از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری
کئی سال قبل مجھے اے آئی نے اس وقت متوجہ کیا تھا جب فیسبک مالک کی طرف سے اس ضمن میں غیر معمولی سرمایہ کاری کی خبر آئی تھی، میں نے تکمیل ادب کے طلبہ سے کہا کہ اے آئی کے خدوخال بے شک واضح نہیں؛ لیکن اگر مارک زکر برگ اس تیاری کے ساتھ جست پر آمادہ ہے تو محیر العقول دریافت یقینی ہے، یہ سرمایہ پرست کمپنیاں لنگڑے گھوڑے پر داو نہیں لگا تیں اور جب فرات کے خزانے جھانکنے لگتے ہیں تو ان کا پاگل پن دیدنی ہو جاتا ہے۔
سر دست جس طرح دیوہیکل ٹیکنالوجی کمپنیاں مصنوعی ذہانت پر سرمایہ لگا رہی ہیں، اس پر حدیث کی کتے اور مردار والی تمثیل موزوں تر ہو گئی ہے، چار بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں: میٹا، گوگل، مائکروسافٹ اور امازون آئندہ سال پانچ سو ارب ڈالر مصنوعی ذہانت پر صرف کرنے والے ہیں، یہ خود تعلیم سمیت انسانی وسائل کے امریکی بجٹ سے بھی زیادہ ہے، خازنِ روئے زمین ابن سلمان کے نیوم پروجیکٹ کا ابتدائی لائف ٹائم بجٹ یہی عدد تھا جو صرف ایک سال کے لیے مختص کیا جا رہا ہے؛ لہذا کوئی ابہام میں نہ رہے، دنیا گوگل کے بعد مصنوعی ذہانت میں منتقل ہو کر رہے گی۔
یہ خوش فہمی ہے کہ مشینی دماغ قدرتی دماغ سے کہتر رہے گا، دونوں کے درمیان وہی فرق ہوگا جو ہوائی جہاز کی اڑان اور انسان کی پیدل چال کے درمیان ہے، اگر اس فرق سے خدا کی تخلیق پر حرف نہیں آیا تو مشینی دماغ کی سبقتوں سے بھی خدا کی شان متاثر نہیں ہوگی، انسان کی پیداوار بالواسطہ خدا ہی کی تخلیق ہے، قرآن نے سورۂ واقعہ میں اس نکتے پر انسان کو جھنجھوڑا ہے اور پیداوار کے باب میں اس کی غلط فہمی دور کی ہے، یہ ایک بمقابلہ آٹھ ارب دماغ کا قضیہ ہے، آپ ایک کھوپڑی سے کام لیتے ہیں اور مشینی کھوپڑی میں آٹھ ارب ذہانتوں کا ڈاٹا بہ یک ساعت موجزن ہوگا۔
کہتے ہیں کہ اے آئی دست یاب ڈاٹا پر منحصر ہے؛ اس لیے غلطیوں کا امکان بہت بڑھا ہوا ہے، یہ بات حد درجہ سادگی میں کہی گئی ہے، گویا انسانی دماغ غیر دست یاب ڈاٹا تک بھی وسیع ہے! بھائی! وہ بھی مہیا معلومات تک محدود اور منحصر ہے، چلو اس کے ذرائع کا بھی تجزیہ کر لیتے ہیں، مشاہدہ اس کا متاع فخر ہے، رابطۂ معلومات میں وہ اصل الاصول ہے؛ لیکن کتنے ہی مشاہدے ناقص ہیں، تو ان پر مبنی رپورٹ کیسے جامع ہو سکتی ہے؟ سماعت میں خلل مزید متوقع ہے، اس کی فراہمی بھی حتمی نہیں ہو سکتی۔
حافظے کا حال سب کو معلوم ہے، عوارض صحت، نیند، تعب اور طبیعت کا انشراح اور انقباض بھی لگا ہوا ہے، پھر ادعائے قطعیت اور زعم برتری کیسا؟ ہمارا ذہن ہمہ جہت نارسا، عاجز، منحصر اور محتاج ہے، مصنوعی دماغ میں یہ موانع ندارد ہوں گے، وہ مشین ہے، جسمانی عوارض سے مبرا، مامور بہ میں یکسو، اربوں ذہانتوں پر حاوی، متضاد معلومات کے دوران درست کی تعیین میں برق، تجزیہ کی سرعت، ثبوتوں کی بنیاد پر غلط کی چھنٹائی، غیر جانبدار، جذبات کی کمزوری سے منزہ، کام کے تئیں مخلص، دباؤ سے ماورا۔
مشینی دماغ انسانی دماغ سے آگے ہوگا بات یہاں ختم نہیں ہوتی، دونوں کے مابین موازنہ نہیں رہ جائے گا مدعا یہ ہے، انسان اور انسانیت کے لیے فکر کرنے والے بالکل درست ہیں، لایغادر صغیرۃ ولاکبیرۃ ہو کر رہے گا، مصنوعی حیوان ہر میدان میں درآئیں گے، یاجوج ماجوج کا سماں ہوگا، اس مخلوق کا فائدہ بے پناہ ہوگا؛ مگر اس کے پروگراموں کی غلطیاں قاتل بھی ہوں گی، جاب کے لیے سہمے ہوے جان لیں گے کہ بے روزگاری بھی انھیں کے رحم وکرم پر ہوگی۔
غیر محدود ڈاٹا کی فراہمی اس کا امتیاز ہے، مرحلہ ارتقا میں ہونے کی وجہ سے ہنوز نابالغ ہے؛ لیکن آپشنز کے تنوع اور تکثر کی وجہ سے وہ بالغ جیسا برتاؤ ابھی بھی کر سکتا ہے، مثال کے طور پر ایک وقت مجھے غالب کے شہرۂ آفاق شعر:
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
نے بہت الجھایا، غالب کے تمام شارحین کی مراجعت کی؛ مگر تشفی نہ ہوئی، آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ دنیا یہ شعر سمجھے بغیر گنگنا رہی ہے، جیسے ہندی فلموں کے گانوں میں اردو تعبیرات کی صورت حال ہے، بس الفاظ کی نغمگی کفایت کر جاتی ہے، ایک روز اس شعر کو لے کر چاٹ جی پی ٹی کے درپے ہوا، اس نے ابتدا میں مسروقہ مفاہیم پیش کیے، میں اعتراض کرتا رہا اور اس ایقان کو دہراتا کہ غالب ایسا بے معنی شعر نہیں کہہ سکتا۔
میرے اعتراضات سے اس کو رہنمائی ملتی گئی، آخرش اس نے کہا کہ پھر مطلب یہ ہے کہ ہر فن پارہ وجود میں آکر ناخوش رہتا ہے کہ میں عدم میں بھلا تھا، خواہ مخواہ مجھے بنایا اور تخلیق کیا گیا، یہ صانع کی شرارت ہے، دوسرا مصرع اس تاثر کی دلیل ہے کہ نقش کیوں فریادی اور شاکی نہ ہو؟ جب کہ ہر نقش، ہر وجود اور ہر تصویر ناقص، کمزور اور عیب دار ہے، سب کا وجود کاغذی ہے، ہر وجود معدومیت کا قوی ترین امیدوار ہے، پھر ایسے وجود کی قواعد ہی کیوں کی گئی؟
اب جاکر غالب کی روح مطمئن ہوئی، یہ فرق ہے انسانی دماغ اور مشینی دماغ میں، شارح ایک دماغ سے سوچ رہا ہے، اس کے حساب کتاب محدود ہیں، ترتیبات مختصر ہیں؛ جب کہ مشین اربوں دماغ تک رسا ہے، اس کا ہل من مزید غیر منقطع ہے، آپ ماند ہو جائیں گے، اس کے راستے ختم نہیں ہو گے، مشینی دماغ کی صورت میں ایک بہت ہی بڑی ایجاد دستک دے چکی ہے، اتنی بڑی کہ ہمارا دماغ اس کی بڑائی کے شعور سے بھی کمتر ہے، اس کو ٹکر دینے کی تو بات ہی چھوڑیں!
انسان کا قلم خفت اٹھائے گا، روایتی مدرس ہار جائے گا، انسانی وسائل سے وابستہ کارگزاریاں مفت دستیابی کی ذلت اٹھائیں گی، بین اللسانی مہارتیں مذاق بن جائیں گی، نابالغ لیاقتیں بالغ ذہنوں کو شرم سار کریں گی، درسگاہوں کی تحقیقات حقیر ہو جائیں گی، روایتی محققین کے کشکول بے اثر ہو جائیں گے، تحقیق بازیچہ اطفال بن جائے گی، گوشۂ خانہ جامعات پر ہنسے گا، میڈیکل ریسرچ کا جمود ختم ہوگا، جن مہلک بیماریوں کے علاج پر بدستور ڈیڈ لاک ہے، اے آئی ان کی کھوج پوری کر کے بتائے گا کہ کمی تمہارے ریسرچ میں رہی، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی برحق تھا کہ ہر بیماری کی دوا لازما اتاری گئی ہے اور پھر خوش گوار سرپرائز کا وقت موعود روبرو ہوگا، جب ترقی یافتہ اے آئی قرآن اور قرآنیات کے مطالعے سے سرشار ہو کر کلمۂ شہادت ادا کرے گا، مخالف اور موافق آرا کا عالمانہ تجزیہ کر کے باطل کو شرمندہ اور حق کو شاد وآباد کرے گا، یہ تاریخ کے لیے بھی یاد گار ساعت ہوگی؛ کیوں کہ کمال وہی ہے جس کی شہادت میں دشمن خیمہ مجسم زبان بن جائے۔