تحریر: جاوید اختر بھارتی
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
آجکل سوشل میڈیا پر اور اخباروں میں دلت مسلمان اور پسماندہ مسلمان کا لفظ خوب نظر آرہا ہے ایک وقت تھا کہ جب کوئی شخص پسماندہ مسلمانوں کی بات کرتا تھا تو مذاق اڑایا جارہا تھا لیکن کہنے والے نے کہا تھا کہ ایک دن پورے ملک میں لفظ پسماندہ گونجے گا اور آج وہ بات سچ ثابت ہوئی یعنی لفظ پسماندہ چل پڑا ہے اور اب رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے بلکہ اب تو دلت مسلمان کا لفظ بھی بڑے اچھے اچھے لوگوں کی زبان سے ادا ہورہاہے پارلیمنٹ سے لے کر اسمبلی تک اور شاہراہوں سے لے کر اسٹیج تک دلت مسلمان اور پسماندہ مسلمان کی بات ہورہی ہے اور ہونی بھی چاہئے بلکہ بہت پہلے ہی سے ہونی چاہئے تھی بہر حال جب سے جاگو تب سے سویرا ۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک کے آئین کے تحت مذہبی بنیاد پر ریزرویشن نہیں ہے بلکہ سچائی پر مبنی ایک لکیر کھینچی گئی ہے اور اس لکیر اس دائرے میں ایسے لوگ ہیں جو سیاسی وسماجی اور تعلیمی اعتبار سے پیچھے رہ گئے ہیں اور یہ بھی سچائی ہے کہ ان کو پیچھے رکھا بھی گیا ہے اور اس سماج کی آبادی پچاسی فیصد ہے اور اسی کو پسماندہ ( بیک ورڈ) کہا جاتا ہے۔
مسلمانوں میں کچھ برادریاں ایسی ہیں جو دلت کے زمرے میں آتی ہیں اور ایسی بھی برادریاں ہیں جو پیشے کے اعتبار سے مذہبی بنیاد پر ایک جیسی ہیں بس کچھ کے نام الگ الگ ہیں اور کچھ کے نام بھی ایک جیسے ہیں مثلاََ دھوبی، نٹ، کھٹک، پاسی، حلال خور، موچی وغیرہ وغیرہ یہ دلت میں آتے ہیں اور جب آئین مرتب ہوا تو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے ان برادریوں کو دلت کے زمرے میں رکھا اور انہیں مخصوص سہولت فراہم کی اس میں مذہبی پابندی نہیں رکھی اور یہ سہولت جس دفعہ کے تحت فراہم کی گئی وہ دفعہ 341 کہلائی لیکن 10 اگست 1950 کو کانگریس کے دور حکومت میں اس دفعہ 341 میں پیرا 3 کا اضافہ کرکے مسلمانوں کی ان برادریوں کو اس مخصوص سہولت یعنی دلت ریزرویشن سے محروم کردیا گیا ،، اب یہیں سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مذہبی بنیاد پر ریزرویشن نہیں ہے تو مذہبی بنیاد پر ریزرویشن پر پابندی کیوں ہے اور آج کانگریس سینہ ٹھونک ٹھونک کر پسماندہ ہندو مسلم کی بات کرتی ہے لیکن اپنی اس کارستانی کا ذکر آج بھی نہیں کرتی ہے پھر کیسے مان لیا جائے کہ پسماندہ مسلمانوں کے تئیں کانگریس کی نیت صاف ہے اور پسماندہ مسلمانوں کی لڑائی لڑنے والے جو کانگریس میں شامل ہوئے ہیں وہ بھی بتائیں کہ کانگریس میں ان کی شمولیت کا مقصد کیا ہے کیا کانگریس نے اپنی 1950 کی غلطی کی معافی مانگ لی ہے؟ کیا کانگریس نے کہا ہے کہ ہماری حکومت بنی تو ہم اپنی اس غلطی کا ازالہ کریں گے اور دفعہ 341 پر لگی مذہبی پابندی کو ختم کریں گے اور ہندو دلتوں کی طرح مسلم دلتوں کو بھی ریزرویشن دیں گے ؟
یہ بھی سچائی ہے کہ 1950 میں جب دلت مسلمانوں کے ریزرویشن پر پابندی عائد کی گئی تو اس وقت کے بڑے بڑے مسلم سیاسی لیڈران نے اس کی مخالفت نہیں کی اور اس کے بعد بھی طویل عرصے تک مخالفت نہیں کی گئی اور آج بھی مسلمانوں کے نام پر بنی بڑی بڑی تنظیموں میں سے بہت سی تنظیمیں خاموش ہیں جبکہ ان تنظیموں کا وجود انہیں سماج کی بدولت برقرار ہے وہ تو جب خود پسماندہ و دلت مسلمانوں نے کمیٹیاں بنائی تو ان تنظیموں میں سے کچھ نے لب کشائی کرنا شروع کیا اور تنظیموں کے ذمہ داران بہت دنوں تک سبھی مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کی مانگ کرتے رہے اور سارے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر بتاتے رہے جبکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں ہے اس طرح ان کی بھی نیت شک کے دائرے میں تھی ۔
بہر حال اب تو لفظ پسماندہ چل پڑا ہے تو جو لوگ پہلے سے چلارہے تھے وہ تو آج بھی چلارہے ہیں لیکن جو مخالفت کررہے تھے اب وہ بھی لفظ پسماندہ چلانے کی کوشش کررہے ہیں ،، اس سال 10 اگست کو کسی نے یوم سیاہ منایا تو کسی نے بتی گل اندھیرا کرنے کی اپیل کی مختلف پارٹیوں اور سماجی شخصیات و تنظیموں نے جلوس نکالا اسٹیج لگایا اور مطالبہ کیا کہ دفعہ 341 سے مذہبی پابندی ہٹائی جائے۔
10 اگست 1950 کو اس وقت کی کانگریس حکومت کے ذریعے خصوصی آرڈیننس کی مدد سے آئین کی دفعہ 341 میں ترمیم کرکے مذہبی پابندیاں مسلم اور عیسائی مذہب کے دلت طبقات کے ریزرویشن ختم کرنے کے خلاف مختلف اضلاع کے ہیڈکوارٹر پر مظاہرہ ہوا اور ضلع انتظامیہ کے توسط سے وزیر اعظم کے نام میمورنڈم بھی دیا گیا۔
دلت مسلمانوں کے ریزرویشن کے لئے آوازیں تو اب اٹھ رہی ہیں لیکن آج بھی ان پلیٹ فارموں سے آواز بلند نہیں ہوتی جس پلیٹ فارم سے کبھی ملک و ملت بچاؤ کانفرنس کی جاتی ہے ، کبھی تحفظ جمہوریت کانفرنس کی جاتی ہے ، کبھی تحفظ مدارس کانفرنس کی جاتی ہے ، کبھی کل مذاہب کانفرنس کی جاتی ہے اور ایک اسٹیج پر سبھی مذاہب کے رہنماوں کو بلایا جاتا ہے اس پلیٹ فارم سے اور اس اسٹیج سے کبھی دلت مسلم ریزرویشن کی آواز نہیں اٹھائی جاتی ، کبھی پسماندہ و دلت مسلم تحفظ کانفرنس نہیں کرائی جاتی آخر کیوں ؟
اور جب اس پلیٹ فارم سے دلت مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کی آواز نہیں اٹھائی جاتی ہے اور دفعہ 341 پر عائد مذہبی پابندی ہٹانے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ہے تو پھر اسی پلیٹ فارم کے ذمہ دار انفرادی طور پر مختلف اسٹیج سے دلت مسلمانوں کے ریزرویشن کی بات کیوں کرتے ہیں؟ یہ سستی شہرت کا بھوکا پن نہیں تو اور کیا ہے یہ معاملہ اور یہ بات اور نام نہاد مسلم لیڈران کا طرز عمل دلت و پسماندہ مسلمانوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ جو بات انفرادی طور پر خطاب میں کہا جاتا ہے اسی بات کو اپنے پلیٹ فارم اور اس تنظیم کے بینر تلے اس اسٹیج سے کہنے سے پرہیز کیوں جاتا ہے اور شرم کیوں محسوس کیا جاتا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آزادی کا بنیادی مقصد ملک کے تمام طبقات کو سیاسی ، سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی بیداری و ترقی کے لئے یکساں مواقع فراہم کرنا تھا اور اسی وجہ سے مذہب ، ذات برادری ، طبقے ، نسل، جنس زبان کی تفریق کے بغیر تمام طبقات کی پسماندگی کو دور کرنے اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے صدیوں سے ناانصافی کا شکار رہنے والوں کو ریزرویشن جیسی سہولت فراہم کی گئی لیکن جواہر لعل نہرو کی قیادت میں آزاد ہندوستان کی پہلی کانگریس حکومت نے سماج کے مختلف دلت طبقات کے ساتھ امتیازی سلوک کیا اور ریزرویشن سے متعلق آئین کے آرٹیکل 341 میں ترمیم کرکے مذہبی پابندیاں لگا دیں۔
جواہر لعل نہرو حکومت نے 10 اگست 1950 کو خصوصی آرڈیننس پاس کیا، آرٹیکل 341 میں یہ شرط لگادیا کہ ہندو مذہب کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے درج فہرست ذات کے لوگ ریزرویشن کے اہل نہیں ہوں گے جبکہ نہرو حکومت کا یہ فیصلہ پوری طرح آئین کی خلاف ورزی تھا اب یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مذہبی بنیاد پر ریزرویشن نہیں تو مذہبی بنیاد پر پابندی کیوں ؟ اور دوسرا سوال یہ بھی ہوتاہے کہ اس وقت کے مسلم سیاستداں خاموش کیوں ؟
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے سینے میں اپنی قوم کا درد تھا جس کے لئے انہوں نے سہولت دی مگر دائرہ اتنا وسیع رکھا کہ مذہبی پابندی نہیں رکھی بلکہ جو بھی اس زمرے میں آئے سب کا بھلا ہوسکے لیکن مسلم سیاستدانوں کے سینے میں اپنی قوم کا درد نہیں تھا اگر ہوتا تو زبان بند نہیں رہتی ،، یہاں تک کہ 1956 میں سکھوں اور 1990 میں بدھ مذہب کے ماننے والوں کو نئی ترامیم کے ذریعے اس فہرست میں شامل کرلیا گیا لیکن پھر بھی مسلم اور عیسائی دلتوں کو اس فہرست سے باہر رکھا گیا پھر بھی مسلم رہنمائے سیاست خاموش رہے نتیجہ یہ ہوا کہ یہ دونوں دلت طبقہ ہندو ہم پیشہ ہوکر بھی ریزرویشن سے محروم ہے۔
ہاں یہ بھی ایک المیہ ہے کہ مسلمانوں کے دبے کچلے لوگوں کی کوئی تنظیم بھی بنتی ہے تو کچھ ہی دنوں میں اسی نام کی درجنوں تنظیمیں بن جاتی ہیں جیسے بہت پہلے ایک مومن کانفرنس تھی لیکن 1990 کے بعد درجنوں مومن کانفرنس بن گئی اور درجنوں قومی صدر ہوگئے ،، انڈین بیک ورڈ مسلم کانفرنس بنی ، آل انڈیا بیک ورڈ مسلم موچہ بنا، 2000 کے آس پاس میں آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ بنا اور آج درجنوں آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ ہے ، درجنوں قومی صدر ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ پسماندہ و دلت مسلمان آج بھی سیاسی شعور و سیاسی بیداری سے محروم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پسماندہ مسلمان تنظیم کو فعال بنانے اور اس کا دائرہ وسیع کرنے کے بجائے اپنا قد وسیع کرنے میں لگ جاتا ہے ،، سرکاری وسائل ملنے کے بعد بھی تنظیم کو فعال اور وسیع نہیں کیا جاتا اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہماری جتنی پہنچ ہے اس پہنچ تک دوسرا نہ پہنچے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ راہ ہموار ہونے کے بعد بھی سارا کھیل بگڑ جاتا ہے پھر عوام کا اعتماد حاصل کرنا مشکل ہوجاتاہے اور راقم نے ایسا ماحول ، ایسا منظر اور ایسا طرز عمل خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔