ووٹ چوری ایک سنگین جرم!

از:- مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

گناہوں کی قران وحدیث میں بہت مذمت کی گئی ہے ،اور جس کو لوگوں کے عرف میں بھی بہت مذموم سمجھا جاتا ہے،ان میں ایک چوری ہے،اصل میں چوری مالک کی اجازت کے بغیر ایسے مال کے چھپا کر لینے کو کہتے ہیں،جس کو اس نے حفاظت میں رکھا ہو،مثلا اپنے کمرے میں یا اپنے صندوق میں رکھا ہو،اور چوری کی جو شرعی سزا ہے:ہاتھ کا کاٹنا،وہ اسی نوعیت کے فعل پر ہے،اگر کوئی شخص بظاہر کسی غیر محفوظ جگہ سے کوئی چیز اٹھا لے،تو اگرچہ یہ بھی چوری ہے؛لیکن اس پر چوری کی سزا نافذ نہیں ہوتی ،چوری کی سزا کا ذکر خود قرآن مجید میں موجودہے، اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے:چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت اس کا ہاتھ کاٹ دو(مائدہ :۳۸)آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سزا کو نافذ بھی کیا ہے ،اور چور کا دایاں ہاتھ گٹوں سے کٹوایا ہے(مسلم عن عائشہؓ، حدیث نمبر: ۱۶۸۴، باب حد السرقۃ) اس سے اس جرم کی شناعت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، چوری اُن سنگین جرائم میں شامل ہے،جن کے لئے حدود مقرر ہیں اور اس کے مرتکب کو مقررہ سخت سزا دی جاتی ہے۔

حقیقت میں تو چوری کا تعلق مال کے لینے سے ہے، مگر بے جا طور پر چھپا کر کوئی چیز حاصل کرنے اور اپنی ذمہ داری میں کوتاہی برتنے کو بھی ’’چوری‘‘ کہا جاتا ہے،رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص بغیر دعوت کے کسی دعوت میں شریک ہو جائے،وہ آیا چور بن کر اور واپس ہوا غارت گر بن کر: دخل سارقا وخرج مغیرا (ابو داؤد ،حدیث‌ نمبر: ۳۷۴۱, باب ما جاء فی اجابۃالدعوہ)اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کی چوری کا ذکر فرمایا، اگر کوئ شخص نماز ادا کرے اس کے ظاہری افعال کو انجام دے؛ لیکن صحیح طریقہ پر رکوع سجدہ نہ کرے، تو‌ وہ بد ترین چوری ہے،(سنن دارمی عن ابی قتادہ،حدیث نمبر:۱۳۶۷)گویا اس نے اللہ تعالیٰ کے حق میں سے چوری کی ہے،ایسی چوریوں پر اگرچہ شرعی سزا نافذ نہیں ہوگی؛لیکن یہ بھی ایک سنگین جرم ہے،اور اس سے بچنا بھی ضروری ہے ، اسی طرح اگر کوئی مال اس طرح محفوظ نہ کیا گیا جیسے مثلا کؤی چیز بغیر قفل کے عوامی جگہ پر چھوڑ دی گئی،اور کسی نے اس کو بلا اجازت استعمال کر لیا،تو یہ بھی چوری کے دائرہ میں آتا ہے، جیسے بجلی کی چوری،ظاہر ہے بجلی کسی کمرے یا صندوق میں بند کر کے نہیں رکھی جاتی؛لیکن اگر کوئی شخص غیر مجاز طریقہ پر استعمال کرے اور اس کا بل ادا نہ کرے تو یہ بھی چوری میں شامل ہے،اسی طرح اگر حکومت کو اپنی آمدنی کے بارے میں صحیح معلومات فراہم نہیں کی گئیں، حکومت نے منصفانہ طور پر اس کی آمدنی میں جو ٹیکس رکھا ہے،اس کو ادا نہیں کرے ، اپنی دولت کو چھپائے اور غلط بیانی سے کام لے تو یہ بھی ٹیکس کی چوری ہے اور اس پر بھی انسان اللہ کے پاس جواب دہ ہو سکتا ہے، چوری کی بعض اور صورتیں بھی ہمارے سماج میں پائی جاتی ہیں،جن کا مال سے براہ راست تعلق نہیں ہے ؛مگر عرف میں ان کو چوری کہا جاتا ہے، جیسے امتحان میں کوئی امیدوار کتاب دیکھ کر پرچہ لکھے،یا کسی دوسرے کی مدد سے لکھے تو یہ بھی چوری کہلاتی ہے ، اسی طرح چوری کی ایک قسم وہ ہے،جس کا تعلق تصنیف وتالیف اور علمی سرمایہ سے ہے،کسی کی کتاب دوسرا شخص اپنے نام سے چھاپ لے،کسی کے مضمون کو اس کا حوالہ دیے بغیر اپنے نام سے شائع کر لے،کسی کی تحقیق کو اس کا ذکر کئے بغیر اپنی طرف منسوب کر لے، یا اپنی تحقیق کی حیثیت سے پیش کرے، یہ سب علمی سرقہ کی مختلف شکلیں ہیں اور یہ پہلے بھی پیش آتی رہی ہیں،ایک بڑے صاحب علم نے اپنے معاصر کی اس حرکت کو ہدف بناتے ہوئے ایک رسالہ ’’الفارق بین المصنف والسارق‘‘ تالیف کیا ہے،یہ اور اس طرح کی چوری کی بہت سی صورتیں ہیں، جس پر اگرچہ چوری کی شرعی سزا نافذ نہیں کی جا سکتی؛ مگر یہ ہے بہت مذموم اور شرمناک ، اور جھوٹ اور دھوکہ کے گناہ کو شامل ہے، موجودہ دور میں چوری کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے، جس کا نقصان مال و زر کی چوری سے بھی بڑھ کر ہے، اور وہ ہے ووٹ کی چوری ، یہ چوری چھوٹے موٹے غریب و مفلس اور ان پڑھ لوگ نہیں کرتے؛ بلکہ پڑھے لکھے، ذی حیثیت مالدار اور سماج میں اثر ورسوخ رکھنے والے افراد کرتے ہیں،اور اکثر اوقات اس چوری کا مقصد ہوتا ہے نا جائز طریقہ پر کسی عہدے کو ہتھیا لینا،جو اس کا اصل مستحق تھا اس کو اس سے محروم کر دینا، اور بے جا طریقہ پر اقتدار کی کرسی پر مسلط ہو جانا، جن ممالک میں آمرانہ نظام قائم ہے یا بادشاہت کا دور دورہ ہے، وہاں تو یہ چوری کھلے عام ہوتی ہے ؛ کیونکہ اس کو قانون اور دستور کا حصہ بنا‌ لیا گیا ہے، نہ کؤی زبان ہے جو اسے ٹوک سکے اور نہ کؤی قلم ہے جو اسے روک سکے؛ لیکن وہ ممالک جو جمہوریت اور سیکولرزم کا نعرہ لگاتے ہیں، اور یہ نظریہ ان کے دستور کا حصہ ہے، وہاں بھی مختلف طریقوں پر کہیں چھپ کر، کہیں زور زبردستی سے اور کہیں دھوکہ دہی کے ذریعہ اس عمل کو انجام دیا جاتا ہے، اس وقت ہمارا ملک اسی صورتحال سے دوچار ہے ، پورا ملک ووٹ چوری کے نعرے سے گونج رہا ہے، موجودہ حکومت نے اقتدار کے حرص میں ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر ہیر پھیر کی ہے، جو نام نہیں تھے انہیں شامل کیا گیا ہے ، جو نام‌ شامل تھے انہیں بلا وجہ نکال دیا گیا ہے ، اور دیدہ دلیری یہ ہے کہ جو لوگ اس کے مرتکب ہیں، وہ ووٹر لسٹ کی فہرست اور ووٹنگ کی الیکٹرانک رپورٹ بھی دینے کو تیار نہیں ہیں۔اس پس منظر میں بجا طور پر پورے ملک میں کہرام برپا ہے،اللہ کرے اس کا کچھ بہتر نتیجہ سامنے آئے۔

اگر ہم شرعی نقطۂ نظر سے غور کریں تو بعض اعمال کی حیثیت مقصود کی ہوتی ہے ، قرآن وحدیث میں متعین طور پر ان کا حکم دیا گیا ہے ، جیسے نماز و روزہ ، حج و زکوٰۃ وغیرہ ، بعض اعمال مقصود نہیں ہوتے ہیں ، ان کی حیثیت ذریعہ اور وسیلہ کی ہوتی ہے ، تو جو عمل جس بات کا ذریعہ ہو ، جو حکم اس کا ہوگا ، وہی حکم اس ذریعہ کا بھی ہے ، جیسے چلنا ایک عمل ہے ، اگر انسان اس لئے چلے کہ اسے نماز ادا کرنے کے لئے مسجد پہنچتا ہے ، تو اس کا یہ چلنا بھی عبادت کے درجہ میں ہے ، اوراسے ہر قدم پر نیکی ملے گی ، خود حدیث میں اس کا ذکر آیا ہے ، (مسلم، حدیث نمبر: ۶۵۴) اور اگر کوئی شخص شراب پینے کی نیت سے چلے اور اس کا قدم شراب خانہ کی طرف بڑھ رہا ہو ، تو صرف اس کا شراب پینا ہی گناہ نہیں ہے ؛ بلکہ شراب خانہ کی طرف جانا بھی گناہ ہے ، جوں ہی وہ گھر سے شراب خانہ کی طرف شراب پینے کی نیت سے نکلا ، اسی وقت سے گناہ کا عمل شروع ہو گیا ؛ اس لئے جس عمل کے بارے میں شریعت میں جائز و ناجائز یا پسندیدہ و ناپسندیدہ ہونے کا حکم صریحاً موجود نہیں ہو ، دیکھنا چاہئے کہ وہ کس بات کا ذریعہ بنتا ہے ، ایسی بات کا جو شریعت میں پسندیدہ ہے یا ایسی بات کا جو شرعاً ناپسندیدہ ہے؟

ووٹ کا حق حاصل کرنا اور موقع پر اس حق کا استعمال کرنا اس بات کا ذریعہ بنتا ہے کہ آپ اچھے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور سونپیں ، اور بُرے لوگوں کو کرسی اقتدار سے دُور رکھیں ، اور یہ ایک شرعی فریضہ ہے کہ جو شخص جس ذمہ داری کا اہل ہے ، اس کو وہ ذمہ داری سونپی جائے : ’’أنْ تُؤدُّوا لْاَمَانَاتِ اِلٰی اَھْلِھَا‘‘(النساء:۵۸) اور یہ بھی ضروری ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکا جائے ، جس کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کو اس مقام پر پہنچنے نہیں دیا جائے ، جہاں وہ دوسروں کے ساتھ ظلم ونا انصافی کا ارتکاب کر سکتا ہے : ’’ وَلَا تَرْکَنُوْا اِلَی الَّذِینَ ظُلِمُوا‘‘ (ھود:۱۱۳) اس لئے مسلمانوں کو نہ صرف ایک قومی فریضہ ؛ بلکہ ایک دینی فریضہ کی حیثیت سے بھی اس عمل کو دیکھنا چاہئے ، اور کوشش کرنی چاہئے کہ صد فیصد مسلمانوں کے نام ؛ بلکہ تمام شہریوں کے نام ووٹر لسٹ میں درج ہو جائیں۔

ہندوستان میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فرقہ پرست اور مسلم مخالف طاقتوں نے چوطرفہ حملہ شروع کر دیا ہے ، اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور کمزورکرنے کے لئے جتنے ہتھیار ہو سکتے ہیں ، وہ سب آزمائے جا رہے ہیں ، فسادات کرائے جاتے ہیں ، ہجوم کے ذریعہ قتل کی واردات پیش آرہی ہیں ، ذرائع ابلاغ کو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کی اجازت دی گئی ہے ؛ بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جار ہی ہے ، سوشل میڈیا کی ایک تربیت یافتہ فوج شب وروز جھوٹی خبریں پھیلانے کا کام کر رہی ہے ، غرض مختلف جہتوں سے اسلام ، مسلمان اور مسلم تاریخ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ، ان سب کے پیچھے اصل میں جو طاقت کام کر رہی ہے ، وہ ہے اقتدار کی طاقت ، اور ہندوستان جیسے ملک میں طاقت کا سرچشمہ ووٹ ہے ۔
اللہ تعالیٰ کاا رشاد ہے :
اور (اے مسلمانو!) ان کے مقابلہ جہاں تک ہو سکے ، طاقت اورگھوڑوں کی تیاری رکھو ، جن سے اللہ کے دشمن ، اپنے دشمن اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں پر بھی — جن کو تم نہیں جانتے ، اللہ جانتے ہیں — تمہاری دھاک قائم رہے اور جو بھی تم اللہ کے راستہ میں خرچ کروگے ، تمہیں پورا پورا دیا جائے گا ، اور تمہارے ساتھ حق تلفی نہیں ہوگی ۔ (الانفال:۶۰)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دشمن طاقتوں کے مقابلہ کے لئے اپنی صلاحیت اور طاقت کے ذریعہ تیاری کا حکم دیا ہے ، یہ بھی فرمایا گیا کہ یہ طاقت حاصل کرنا ظلم کے لئے نہیں ہونا چاہئے ، ایسا نہیں ہو کہ اگر تم کو طاقت حاصل ہو جائے تو تم دوسروں پر ظلم ڈھانے لگو ؛ بلکہ یہ اس لئے ہو کہ ان پر تمہارا رعب طاری رہے ، ان میں یہ جرأت نہ ہو کہ وہ تم پر یا دوسرے بے قصور لوگوں پر ظلم کریں ، تیسری بات یہ فرمائی کہ تمہارے کچھ دشمن کھلے ہوئے ہیں ، جو علانیہ طور پر تمہارے خلاف کام کر رہے ہیں ، کچھ ایسے دشمن بھی ہیں جو آستین کے سانپ ہیں ، جن کی عداوت اور منصوبہ بندی تمہارے سامنے نہیں ہے : تم انہیں نہیں جانتے ، اللہ ان کو جانتا ہے :’’لَا تُعَلِّمُونَھُمُ اللّٰهُ یُعَلِّمُھُمْ‘‘ (الانفال: ۶۰) اور دفاع کی تیاری کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی فضیلت بھی بیان کی ہے کہ جو کچھ اللہ کے راستہ میں خرچ کروگے ، اللہ تعالیٰ تمہاری طرف اس کو لوٹائیں گے ، یعنی اس کا اجرعطا کریں گے : ’’وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئِ فِيْ سَبِیلِ اللّٰهِ یُوَفّ إلَیْکُمْ‘‘۔ (الانفال: ۶۰)
اب اگر اس آیت کی روشنی میں غور کریں اور اسے ہندوستان جیسے ملک کے حالات پر منطبق کریں تو جو بات واضح ہوتی ہے ، وہ یہ ہے کہ یہاں دشمن سے مقابلہ اور اس سے مدافعت کا سب سے بڑا ہتھیار حق رائے دہی ہے ؛ اسی لئے مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں طاقت مہیا کرنے سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں ، جو کسی قوم کو قوت فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں :’’ ھذا عام في کل ما یتقویٰ بہ علی حرب العدو‘‘(مفاتیح الغیب:۱۵؍۴۹۹)مشہور مفسر علی بن محمد الشیحی خازن (م:۷۴۱) لکھتے ہیں کہ اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ ضرورت کے وقت دفاع کے لئے ضروری اسباب مہیا رکھے جائیں :’’ الإعداد اتخاذ الشئی لوقت الحاجۃ الیہ‘‘ (تفسیر خازن:۲؍۳۲۲) اور ایک جمہوری نظام میں دفاع کا ہتھیار حاصل کرنے اور اس کو محفوظ کرنے کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنا نام ووٹر لسٹ میں درج کرائیں کہ ووٹ ہی ہمارا ہتھیار ہے ۔
پھر اسی ارشاد سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ طاقت کا حاصل کرنا اور اس کا استعمال کرنا صرف ظلم سے بچنے کے لئے جائز ہے ، ظلم کرنے کے لئے جائز نہیں ہے ، مثلاً اگر کسی خطہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہو اور وہاں مسلمانوں کے ووٹ سے مسلم نمائندہ منتخب ہو جائے تو اس کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے حلقہ میں بسنے والے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کا سلوک کرے ، اگر اس نے ایساکیا تو نہ صرف ملک کے قانون ؛ بلکہ شریعت کی رُوسے بھی اس کا یہ عمل درست نہیں ہوگا ، تیسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ دفاع کی جو بھی جدوجہد ہو ، اس میں پیسہ خرچ کرنا باعث اجروثواب ہے ، ووٹر لسٹ میں ناموں کے اندراج کی جو مہم چلائی جا ئے ، اس میں مالی وسائل کی بھی ضرورت پیش آئے گی ؛ تاکہ اس کام کے لئے کچھ فعال لوگوں کی خدمات حاصل کی جائیں ، اس میں خرچ کرنا بھی کار ثواب ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ ظلم کو روکنے ، ظالم کا مقابلہ کرنے اور اپنا تحفظ کرنے کے لئے ممکن وسائل سے استفادہ فرمایا ہے ، مکہ میں اسلام سے پہلے قبائلی نظام قائم تھا ، نہ کوئی حکومت تھی ، نہ عدالت اور نہ کوئی قانون ، ہر قبیلہ اپنے قبیلہ کی حفاظت کیا کرتا تھا ، ظاہر ہے یہ مزاج کہ صرف ہم قبیلہ ہونے کی بنیاد پر کسی شخص کی حمایت کی جائے ، اور دوسرے کی مخالفت ، اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہے ؛ لیکن مکہ کے حالات کی بنیاد پر آپ ﷺ نے اسے قبول فرمایا ، اور قدیم نظام کے مطابق بنو ہاشم اور بنو مطلب نے آپ کی حفاظت فرمائی ، یہی وجہ ہے کہ ہجرت سے پہلے جب دشمنان اسلام نے نعوذ باللہ آپ ﷺ کے قتل کا منصوبہ بنایا تو طے کیا کہ اس ناشائستہ کام میں ہر قبیلہ کا نمائندہ شریک ہو ؛ تاکہ بنو ہاشم بدلہ نہ لے سکیں ، یہاں تک کہ جب اہل مکہ نے حضور ﷺ کا بائیکاٹ کیا تو بنو ہاشم بھی اس بائیکاٹ میں آپ کے شریک ، اورپشت پناہ رہے ۔
عربوں میں ایک طریقہ پناہ لینے کا تھا ، باہر سے آنے والے لوگ یا کم تعداد کے حامل قبیلہ کے افراد کسی بڑے اور مضبوط قبیلہ کی پناہ میں آجاتے تھے ، اور اس قبیلہ کے لوگ ان کا تحفظ کیا کرتے تھے ، بعض صحابہ نے قریش کی ایذا رسانی سے بچنے کے لئے یہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا ، جب آپ کا بائیکاٹ کر دیا گیا تو آپ نے صحابہ ؓ کو اجازت دی کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں ؛ چنانچہ بہت سے صحابہؓ نے ہجرت فرمائی ، حضرت ابو بکرؓ بھی ہجرت کے ارادہ سے روانہ ہوئے، جب ’’بَرک غِماد‘‘ نامی جگہ پر پہنچے جو مکہ سے ایک دو دن کے فاصلہ پر تھا تو ابن دغنہ سے ملاقات ہوئی ، یہ ’’قارہ‘‘ نامی قبیلہ کے سردار تھے ، اس قبیلہ کا تیر اندازی میں بڑا شہرہ تھا ، ابن دغنہ نے حضرت ابو بکرؓ سے پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے ؟ انھوں نے فرمایا : مجھ کو میری قوم نے نکال دیا ہے ؛ اس لئے میں نکلا ہوں کہ زمین میں گھومتے پھرتے اپنے پروردگار کی عبادت کروں ، ابن دغنہ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے لئے ٹھیک انھیں اوصاف کا ذکر کیا ، جن کا ذکر حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓنے حراء سے لوٹنے کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی شان میں کیا تھا ، اس نے کہا : تم جیسے شخص کو نکالا نہیں جا سکتا ، تم تو ناداروں کو کمائی کراتے ہو ، رشتہ داروں کے ساتھ حُسن سلوک کرتے ہو ، لوگوں کے بوجھ اُٹھاتے ہو ، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہو ، اگر کوئی مصیبت آجائے تو مدد کرتے ہو ، تم جیسے شخص کو کیسے نکالا جا سکتا ہے ؟ میں تم کو پناہ دیتا ہوں ، تم مکہ واپس چلو ، اور اپنے شہر میں رہتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرو ، حضرت ابوبکرصدیقؓ ابن دغنہ کے ساتھ واپس تشریف لے گئے ، چند دنوں اس کی پناہ میں رہے اور پھر اس پناہ سے دستبرار ہو گئے ، (سیرت حلبیہ:۱؍۴۲۸ ، عربی ایڈیشن) ،اس سے معلوم ہوا کہ انسان جس ملک اور جس علاقہ میں رہتا ہو اور جس نظام کے تحت زندگی گزارتا ہو ، وہاں اپنے تحفظ کا جو پُر امن ذریعہ میسر ہو ، اس کو اختیار کرنا چاہئے اور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے ، یہ دین کی نظر میں مطلوب ہے ۔
حفاظت اور دفاع کے لئے جسمانی طاقت کا استعمال ضروری نہیں ، کوئی بھی ایسی طاقت جس سے مقصود حاصل ہو جائے ، خواہ مادی طاقت ہو یا معنوی ، یہ سب دفاع کی تیاری میں شامل ہے ، اور موقع کے لحاظ سے ان کا استعمال کرنا اسلام میں مطلوب ہے ، شعر و شاعری کو قرآن نے زیادہ پسند نہیں کیا ہے : ’’ والشعراء یتبعھم الغاؤون‘‘ (الشعراء: ۲۲۴)؛کیوں کہ شاعروں کے یہاں آوارہ خیالی ، مبالغہ ، خلاف واقعہ دعوؤں کی کثرت ہوتی ہے ؛ اسی لئے مسجد میں اشعار پڑھنے کو فقہاء نے منع کیا ہے ؛ لیکن عربوں کے یہاں اشعار کسی بات کو پھیلانے اورپہنچانے کا بہت مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی ترجمانی اور دفاع کے لئے اس سے بھی فائدہ اُٹھایا ہے ، بامقصد اشعار کہنے والے شعراء کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے ؛ یہاں تک کہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺحضرت حسانؓ کے لئے مسجد میں منبر رکھواتے تھے ، اور وہ منبر پر کھڑے ہو کر آپ کی طرف سے دفاع کے اشعار پڑھا کرتے تھے ، حضور ﷺ ان کے بارے میں فرماتے تھے ، اللہ روح القدس کے ذریعہ حسان کی مدد فرماتے ہیں : ’’إن اللّٰه یؤیدہ بروح القدس‘‘ (سنن ابی داؤد ، کتاب الادب ، باب ما جاء فی الشعر: ۴؍۳۰۴)؛حالاں کہ صحابہؓ کی نظر میں منبر نبوی کا ایسا تقدس تھا کہ ان کو آپ کی وفات کے بعد بھی منبر پر قدم رکھنے میں تأمل ہوتا تھا ۔
ہر دور میں اس دور کے لحاظ سے دشمن سے مقابلہ کا ہتھیار ہوا کرتا ہے ، جمہوری نظام میں کسی قوم کا حق رائے دہی حاصل کرنا بھی ایک جہاد ہے ، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آسام میں لاکھوں مسلمانوں کے نام ووٹر لسٹ سے نکال دیے گئے ہیں ، اور انھیں بغیر دلیل وثبوت کے غیر ملکی قرار دیا جا رہاہے ، ملک کے مختلف علاقوں کی ووٹر لسٹ سے مسلمانوں کے نام غائب ہیں ، یہ بڑی خطرناک بات ہے ؛ اس لئے اس وقت تمام انصاف پسند ہندوستانیوں اور مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس مسئلہ پر توجہ دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی نام ووٹر لسٹ میں آنے سے رہ نہ جائے ، اس وقت ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے ووٹ چوروں کے خلاف اور ان کا ساتھ دینے والے سرکاری افسروں کے خلاف جو آواز اٹھائی ہے، تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس میں تعاون کریں، ووٹ چوری کو روکنے کی بھرپور کوشش کریں، ووٹ چوروں کو کٹہرے میں کھڑا کریں، یہ جمہوریت میں ظالم حکومتوں سے لڑائی کا ہتھیار اور اپنی مدافعت کی سب سے مؤثر تدبیر ہے !

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔