از قلم: شمیم ریاض ندوی
محرک: مجلس علماء ملت، کشن گنج (بہار)
مثالی تعلیمی اداروں کی قلت
ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج معیاری اور مثالی تعلیمی اداروں کی کمی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ ہر ضلع میں دو طرح کے اعلیٰ ادارے قائم کیے جائیں:
- 1. لڑکیوں کے لیے الگ کالج
- 2. لڑکوں کے لیے الگ کالج
موجودہ دور فتنوں کا دور ہے۔ نسلوں کے عقائد، اسلامی نظریات اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اہلِ باطل نے تعلیم کے نام پر ایسے جال بچھا رکھے ہیں جہاں بڑے بڑے کیمپس، جدید سہولیات اور شاندار عمارتیں تو موجود ہیں، لیکن وہاں سے لوٹنے والے طلبہ اپنی تہذیبی بنیادوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ وہ ظاہری طور پر تو مسلمان رہتے ہیں لیکن فکری و نظریاتی اعتبار سے اسلام سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
لہٰذا ہمیں اپنے بچوں اور بچیوں کے لیے الگ الگ تعلیمی نظام قائم کرنا ہوگا۔ ہر بلاک میں آٹھویں جماعت تک تعلیم کا انتظام ہونا چاہیے، اس کے بعد کی تعلیم کے لیے ضلع کی سطح پر دو مرکزی ادارے کافی ہوں گے—ایک لڑکوں کے لیے اور ایک لڑکیوں کے لیے۔
ان اداروں کا مقصد صرف ڈگری دلانا نہیں، بلکہ مکمل نظریہ سازی، اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت، اور ملت اسلامیہ کے ساتھ ساتھ ملک کی خدمت کے لیے باصلاحیت نسل تیار کرنا ہونا چاہیے۔ یہ ادارے اتنے کامیاب ہوں کہ والدین کی پہلی خواہش یہی ہو کہ ان کے بچے انہی اداروں میں تعلیم حاصل کریں۔ حتیٰ کہ غیر مسلم والدین بھی اپنے بچوں کو ان میں داخل کروانے کو اعزاز سمجھیں۔
اسلام میں جو پاکیزگی اور روحانی بالیدگی ہے، وہ کسی اور نظامِ تعلیم میں نہیں ملتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ باطل خود بھی حق کی تلاش میں ہیں، مگر اہلِ حق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کوتاہی کر رہے ہیں۔
ضرورت ہے کہ ہم باتوں سے آگے بڑھیں، عملی میدان میں قدم رکھیں۔ کسی ایک ضلع سے آغاز کریں، پھر یہ تحریک پورے ملک میں پھیل سکتی ہے۔ آر ایس ایس کی مثال دینے کے بجائے ہمیں خود عملی نمونہ قائم کرنا ہوگا، کیونکہ بغیر عمل کے کامیابی ممکن نہیں۔
اقبال کے الفاظ آج بھی ہمارے لیے سبق ہیں:
"اقبالؔ بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا”