پوری دنیا کی کایا پلٹ دی۔
یہ کوئی وقتی یا جغرافیائی دعوت نہیں تھی، اس کی بنیاد وحی الٰہی پر تھی، اس کی دعوت عالمگیر تھی، اور اس کا ہدف انسان کو اس کے رب سے جوڑکر اس کی اپنی خداداد فطرت سے ہم آہنگ کرنا تھا، یہ دین صرف عقائد و عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ وہ اسلام ہے جو کامل نظامِ حیات ہے اور فطرتِ انسانی کے ہر تقاضے کو پورا کرتا ہے۔
اسلام آیا تو اس نے سب سے پہلے انسان کی سوچ بدلی، اس نے بتایا کہ اصل عزت تقویٰ میں ہے، رنگ و نسل، مال و دولت، حسب و نسب میں نہیں۔ وہ معاشرہ جس میں بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینا فخر سمجھا جاتا تھا، اس نے اسی معاشرے میں بیٹی کو رحمت قرار دیا، اور عورت کو وہ وقار عطا کیا جس کا تصور بھی اُس وقت کی دنیا میں موجود نہ تھا۔
اسلام نے غلاموں کو آزادی کا پیغام دیا، اور مساواتِ انسانی کا وہ اصول دیا جو کسی فلسفی یا قانون ساز کے ذہن میں کبھی نہ آ سکا۔ اس نے بتایا کہ ایک حبشی بلال، ایک سردارِ قریش کے برابر ہے، بلکہ اس کا مقام بلند ہوسکتا ہے اگر وہ خدا کے نزدیک تقویٰ میں بلند ہے۔ اس نے ان قبیلوں کو ایک اُمت بنایا جو معمولی بات پر سالہا سال جنگوں میں الجھے رہتے تھے، ان میں اخوت و اتحاد، ایثار اور قربانی کا ایسا جذبہ پیدا کردیا کہ وہ ایک دوسرے کےلئے اپنی جانیں نچھاور کرنے کو ترجیح دینے لگے۔
اسلام نے علم کو حرمت دی، اور اس کےحصول کو فریضہ قرار دیا۔ اس دین کے اولین الفاظ "اقْرَأْ” تھے۔ اسی تعلیم نے ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جس نے علم وفلسفہ، طب وفلکیات، ریاضی وفنونِ لطیفہ، اخلاق و قانون اور تمدن وثقافت کے میدانوں میں نئی راہیں دکھائیں۔ دنیا نے دیکھا کہ ایک طرف جب یورپ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، اندلس و بغداد، قاہرہ و نیشاپور اور بخارا میں علمی و فکری ادارے، کتب خانے، مدارس اور جامعات عروج پر تھیں۔
اسلام نے معیشت کو سود اور استحصال سے پاک کیا، اور محنت ودیانتدای، زکوۃ وخیرات اور باہم مالی تعاون پر مبنی فلاحی تصور معیشت عطا کیا۔ اس نے سیاست کو جبر و طاقت کی غلامی سے نکال کر عدل وانصاف ،مساوات وباہمی مشاورت پر مبنی خدمت خلق اور تقویٰ کی بنیاد پر مستحکم نظام بنا دیا،اس نے جنگ کو ظلم و جارحیت کے بجائے مظلوم کی مدد، حق کے قیام اور ظلم کی بیخ کنی کےلئے محدود و منضبط کیا۔
اسلام نے نہ صرف انفرادی اصلاح کی بلکہ پورے معاشرے کو ایمان و اخلاق، عدل وشرافت، اخوت ورواداری اور ذمہ داری کے اصولوں پر استوار کیا۔ یہ وہ دین ہے جس نے قیادت کو وراثت نہیں امانت بتایا۔ جس نے بادشاہ کو رعایا کا خادم کہا، جو رعایا کو حقوق سے پہلے فرائض کی یاددہانی کراتا ہے، اور حکمران کو قانون کا تابع قرار دیتا ہے۔
دنیا کی ہوا کا رخ اس وقت بدلا جب حضرت بلالؓ نے اذان دی، تو اصنام گرنے لگے۔ جب حضرت صہیبؓ نے مال چھوڑا تو ایمان کی جیت ہوئی، جب حضرت عمرؓ نے عدل کیا تو قیصر و کسریٰ لرز گئے۔ جب حضرت علیؓ نے میدان میں للکارا تو باطل کی میخیں ہل گئیں۔ جب حضرت خدیجہؓ نے ساتھ دیا تو تنہائی بھی رفیق بن گئی۔ جب حضرت فاطمہؓ نے فقر اپنایا تو وہ عظمت کا نمونہ بن گئیں۔ جب حضرت عائشہؓ نے قلم اٹھایا تو علم کی دنیا جاگ اٹھی۔ یہ وہ انقلابات تھے جو اسلام نے نہایت قلیل مدت میں ساری دنیا کے سامنے پیش کیا ۔
آج اگر دنیا فکری و اخلاقی، تہذیبی اور روحانی زوال کا شکار ہے تو اس کی اصل وجہ سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری ہے، دنیا پھر سے امن و عدل، وفا و مساوات، خدمت و روحانیت اور صداقت کی پیاسی ہے۔ اور یہ سب اسلام کے سوا کہیں میسر نہیں، مگر یہ انقلاب صرف دعوت سے نہیں آئے گا، بلکہ کردار و قربانی، صداقت وعدالت اور اخلاص کے ذریعے ہی دنیا کو نظر آسکتا ہے۔
اسلام نے وہ انسان پیدا کئے جو تلوار سے نہیں کردار سے دلوں کو فتح کرتے تھے، جن کی زبان میں تاثیر، نظر میں حیا، ہاتھ میں عدل، اور دل میں اللہ کی عظمت ہوتی تھی۔ جنہوں نے دنیا کی طاقتوں کو بغیر کسی استعمار واستحصال یا نسل پرستی کے شکست دی۔
اگر آج ہم اسی اسلام کو پھر سے دلوں میں اتار لیں، اپنے گھروں، اپنے کاروبار، اپنے معاشروں اور اپنے نظام تعلیم و معیشت میں نافذ کریں تو یقیناً ہم دنیا کی ہوا کا رخ پھر سے پلٹ سکتے ہیں۔
اسلام کا انقلاب زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، کیونکہ یہ حق ہے۔ اور حق کو زیادہ دنوں تک دبایا نہیں جاسکتا ہے۔
قوموں کی زندگی میں کچھ لمحے ایسے آتے ہیں جب اُنہیں خود اپنی حقیقت پہچاننے اور اپنی تاریخ سے رشتہ جوڑنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ہم اس وقت ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں ہماری شناخت دھندلا رہی ہے، راہیں بکھر رہی ہیں اور ہماری فکری قیادت اور تہذیبی میراث عالمی سطح پر پس منظر میں جاچکی ہے۔ مگر اللہ تبارک وتعالیٰ کا نظام ہے کہ ہر امت کو دوبارہ ایسا موقع ضرور دیتا ہے کہ قوم اپنی زندگی کا جائزہ لے کر اپنی اصلاح کرلے اور بیدار ہوجائے، خود کو پہچان لے اور اپنے منصبِ کی طرف پلٹ آئے۔
مسلمانوں کی تاریخ اُمت کے بیدار ضمیر کی گواہ ہے جب فردِ واحد نے قافلہ بنایا، جب مفلس نے منبر سنبھالا، جب محروم نے مہذب دنیا کی قیادت سنبھالی ،یہی وہ وقت تھا جب ہوائوں کے رخ بدلے، اور اقوامِ عالم نے اسلام کے علم برداروں کے زیرِ سایہ امن و عدل اور فلاح وکامرانی کے دن دیکھے۔
ہم وہ امت کے پیروکار ہیں جس نے دنیا کو یہ بتایا کہ دین صرف عبادت کا نام نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر نظامِ حیات ہے، یہ وہ پیغام ہے جس میں نہ صرف فرد کی اصلاح ہے بلکہ معاشرے کی تعمیر، اقوام کی فلاح اور انسانیت کی ہر موقع پر رہنمائی ہے۔ آج بھی اگر امت مسلمہ قرآن و سیرت کے الٰہی منہاج پر لوٹ آئے تو حالات کا شکوہ کرنے کے بجائے تاریخ کی خالق بن سکتی ہے۔
دنیا آج جس فکری انارکی، اخلاقی پستی، روحانی خلا اور تہذیبی اضطراب سے گزر رہی ہے وہ ایک پرسکون نظام، انصاف پر مبنی نظریے اور نئی قیادت کی منتظر ہے ،اور یہ قیادت صرف وہی امت دے سکتی ہے جسے "خیر امت” کا لقب دیا گیا ہو، اور جس کے پاس وحی الٰہی کی روشنی اور اسوۂ رسول ﷺ کی عملی تعبیر ہو۔
ایسے وقت میں ہمیں قرآن کی وہ آفاقی صدا سنائی دیتی ہے جو ایمان واستقامت اور قیادت کےلئے ہمیں پکار رہی ہے:
إِنَّ ٱلَّذِینَ قَالُوا۟ رَبُّنَا ٱللَّهُ ثُمَّ ٱسْتَقَـٰمُوا۟ تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا۟ وَلَا تَحْزَنُوا۟ وَأَبْشِرُوا۟ بِٱلْجَنَّةِ ٱلَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ
(الاحقاف: 13)
"بیشک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ اس پر قائم رہے، ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کرو، اور اس جنت کی خوشخبری ہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا”
یہی استقامت وہ کنجی ہے جو ہمیں حالات کے طوفانوں سے نکال کر دنیا کو امن کا راستہ دکھانے کی قوت عطا کرتی ہے۔ یہی راستہ ہمیں غلامی سے آزادی، مایوسی سے امید، اور انفعالیت سے قیادت کی طرف لے جاتا ہے۔
امت مسلمہ کو اب یہ اپنے دل میں بٹھانا ہوگا کہ اس کا اصل سرمایہ نہ سیاسی قوت ہے، نہ معاشی طاقت، نہ عددی اکثریت بلکہ اس کا اصل اثاثہ ایمان وتقویٰ، علم و صداقت، دیانت و اخلاص، استقامت وجہد مسلسل اور فکرِ آخرت ہے۔ اگر یہ اوصاف ہمارے وجود میں لوٹ آئیں، تو ہم ایک بار پھر دنیا کےلئے وہ مثال بن سکتے ہیں جس کی دنیا کو ضرورت ہے اور بڑی شدت سے وہ منتظر ہے ۔
ہمیں اپنے معاشرہ کو مراکزِ اصلاح و تعمیر بنانا ہوگا، مدارس کو صرف روایت نہیں بلکہ تجدید و اجتہاد کا قلعہ بنانا ہوگا، تعلیمی اداروں کو علم و تربیت کا مرکب بنانا ہوگا، اور گھروں کو سیرتِ نبوی ﷺ کا عملی نمونہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔جب ہمارے بازار دیانت کے نمونے بنیں گے، ہماری سیاست خدمت کی آئینہ دار ہوگی، اور ہماری معیشت عدل و کفایت شعاری پر قائم ہوگی،اور ہم اپنی نوجوان نسل کی ایمان کی بنیاد پر پرورش کریں گے، فکر اسلامی سے جوڑیں گے، اور انہیں ایمان واخلاق اور تربیت وعمل کا جوہر عطا کریں گے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو عطا فرمایا تھا تو ہمیں کسی بیرونی انقلاب کی ضرورت نہیں، ہر نوجوان خود ایک انقلاب بن جائے گا۔
ہمیں دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ اسلام کیا ہے،ہمیں صرف اپنے کردار سے دکھانا ہے۔ دنیا دلیلوں سے نہیں بدلتی، بلکہ زندہ مثالوں سے بدلتی ہے۔ جب مسلمان جھوٹ سے سچ، خیانت سے امانت، خودغرضی سے ایثار، اور ریاکاری سے اخلاص کی طرف پلٹے گا، تو خود بخود دنیا اس کے آگے جھکنے لگے گی ۔
*اے امتِ مسلمہ وقت کی پکار سن!!!*
تاریخ کے دروازے کھل رہے ہیں، وقت کی کروٹ واضح ہوچکی ہے، اور دنیا ایک نئی قیادت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ یہ قیادت نہ نیویارک سے ابھرے گی، نہ لندن و پیرس سے ، یہ قیادت اسی معاشرے سے نکلے گی جو معاشرہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے گا ،جو صحابہ کرام کو اپنا مقتدی تسلیم کرے گا ،جس معاشرہ سے وہی خوشبو آئے کی جو مدینہ منورہ کی گلیوں سے آتی تھی۔
یاد رکھیں! جو قومیں اپنے آپ کو بدل لیتی ہیں، قدرت ان کےلئے تاریخ بدل دیتی ہے,اب فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے، کیا ہم زمانے کے پیچھے چلتے اورباطل طاقتوں کی پرستش کرتے رہیں گے یا وہ طاقت بن کر ابھریں گے جس کے پیچھے زمانہ چلے۔
نوجوانو ! اٹھو اپنا دینی و اخلاقی وجود بلند کرو، اپنی صفیں درست کرو، علم و حکمت،اتحاد و اخلاص اور عمل کے ساتھ دنیا کو بتا دو کہ ہم اسی امت کے فرد ہیں
جو وقت کے اندھیروں میں چراغ جلا کر ساری دنیا کو روشنی فراہم کرنے کا ہنر جانتی ہے،خاک سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہونچانے کا فن اس کا امتیاز رہا ہے،
جو "لا الہ الا اللہ” کی قوت سے تاریخ کو نئی روشنی فراہم کرچکی ہے اور،،محمدرسول اللہ ،، کی صدا سے ساری انسانیت کو اطمینان وسکون کی راہ دکھا چکی ہے۔
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے