از:- شاہد عادل قاسمی ارریہ
۱۵/ستمبر ۲۰۲۵کا دن سیمانچل کے لیے نہایت تاریخی دن رہا،ملک کے وزیر اعظم کے لاکھوں کڑوروں کی یوجناؤں اور اسکیموں کا افتتاح کیاگیا،سیمانچل کو دلہن کی طرح سجایا گیا،اپنے نعرے اور خود کے بول بال سے سرکاری راشی کے سہارے سیمانچل کی دھرتی کو سندر بنانے کی تگ ودو کی گئ، سوغات کے بوچھاڑ اور وعدوں کے ٹوکریوں سے یہاں کی بھولی بھالی جنتا ہی نہیں بلکہ موقع پرست اور مفاد پرستوں کو بھی دل سے رجھایا گیا ،سیمانچل کی راجدھانی پورنیہ سے سٹے ارریہ ،کٹیہار اور کشن گنج کے مسافروں کو بھی طے شدہ شیڈول پر پابند رکھا گیا،ٹریفک کے نظام اور سڑک کی آمدورفت کو متاثر کیا گیا،مسافران بیچارے مرتے کیا نہ کرتے وہ عہد وفا نبھاتے رہے جس سے کئ کا مرض بڑھا اور کئ خود اپنی زندگی کی دکان بڑھا گئے، باشندگان سیمانچل نے ہر تکلیف کو سہا،ہر فرمان پر عمل پیرا ہوکر اس جشن مسرت میں مد مست رہےکہ واقعتا آج ہمیں اچھے دن اور سہانی راتیں نصیب ہورہی ہیں،آج برسوں کا سپنا شرمندۂ تعبیر ہونے جارہا ہے،آج سچ پوچھیے تو سیمانچل کو ایک نیا مقام اور ایک نئ اونچائ ملنے جارہی ہے،سیمانچل کو ائیر پورٹ اور وندے بھارت جیسی فاسٹ اور وی آئ پی کلچر گاڑی مل رہی ہے،ارریہ جیسے حاشیائ خطہ سے چنئ کے لیے ٹرین مل رہی ہے،ارریہ سے گلگلیہ کے لیے ٹرین کا نیا ٹریک شروع ہونے جارہا ہے،ایک وقت اتنے سارے سوغات سے سیمانچل مستفید ہورہا ہے یقینا لائق ستائش گھڑی اور پر مسرت موقع ہے،لیکن دوستو ذرا دل پر انصاف کے عینک سے جھانکیے گا کہ کیا یہ سوغات چند دنوں کی کوششوں کا ثمرہ ہے یا برسہا برس کے آندولن، انتظار، سنگھرش، جدوجہد، دوڑ بھاگ، صبر وشکر اور تحمل کی بدولت ہے، سیمانچل کا یہ خواب یوں ہی پورا نہیں ہوا بلکہ ہمارے پرکھوں نے اس کے لیے ایک لمبی لڑائ اور ٹرائ سے ہمکنار ہوۓ ہیں، سڑک اور سدن سے ہی نہیں بلکہ مندروں، مسجدوں، گرجاگھروں اور دیگر عبادت خانوں میں اس ترقی اور ان ایام کے لیے کامنائیں اور دعائیں کی گئیں ہیں،آج موجودہ وزیر اعظم آۓ ان کے ہاتھوں انوگریشن ہوا،افتتاح ہوا،ریبن اور فیتا کاٹے گئے ،ہری جھنڈی دکھائ گئ مگر اس سے ہمارے نیتاؤں اور قائیدوں نے گتنا لال،پیلا اورسردگرم دور دیکھا اور سہا ہے جب آپ ان دنوں کی تاریخ کو اٹھاکر دیکھیں گے تو مبہوت ہوجائیں گے،سیمانچل میں نام چیں اور برانڈیڈ نیتا آۓ گئے ہر ایک نے اپنا معیار بلند کیا،سید شہاب الدین،سید شاہنوازحسین ،ایم جے اکبر،مولانا اسرارالحق قاسمی،،پپو سنگھ،سنتوس کشواہا، پپویاد، طاہر حسین،سکھ دیو پاسوان،طارق انور اور کئ مشہور سیاست داں سیمانچل آۓ گئے مگر جو نام اور جو کام سیمانچل گاندھی سے موسوم تسلیم الدین نے کیا وہ کسی اورکے نام معنون نہیں ہوسکتاہے، تسلیم الدین صاحب کی دو یوجنائیں کافی فیمس رہی ہیں جن میں سے ایک پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے جب کہ دوسرا ابھی زیر تعمیر ہی ہے،سیمانچل سیلاب زدہ ایریا ہے،سیلاب سے اس علاقے کو بچانے کے لیے مہان نندا بیسن کا قیام تسلیم الدین کی ہی کوشش اور سوچ کا نتیجہ ہے،ارریہ سے گلگلیہ ٹرین چلاۓجانے کا پلان اور کوشش بھی تسلیم الدین کی ہی سعی پیہم کا نتیجہ ہے،آج ارریہ گلگلیہ روڈ پر ٹرین چلایا جارہا جس کا افتتاح کل وزیر اعطم کے ہاتھوں ہوالیکن افسوس اس حسین موقعے پر تسلیم الدین کو فراموش کردیا گیا جسے ہم احسان فراموشی سے تعبیر کریں گے،ایسے وقت انھیں بہترین خراج عقیدت پیش کرنا تھا مگر یکسر انھیں بھلادیا گیا،جنھوں نے سیمانچل کی نمائندگی کی ،راہبری کی،رہنمائ کی،ریاستی سرکار اور مرکزی سرکار کی ایک بڑی ٹیم افتتاحی پروگرام میں شریک رہی مگر کسی نے بھی سیمانچل کے سورگ واش نیتاؤں کا ذکر کیا اور نہ ہی موجودہ کسی سیمانچل کے رہنما کا تذکرہ ہوا،کچھ ادباء اور رچناکار کا ذکر جمیل ضرور ہوا لیکن جمیل الرحمن اور تسلیم الدین جیسے نیتاؤں کا نام تک کسی کی زبان پر نہیں آیا کیا یہی انصاف ہے؟کیا یہی گریما ہے ؟کیا یہی ایک سچے اور ایمان دار کی شناخت ہے؟