از:- شاہدعادل قاسمی ارریہ
بہار میں اسمبلی الیکشن کا سائرن بج چکاہے،سیاسی پارٹیاں بساط سے زیادہ اور امید سے اوپر مصروف عمل ہوچکی ہیں،برسراقتدار حکمراں اسکیموں کی بوچھاڑ اور یوجناؤں کی بھرمار سے بہاریوں کو مستفید کرنے کا روز بہ روز نئے نئے اعلانات اور ہوٹنگ سے پلان بنا چکا ہے،ادھر الیکشن کمیشن آف انڈیا نےووٹرس کے درمیان ایک نیا فرمان جاری کرکے لوگوں کے بیچ ہیجان اور خلفشار پیدا کردیا ہے،ووٹرس کوووٹنگ لسٹ میں نام درج کرنے یا نام برقرار رکھنے کے لیے ایک نیا انومریشن فارم (EF,Enumeration Form)پر کرنا لازمی بتایا جارہا ہے،وہ ووٹرس جو برسوں سے اپنی راۓ دہی کا استعمال کررہے ہیں انھیں بھی اس فارم کو بھرکردینا ضروری ہوگا،خیال رہے کہ اس فارم کو پرکرنے کے لیے ووٹرس کی موجودگی ضروری ہوگی،ایسی صورت حال میں بہار کا وہ طبقہ جو اپنی ریاست سے دور دیگر ریاستوں میں ذریعۂ معاش یا کسب معاش کے لیے گیے ہوۓ ہیں ان کے لیے بڑی پریشانی ہوجاۓ گی،وہ افراد جو غریبی اور بے روزگاری کی باعث ملک کے مختلف صوبوں میں مقیم ہیں، جو پرو تہوار یا خوشی وغمی کے علاوہ الیکشن کے مواقع سے حاضر وطن ہوکر اپنی ووٹ دہی کے فریضے کو انجام دیتے ہیں ان کے لیے اب مشکل امر ہوجاۓ گا اور وہ اس حق سے محروم ہوجائیں گے،متعدد صورتوں میں اپنی جاۓ پیدائش اور اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے ایک شہری کو ہی مکلف اور ذمہ دار بنایا جارہا ہے جو خود دستور ہند کے دفعہ 326کے خلاف ہے،جب کہ موجودہ نوٹیفیکیشن سے قبل ہندوستانی ہر وہ شخص غیر مشروط راۓ دہی کا حق رکھتا ہے جن کی عمر اٹھارہ برس ہوچکی ہو، لیکن موجودہ فرمان ووٹر لسٹ پر نظر ثانی یے یا ووٹرس ویریفیکیشن ہے یا ووٹنگ لسٹ رویژن ہے ماہرین کا تو کہنا ہے کہ یہ بہار کی آٹھ کروڑ سے زائد آبادی کے حقوق پر حملہ ہے،جس میں الیکشن کمیشن آف انڈیا ہی نہیں بلکہ مرکزی اور ریاستی سرکار بھی برابر شریک ہیں،جن کا مقصد ووٹر لسٹ سے بچھڑا،پس ماندہ،قبائلی، دلتوں،کسانوں اور اقلیتوں کو خصوصی طور پر باہر کاراستہ دکھانا ہے،جنھیں ووٹنگ ادھیکار سے بے دخل کرنا ہے، جنھیں قومی تہوار سے بری کرنا ہے،جس پر کچھ دانشوروں نے یہ کہنا بھی شروع کردیا ہے کہ شاید ناگرکتا رجسٹر یا شہری دستاویز بنانے کا ابھیان شروع ہواہے،
برسات کا موسم ہے،بہار میں مان سون کا سیزن شروع ہے،بہار کا اکثریتی حصہ اب چار ماہ تک سیلاب کے زد میں رہے گا،بہاری عوام ان چار مہینوں میں اپنی جان و مال ،گھر دوار اور مال مویشی کی حفاظت میں مشغول رہیں گے بھلا وہ ان دنوں اور اتنے کم ٹائم میں کہاں سے مطلوبہ دستاویزات مہیا کرپائیں گے،کیا ایسی پرستتھی میں اس طرح کا آدیش جاری کرنا الیکشن کمیشن آف انڈیا کے لیے درست ہے?جس چناؤ آیوگ کا کام ووٹرس کو جوڑنا ہے کیا اس سے لوگ جڑ پائیں گے،علاوہ ازیں بہار کی بڑی آبادی تعلیم سے دور ہے،چالیس فیصد سے زائد آبادی فارم تک نہیں بھر سکتی ہے، کیا وہ اس قلیل مدت میں تقاضہ کئے گئے کاغذوں کو اپلبدھ کراپائیں گے?بہار کی وہ آبادی جو بیرون ملک روزگار کی تلاش میں مہاجر ہیں،NRIs ہیں وہ اپنانام ووٹر لسٹ میں برقرار رکھ پائیں گے? یا کیا وہ نئے نام ووٹر لسٹ میں شامل کرسکیں گے?بہار کے وہ طالب علم جو دیگر کنٹریوں میں ز یر تعلیم ہیں کیا وہ ووٹر لسٹ میں شامل ہوپائیں گے ایسے درجنوں سوالات اور معروضات ہیں جو اس نئے فرمان سے متصادم ہیں، بہار میں چھ مرحلوں میں اسمبلی انتخابات ہوجانے ہیں، الیکشن کا پہلا مرحلہ اکتوبر2025 میں ہے،جب کہ ضابطۂ اخلاق بھی نافذ ہونے میں کم ہی وقت ہے ،پھر بھلا کیوں کر ممکن ہوسکتا ہے اس قلیل مدت میں یہ کثیر الجہات عمل مکمل ہوجاۓ، اس فرمان سےبہار میں آج راشن کارڈ اورآدھار کارڈ،ووٹر آئ ڈی کارڈ سب بے معنی ہوکر رہ گئے،بایں وجہ کہنے والے تو کہہ رہے ہیں کہ آخر سرکار راشن کارڈ یاآدھار کارڈ کو کیسے تسلیم نہیں کرے گی جبکہ وہ انھیں دستاویزات سے اسی کروڑ شہریوں کومنتھلی راشن اور پینشن دیتی ہے،انھیں دستاویزات سے دیگرمراعات اور سہولیات فراہم کراتی ہے،
ووٹر لسٹ میں نظر ثانی آج نہیں برسوں سے ہوتی رہی ہے،مرحوم،ٹرانسفر،جنس تبدیلی وغیرہ کاعمل قدیم ہے ،خود بہار میں فروری اور دسمبر2024کو یہ عمل ہوچکا ہے ،پھر عین الیکشن کے وقت اس طرح کا حکم نامہ جاری کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی?کہنے والے تو اسے بھی آسام کا دوسرا نام دے رہے ہیں، الیکشن کمیشن آف انڈیا نے 1987کے بعد پیداہونے والوں سے والدین میں سے کسی ایک کا اور 2004کے بعد پیداہونے والوں میں سے والدین کے دستاویز طلب کرنا آئینی حقوق کے متضاد ہے ،اس لیے کہ اٹھارہ سال والوں کے لیے غیر مشروط ووٹرس بننا ان کا آئینی حق ہے، خواہ وہ قبائلی ہوں،پسماندہ ہوں،مردہون
ں ،خاتون ہو،امیر ہو، غریب ہو،کالاہو،گوراہوسب کا دستوری حق ہے، اس طرح کا ابھی الیکشن کمیشن کا یہ نیا طریقہ رائج کرانا ایک طرح سے جمہوریت کو چیلینج کرنا ہے، جو ریاست کی صحت کے لیے مضر ہی مضر ہے،بہار میں نہایت کم مدت میں آٹھ کروڑ سے زائد ووٹرس کے لیے یہ دستاویزات مہیا کرانا جوۓ شیر سے کم نہیں ہے،الیکشن کمیشن کو اس سے رجوع کرنا چاہیئے اور آئین ہند جس کا متقاضی ہے اس پر عمل پیرا ہونا چاہیئے،الیکشن کمیشن کے اس متنازع حکم نامہ پر جہاں حزب مخالف پارٹیاں چراغ پا ہیں وہیں ملی تنظیمیں بھی سراپا احتجاج ہیں،ملک کی سب سے بڑی ملی تنظیم جمعیت علمائے ہند اور امارت شرعیہ نے کھلے عام اس جاری شدہ فرمان کا بائیکاٹ کیا ہے اور الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو جانب دارانہ اور غیر منصفانہ گردانا ہے،جمعیت علمائے ہند کے صدر جناب مولانا محمود مدنی اور امارت شرعیہ کے امیر شریعت نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے،اس کے علاوہ کئ ماہرین اور قانون داں نے اسے غیر موزوں اور غیر ضروری کہا ہے،کچھ سیاسی شخصیتوں نے اس فیصلے پر اپنی ناراضگی اور ناگواری کا اظہار بھی کیا ہے،سرکاری عملے اور بی ایل اوز وغیرہ کو دستاویز مھیاکرانے سے ووٹروں کو روکنے کا اعلان کیا ہے،ادھر متعلقہ سرکاری محکمہ اس حکم کی تنفیذو تعمیل پر مکمل سرگرم ہے،تمام اضلاع کے ضلع مجسٹریٹ اس کے نفاذ پر عمل پیرا ہونے کے لیے پبلک پیلیس اور ووٹرس کے مابین پہنچ رہے ہیں،ووٹرس دستاویزات مھیاکرانے کےلیے سرگرداں ہیں،کوئ بلاک،کوئ کچہری،کوئ سول ایس ڈی او اور کوئ ضلع مجسٹریٹ کے دفاتر کا خاک چھان رہا ہے، گھر سے باہر جو مزدور یا معلم و متعلم ہیں وہ بھی شش وپنج میں مبتلاء ہیں، دستاویزات مھیاکرانے وطن جائیں تو روزگار تنگ ہونے کاڈر،تعلیم وتعلم چھوڑ کر وطن جائیں تو اخراج کا خوف،نہ جائیں تو شہریت کھونے کا خوف ستارہا ہے، آخر کیاکریں اور کدھر کا رخ کریں تذبذب میں ہیں،معروف تعلیم یافتہ اور سیاسی مبصر یوگیندر یادو نے پوائنٹس وار اس فرمان کا بہترین آپریشن کیا ہے، انھوں نے کہا ہےکہ 2003میں بھی ووٹر لسٹ میں نظر ثانی ہوئ ہے، لیکن اس وقت ودھان سبھا سے دو سال اور لوک سبھا سے ایک سال قبل کیاگیا تھا،اس وقت لمبا ٹائم دیا گیا تھا،مگر تئیس سال بعد چناؤ ایوگ کا اچانک ایسا آدیش وہ بھی کسی پارٹی سے صلاح ومشورہ کئے بغیر قطعا درست نہیں ہے،کم از کم برسراقتدار پارٹی کے قائدین سے ہی مشورہ کیا جاتا مگر الیکشن کمیشن نے ایسا نہیں کیا،یادو جی کہتے ہیں کہ 2003 کے ووٹر لسٹ میں جن لوگوں کا نام شامل نہیں ہے انھیں پیدائش سرٹیفکیٹ، میٹرک سرٹیفکیٹ اور جاتی سرٹیفکیٹ اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے دینا لازمی ہوگا جب کہ بہارمیں 76۔ 4 کروڑ کی آبادی ایسی ہے جو ان دستاویزات کو سہولت سے مہیا نہیں کراسکتی ہے،وہ اس وجہ سے نہیں کہ وہ غیر دستوری شہری ہیں بلکہ اس وجہ سے وہ دستاویزات پیش کرانے سے قاصر ہیں کہ حکومت نے خود انھیں وہ دستاویزات مہیا نہیں کراۓ ہیں ،
24جون 2025 کو جب یہ فرمان جاری ہوا اور ٹھیک الیکشن سے تین ماہ قبل ہوا تو بے چینی اور بے سکونی ہر جگہ دیکھی جانے لگی،اس عظیم امور کو انجام دینے کیلئے اس قدر قلیل مدت کی ودیعت باعث درد سر ہی ہے،الیکشن کمیشن آف انڈیا کو اس فیصلے کو واپس لینا چاہیئے اور اس کے لیے اپنے ووٹر آئ کارڈ،آدھار کارڈ،پین کارڈ،راشن کارڈ،بینک اکاؤنٹ،پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات کو شہریت کے ثابت کرنے کے لیے کافی مان لینا چاہیئے تاکہ شہری سکوں سے راۓ دہی کا استعمال کرسکیں تاکہ عوام یہ سمجھ سکے کہ یہ ووٹ بندی نہیں نظر ثانی ہے