دین کی مددگار جماعت

از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری

ہمارے فضلا تبلیغ پر برسنے کے لیے بہانے اچکتے ہیں، یہ رویہ اذیت ناک ہے، ہر کس وناکس جست لگاتا ہے، ہم تبلیغ کے رہین احسان ہیں، محسن کے تسامح اور تجاوز کی اصلاح مثبت رنگ میں کی جاتی ہے، ان کی عیب جوئی احسان فراموشی ہے، یہ حروف تبلیغی جماعت کے احسان مند ہیں، والد گرامی تاجر تھے، ان کو معاون درکار تھے، چچا جان امیر جماعت تھے، انھوں نے مدرسہ دکھایا، تبلیغیوں نے جان کی بازی لگا کر مسجدیں ہمارے لیے فتح کیں، میرے گردونواح میں چھ مساجد ہیں، ایک چھوٹی مسجد کے علاوہ سب دیوبندی ہیں، جماعتیوں نے مار کھائی اور یہ مسجدیں جیت کر دیوبند کو تفویض کیں، چھ مساجد کے علاوہ تین مصلے ہیں، سب تبلیغیوں نے قائم کیے ہیں۔

اسلام کے دامن میں مجددین کی کمی نہیں؛ مگر کام اور محنت کے رنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ مجدد کا نام مولانا الیاس علیہ الرحمہ ہے، ان کی تیار کردہ جماعت ایمان وعمل کی میزان میں صحابہ کی سب سے بڑی مثال ہے، ان دعوؤں کی تردید آسان نہیں، جہنم کی گرم بازاری کے دور میں حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ کا نمود ہوا اور انھوں نے اپنی فنائیت اور فدائیت سے جنت کو گرم بازار اور جہنم کو کساد بازار بنا دیا۔

تبلیغیوں سے تصادم کا حل اپنائیت کے رنگ میں تلاش کریں، راقم نے محلہ بڑ ضیاء الحق دیوبند میں قیام کے دوران مسجد عالی شان میں دس سال تفسیر بیان کی، ابتدا میں عشا کے بعد والا وقت میری ترجیح تھی، تبلیغی بھائیوں نے مشورے وغیرہ کا عذر رکھا، ان کے نکات اہم نہیں تھے؛ مگر میں نے ان کی بات رکھ لی اور فجر بعد کا وقت منتخب کیا، دس سالہ میعاد میں پچیس پاروں کی تفسیر ہوئی، تبلیغ کے تمام احباب پابندی سے شریک رہتے، کبھی کوئی ناگواری پیش نہیں آئی، دارالمدرسین کی تعمیر کے بعد ادھر منتقل ہوا تو سلسلہ موقوف ہوا، فجر کی نماز میں وہاں پہنچنا مشکل تھا۔

تبلیغ ایک مستقل راہ ہے، خود مدارس با ہم شاکی ہیں؛ جب کہ مدارس کا طریق ایک ہے، میں یک مشربی مدارس کی مثال دے رہا ہوں، دوریاں غیر معمولی ہیں؛ لیکن ہم سکوت اختیار کرتے ہیں، صرف اس لیے کہ مخالف بھی منہ میں زبان رکھتا ہے، ہاں تبلیغی بے زبان ملے، اصلاح کا گرز ان پر بے رحمانہ چلتا ہے، یہ اپنے ہیں، ان کی گرفت دوستانہ ہو، دو مدرسے متفق نہیں، تبلیغ تو پھر جداگانہ منہج ہے۔

نظریاتی کام کی فطرت یہ ہے کہ وہ غلو اور مبالغے کے بغیر قائم نہیں ہوتا؛ حالاں کہ غلو ممنوع ہے، یہ اعتراض سب پر وارد ہے، قدیم محدثین پر بالخصوص، ان کے احوال محفوظ ہیں، جس سرگذشت کو ہم قربانی کہتے ہیں اس پر سنجیدہ شرعی اشکال ہیں، حقوق متاثر ہوے، جس حد تک وہ گئے وہ صریح تجاوز ہے؛ لیکن اسی مبالغے نے دین زندہ کیا، کام ایسے ہی ہوتا ہے، کوئی اہم مضمون پورا کرنا ہو تو رات کالی ہوتی ہے، یہ بھی شرعا منع ہے، حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ تو تبلیغ کے ماسوا گفتگو سننے کے متحمل نہیں رہ گئے تھے، بیمار ہو جاتے تھے۔

جس طرح دو مدرسوں کے تعصب اور تحزب سے فرقے نہیں بنتے؛ اسی طرح اہل حق کی جماعتوں کے جداگانہ رنگ وآہنگ سے فرقہ وجود میں نہیں آتا، ہاں وہ اپنے کام کی افضلیت پر مصر ہوتے ہیں اور یہ دعوی سب جگہ ہے، میں ایک تنظیم سے اگر وابستہ ہوں تو الگ سے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میرے نزدیک وہی تنظیم سب سے افضل ہے، فنائیت اور فدائیت کے بغیر کوئی نقش وجود میں نہیں آیا، وہ عمل میں آگے نکل گئے ہیں، آپ پیچھے رہیں گے تو الزام تو آئے گا، پھر آپ بے تکی باتیں کرتے ہیں، ایک تبلیغی بھائی نے بتایا کہ فلاں مسجد کے امام صاحب بر سر منبر کہہ رہے تھے کہ میرا سونا تمھاری رات بھر عبادت سے افضل ہے، تبلیغی کارکنان ہدف تھے۔

تبلیغی سادہ لوح ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ اعراب کہلاتے تھے، آپ ان کی سادگی کے قدردان تھے، لا ازید ولا انقص کو قبول کر لیتے تھے، جب کہ یہ واجب التاویل ہے، ان کی تعبیرات میں تحقیق وتنقیح ممکن نہیں، یہ علما کی شان ہے، بیشتر گرفت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی بات کہہ نہیں پاتے، یہ جواب دہی بھی اہل علم کی ہے، وہ اس تنقیح کے اہل نہیں کہ ہر میدان کی اہمیت ہے اور ہر میدان کے رجال کار ہیں، وہ مینڈک ہیں اور ماورا سے بے خبر اور بے نیاز ہیں؛ مگر آپ فرق کے اہل ہیں، آپ کی بے جا عیب جوئی لائق عذر نہیں۔

کل ہماری مسجد کی جماعت کمیٹی نے طلبہ یعنی عصری اداروں کے اسٹوڈنٹس کا جوڑ رکھا تھا، از عصر تا عشا مسجد میں ایمان کی باد بہار دیدنی تھی، رمضان کا سماں رہا، اس فرق کے ساتھ کہ رمضان میں ہر عمر کے نمازی ہوتے ہیں، کل بیشتر مجمع نو عمر تھا، تبلیغ کی کراؤڈ پلنگ طاقت منفرد ہے، ہمارے اشتہار بھی کم پڑ جاتے ہیں اور ان کا خفیہ نیٹ ورک اجتماع گاہ بھر دیتا ہے، حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ کی کرامت دیکھی کہ ماڈرن ماحول کے نوجوان کرتے پائے جامے اور جبے میں تھے، ان کا دم گرم ہے کہ جدید طبقہ باریش ہو جاتا ہے، ڈاڑھی، نماز، لباس، پردہ، بچوں کی مذہبی تعلیم اور دین کے تمام مظاہر میں ان کی سبقت بانی تبلیغ کے اعمال نامے کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔

میں 1997 اور 1998 میں دو مرتبہ چلے کی جماعت میں گیا تھا، یہ طلبۂ دارالعلوم کی تعطیل کلاں والی جماعت تھی، زندگی کا بہترین روحانی تجربہ ثابت ہوا، جماعت کی سرگرمیوں کے جلو میں انفرادی ترقی ہوئی تھی، تہجد کی پابندی عام تھی، یاد ہے کہ رونا بھی نصیب ہوتا تھا، میرے یہ دو چلے ازدواج میں کام آئے، سسرال کٹر تبلیغی ہے، نانا سسر سینئر ترین ذمے دار تھے، نوے سال کی عمر میں جماعت ہی میں اللہ کو پیارے ہوے، جمعے کا دن تھا، عصر کی سنتوں کے بعد فرض کے منتظر تھے بے توازن ہوگئے، سسر صاحب فنا فی التبلیغ ہیں، اس نسبت سے براعظموں کے راہ نورد ہیں، میرے رشتے کے وقت ایک سال کی بحث اٹھی تھی؛ مگر میری خصوصیات کے پیش نظر دو چلے کافی مان لیے گئے، میری بچی تبلیغ میں چلنے کا مزہ دیکھ نظم چلا کر میرے قریب کر دیتی ہے، یہ سب غلو ہے؛ مگر میں انجوائے کرتا ہوں، یہ اپنے ہیں اور اپنے کام کی دعوت دیتے ہیں۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔