صحت و مرض اور اسلامی ہدایات

از:- محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ

راقم الحروف کو دل کے عارضہ کیساتھ ذیابطیس ( شوگر) کی شکایت ہے ، ہارٹ کی سرجری کے بعد ہمارے اکثر ساتھیوں عزیزوں ،مہربانوں اور مخلص کرم فرماؤں کا مشورہ یہی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ آرام کریں ،سفر سے احتیاط کریں ، کوئی مشکل اور محنت والا کام نہ کریں۔

ان سب کے مخلصانہ مشورہ پر حتی المقدور عمل کرتے ہیں اور سفر سے بہت احتیاط کرتے ہیں ،سال رواں ابھی تک ایسا کوئی سفر نہیں کیا کہ ہم شرعی مسافر ہو گئے ہوں ۔ لیکن ایک جگہ رہتے رہتے بھی طبیعت اکتا جارہی تھی ، اس لیے گزشتہ کل 14/ اگست کو لکھنؤ اور پھر 15/ اگست کو بہرائچ کے دو روزہ سفر پر بعض دوستوں اور شاگردوں کی دعوت پر نکل گئے، تاکہ طبیعت کو کچھ فرحت اور دل کو انبساط حاصل ہو، عزیزم صفوان قمر شیبانی سلمہ کو ساتھ لے لیا کہ سفر میں کسی طرح کی دقت نہ ہو ۔ پہلی منزل لکھنؤ تھی رات معہد سکروری میں قیام کے بعد صبح نو بجے بہرائچ پہنچے، وہاں جانے کے بعد اچانک معلوم ہوا کہ آج صبح مفتی مولانا ذکر اللہ صاحب سابق استاد مدرسہ نور العلوم بہرائچ کا انتقال ہوگیا ہے، پہلے بدورا میں مولانا محمد شبیر قاسمی صاحب کے مدرسہ میں پندرہ اگست کی مناسبت سے پروگرام میں تقریر کی اور پھر وہاں سے بہرائچ شہر کے لیے روانہ ہوا ۔

جمعہ کی نماز جامع مسجد میں ادا کیا اور بعدہ مولانا کے جنازہ میں شرکت کی مجمع اتنا زیادہ تھا کہ کئی گھنٹے تک لوگ مٹی دیتے رہے، مولانا مشہور عالم دین اور مبلغ و واعظ تھے اور ہزاروں علماء کے استاد بلکہ استاذ الاساتذہ تھے، ہر ایک کی زبان پر ان کی خوبیوں کا تذکرہ تھا ، ان کے بہت سے شاگردوں کو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں اور آنکھیں اشک بار ہیں۔

بہر حال اس سفر کے حوالے سے ہم کچھ تاثرات بعد میں لکھیں گے ۔ ان شاءاللہ

لیکن آج کچھ صحت و عافیت اور مرض کے تعلق سے اسلامی ہدایات کا ذکر کریں گے ،عام طور پر آدمی جب بیمار ہو جاتا ہے، تو بیماری کو ایک ٹینشن بنا لیتا ہے اور بیماری کو اپنے اوپر سوار بلکہ حاوی کر لیتا ہے ، پرہیز دوا و علاج یقینا ضروری ہے ، لیکن بیماری کو اپنے اوپر حاوی کرلینا کہ اٹھتے بیٹھتے ہر وقت اس کو یہ خیال ہو کہ ہم بیمار ہیں، اب کیا ہوگا ،اب ہم اب کسی لائق نہیں رہے، یہ سوچ اور خیال درست نہیں ہے، اس سے انسان اور زیادہ نفسیاتی مریض ہو جاتا ہے ۔ آج کی مجلس میں ہم صحت و مرض کے تعلق سے کچھ اسلامی ہدایات ذکر کرنا چاہتے ہیں۔

دوستو !

اسلام نے صحت و عافیت اور مرض دونوں کے بارے میں نہایت متوازن،جامع اور حکمت بھری ہدایات دی ہیں۔
قرآن و حدیث میں مومن بندے کو اس بات کا شعور دیا گیا ہے اور یہ باور کرایا گیا ہے کہ صحت اللہ کی بڑی اور اہم نعمت ہے اور بیماری بھی اس کے حکم و حکمت سے ہی آتی ہے، اور دونوں حالتوں میں مومن کا رویہ ایمان، شکر اور صبر و عزیمت پر مبنی ہونا چاہئے۔

. صحت و عافیت کے بارے میں اسلامی ہدایات حسب ذیل ہیں ۔

  • 1. صحت کی قدر کرنا

نبی ﷺ نے فرمایا:
"دو نعمتیں ہیں جن میں بہت سے لوگ دھوکے میں ہیں: صحت اور فراغت”
(بخاری، حدیث: 6412)
یعنی انسان صحت کے وقت اس کی قدر نہیں کرتا، حالانکہ یہ عبادت، خدمت اور نیکیوں کے لیے سنہری موقع ہے۔

  • 2. صحت کی حفاظت کے لیے اسباب اختیار کرنا

اسلام محض دعا پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ علاج، صفائی، پرہیز اور ورزش کی ترغیب دیتا ہے۔

قرآن میں ہے:
"اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو” (البقرۃ: 195)
یعنی نقصان دہ کھانے پینے یا بے احتیاطی سے اپنی صحت خراب نہ کرو۔

  • 3. تندرستی کو نیکیوں میں استعمال کرنا

حدیث:
"پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو… اپنی صحت کو بیماری سے پہلے” (حاکم، مستدرک)

مرض کے بارے میں اسلامی تعلیمات

  • 1. بیماری اللہ کی طرف سے آزمائش ہے

قرآن:
"اور ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے… تھوڑی سی خوف، بھوک اور مال، جان اور پھلوں کے نقصان سے” (البقرۃ: 155)
مومن کا عقیدہ ہوتا ہے کہ بیماری کفارۂ گناہ اور درجے کی بلندی کا ذریعہ ہے۔

  • 2. صبر اور ہمت کا حکم

نبی ﷺ نے فرمایا:
"جب مومن کو کوئی تھکن، بیماری، غم، رنج، تکلیف یا پریشانی پہنچتی ہے، یہاں تک کہ کانٹا بھی چبھتا ہے، اللہ اس کے بدلے میں اس کے گناہ مٹا دیتا ہے” (بخاری و مسلم)

  • 3. بیماری میں بددلی اور ناامیدی نہیں

قرآن:
"اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو” (الزمر: 53)

  • 4. علاج کرانا سنت ہے

حدیث:
"اللہ نے کوئی بیماری نازل نہیں فرمائی مگر اس کا علاج بھی پیدا کیا ہے” (بخاری، حدیث: 5678)
یعنی علاج کرنا شریعت میں جائز اور مستحب ہے، مگر دل میں یقین رکھنا چاہیے کہ شفا اللہ کے حکم سے ہے۔

  • 3. مومن کا رویہ مرض میں

  • 1. صبر – زبان سے شکایت نہ کرنا، دل میں اللہ کی رضا پر راضی رہنا۔
  • 2. شکر یہ سوچنا کہ یہ بیماری بھی گناہوں کی معافی اور آخرت میں بلند مقام کا ذریعہ ہے۔
  • 3. دعا و ذکر مسنون دعائیں کا اہتمام، جیسے:
  • "اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ أَذْهِبِ البَأْسَ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي”
  • 4. اچھا گمان رکھنا یعنی یہ یقین رکھنا کہ اللہ اس حالت میں بھی بھلائی پیدا کرے گا۔
  • 5. نیکی جاری رکھنا ،
  • 6. اگر عبادت میں کمی ہو تو نیت قائم رکھنا، اللہ اس کا اجر دے گا۔

اسلام صحت میں شکر اور بیماری میں صبر کی تعلیم دیتا ہے۔ صحت کو نیکیوں میں استعمال کرنا اور بیماری کو اللہ کی آزمائش سمجھ کر صبر، دعا، علاج اور امید کے ساتھ گزارنا یہ حقیقی مومن کی شان ہے اور یہی شریعت کا حکم اور منشا ہے۔
مولانا محمد نصیر الدین قاسمی صاحب نے اس تعلق سے بڑی حقیقت پر مبنی بات لکھی ہے،اسے بھی ملاحظہ کریں،حققیقت اور کھل کر سامنے آئے گی ۔
*زندگی کے اس وسیع اور پرپیچ سفر میں انسان کو نہ جانے کتنے مرحلے آتے ہیں،خوشیوں کے باغ اور غموں کے کانٹے، سکون کی صبحیں اور اضطراب کی راتیں۔ بیماری بھی انہی مرحلوں میں سے ایک ہے، مگر یہ بیماری صرف جسم کی نہیں ہوتی؛ دل کی بھی ہوتی ہے، دماغ کی بھی اور روح کی بھی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان خود اپنی صحت یابی کا فیصلہ نہ کر لے، کوئی طاقت، کوئی طبیب اور کوئی دوا اس کے درد کو مٹا نہیں سکتی۔*
ایک سچائی یہ ہے کہ بیماری صرف گوشت اور ہڈیوں کی کمزوری کا نام نہیں، بلکہ ارادے کےڈگمگانے، حوصلے کے ٹوٹنے اور امید کے بجھنے کا نام بھی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے طبیب اور ماہر معالج آپ کے جسم کا علاج کر سکتے ہیں، لیکن آپ کی روح اور ارادے کی بیماری کا علاج آپ کے اپنے دل کے اندر پوشیدہ ہے۔ جب تک دل میں یہ عزم نہ ہو کہ *”میں ٹھیک ہونا چاہتا ہوں”،* شفا کے دروازے بند رہتے ہیں۔

*دیکھیے! جب کوئی بیمار بستر پر پڑا ہو اور اس کی زبان پر مایوسی کے الفاظ ہوں، دل میں ناامیدی کا اندھیرا ہو، اور نگاہوں میں زندگی کی روشنی دھندلا گئی ہو، تو دوا کا اثر بھی ماند پڑ جاتا ہے۔ لیکن وہی بیمار اگر حوصلہ کر لے، دل میں عزم جگا لے، اور زندگی کو نئے سرے سے گلے لگانے کا فیصلہ کر لے، تو سب سے کمزور دوا بھی اس کے لئے معجزہ بن جاتی ہے۔*
یہ بات یاد رکھیے کہ انسان کا اپنا ارادہ ہی اصل دوا ہے۔ اچھی غذا، مناسب نیند، متوازن ورزش اور مثبت سوچ یہ سب اسی وقت اثر دکھاتے ہیں جب انسان اپنے دل میں یقین پیدا کر لے کہ وہ بہتر ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ صرف جسمانی علاج کافی نہیں، بلکہ روحانی و نفسیاتی سکون بھی ضروری ہے۔ ذکرِ الٰہی، دعا، اور اپنے رب سے تعلق وہ قوت عطا کرتے ہیں جو کسی بھی بیماری کے سامنے ڈھال بن جاتی ہے۔
*کتنے لوگ ایسے ہیں جو بظاہر لاعلاج بیماریوں میں مبتلا تھے، مگر انہوں نے امید کا دامن تھامے رکھا، مثبت سوچ کے چراغ جلائے رکھے، اور اپنے دنوں کو شکر و صبر سے سنوارا نتیجہ یہ ہوا کہ بیماری کی زنجیریں ٹوٹ گئیں۔ اس کے برعکس، کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو معمولی تکالیف کو بھی اپنی زندگی کا خاتمہ سمجھ بیٹھتے ہیں اور خود اپنی کمزوری کے قیدی بن جاتے ہیں۔
لہٰذا، شفا کی پہلی سیڑھی آپ کا اپنا فیصلہ ہے، فیصلہ کہ آپ کو جینا ہے، اور بہتر جینا ہے۔ آپ کا دل جب صحت کی طرف قدم بڑھائے گا، آپ کا دماغ مثبت لہروں کو قبول کرے گا، اور آپ کی روح اُمید کا گیت گائے گی، تو دنیا کی کوئی بیماری آپ کو زیر نہیں کر سکتی۔
*انسان اپنا طبیب خود ہے، اور اپنے علاج کا پہلا نسخہ وہ خود اپنے دل میں لکھتا ہے۔ یہ نسخہ ہے حوصلہ، یقین اور امید کا۔ جب یہ تینوں مل جائیں تو شفا قدم چومتی ہے اور زندگی ایک نئی بہار لے کر آتی ہے۔*

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔