مذہب کے نام پر ہمیں یہ کونسی پستی میں لے جایا جارہاہے؟

از:- سرفراز احمد قاسمی حیدرآباد

ہمارا شہرحیدرآباد فرخندہ بنیاد، دنیا بھر کے مختلف شہروں میں اپنا ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اپنی تہذیب و ثقافت، یہاں کے لوگوں کی خودداری،مہماں نوازی، رواداری، محبت واخوت، انسانی ہمدردی،سیاسی وسماجی بہت سی دیگر خصوصیات کےلئے یہ شہر آج بھی جانا اور پہچانا جاتا ہے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ کچھ دنوں سے یہاں بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں،حالانکہ یہ علم اور علماء کا مرکز سمجھا جاتا ہے، یہاں مساجد کی بھر مار ہے،مدارس کی ایک بڑی تعداد ہے،عصری تعلیم گاہوں کا یہ شہر بڑا مرکز ہے،بڑی بڑی لائبریریاں ہیں،دوسری اور بھی بہت ساری خصوصیات سے یہ شہر مالا مال ہے لیکن کچھ سالوں سے یہاں بڑی تبدیلیاں بھی رونما ہورہی ہیں،نفرت عام ہورہی ہے،قتل و غارت گری کے واقعات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے،خودغرضی اور مفاد پرستی عام ہورہی ہے،میرے کچھ دوست کہتے ہیں کہ اب یہ شہر ایک ایسے شہر میں تبدیل ہوگیا ہے،جہاں مختلف فرقے اور فتنوں کی بھرمار ہے،پوری دنیا میں جتنے فرقے اور فتنے ہیں وہ سب اس شہر میں موجود ہیں اور آئے دن ایک نیا فتنہ شہر میں کھڑا ہوجاتاہے،شریعت کی اصطلا ح میں ہر طرح کی آزمائش کو فتنے سے تعبیر کیا جاتا ہے،قرآن کریم میں مال و دولت کو بھی فتنہ کہا گیا ہے،گویا ہر وہ چیز جو انسان کو اپنے رب سے غافل کردے وہ فتنہ ہے،حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ نے فتنے کی تعریف میں ایک جگہ لکھا ہے کہ” باطل کو حق کی شکل میں کیا جائے،یہاں تک کہ عام آدمی کو حق اور باطل کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوجائے تو یہ بہرحال فتنہ ہے،فتنے مختلف ہیں،اس میں سے ایک انسان کا اندرونی فتنہ ہے، جس کی وجہ سے دل میں خرابی کا ہونا اور عبادت میں حلاوت کا نہ ہونا اسی طرح کچھ خارجی فتنے ہیں مثلا گھر میں،اولاد میں،معاشرے میں،فتنوں کا پیدا ہوجاناہے،درجنوں احادیث میں مسلمانوں کو ان فتنوں سے آگاہ کیا گیا ہے،ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے کہ اعمال صالحہ کے کرنے میں جلدی کرو،قبل اس کے کہ وہ فتنے ظاہر ہوجائیں جو تاریک راتوں کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے اور ان فتنوں کا اثر یہ ہوگا کہ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا،شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا نیز اپنے دین کو دنیا کے تھوڑے سے فائدے کے عوض میں بیچ ڈالے گا”،بخاری شریف کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ”میں دیکھ رہا ہوں کہ عنقریب تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح برس رہے ہوں گے جیسے بارش برستی ہے”آج ہمیں جن فتنوں کا سامنا ہے،ان میں بہت سے تو دین کے نام پر اور اسلامی عنوانات اور شرعی اصطلاحات استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں، کوئی جدیدیت کے نام پر عقائد کو کھوکھلا اور اعمال کو بے وزن کر رہا ہے، کوئی اکابرو اسلاف سے بیزاری پیدا کررہا ہے، کوئی قرانی آیات کی منمانی تشریح کر کے لوگوں کے لئے گمراہی کے اسباب تیار کررہا ہے، کوئی احادیث کے متفقہ مفاہیم کو بگاڑ کر یہ باور کرا رہا ہے کہ اکابرین امت نے قران و حدیث کی صحیح تفسیر و تشریح نہیں کی اور خود ساختہ مفہوم نکال کر قرآن و حدیث کی تشریحات کی مخالفت کررہا ہے، کوئی نزول مسیح علیہ السلام کا انکار کررہا ہے، کوئی مہدویت کا دعویدار بن کر امت کو گمراہ کررہا ہے، غرض ہرطرف سے فتنہ پرور لوگ مسلمانوں کا ایمان خراب کررہے ہیں اور ایمان کا سودا کرنے پر تلے ہوئے ہیں،یہ امت جتنا دور نبویﷺ سے دور ہورہی ہے،اتنا ہی فتنوں کے قریب ہورہی ہے،ہمارے درمیان فتنوں کا ایک سیلاب ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے،ہر ایک کسی نہ کسی شکل میں ان فتنوں کا شکار ہورہا ہے۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ” اسلام جب شروع ہوا تو وہ اجنبی تھا اور ایک زمانہ آئے گا کہ دوبارہ اسلام اجنبی ہوجائے گا”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب محصولات کو ذاتی دولت، امانت کو غنیمت اور زکوۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے گا،غیر دینی کاموں کے لئے علم حاصل کیا جائے گا،مرد اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے گا اور اپنی ماں کی نافرمانی کرے گا،اپنے دوست کو قریب کرے گا اور باپ کو دور، مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں گی،قبیلے کا بدکار شخص ان کا سردار بن بیٹھے گا اور ذلیل آدمی قوم کا لیڈر،یعنی حکمراں بن جائے گا اور آدمی کی عزت،محض اس کے شر سے بچنے کے لئے کی جائے گی،گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان عام ہو جائے گا،کھلے عام اور کثرت سے شرابیں پی جانے لگیں گی اور بعد والے لوگ اپنے پہلے لوگوں کو لعن طعن کے ذریعے یاد کریں گے تو اس وقت تم سرخ آندھی، زلزلے، زمین میں دھنس جانے،شکلیں بگڑجانے، آسمان سے پتھر برسنے اور طرح طرح کے لگاتار عذابوں کا انتظار کرو،یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے یوں ظاہر ہوں گی جس طرح کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے موتیوں کے گرنے کا تانتا بندھ جاتا ہے”(ترمذی شریف)

گزشتہ دنوں شہر حیدرآباد میں دو تین واقعے ایسے پیش آئے جسکو بطور خاص آج آپ کے سامنے پیش کرنی ہے اور آج کی تحریر میں اسی پر گفتگو کرنا مقصود ہے،ان میں سے ایک واقعہ تو یہ ہے کہ گزشتہ دنوں شہر کی ایک بڑی مرکزی مسجد میں ایک ایسے شخص کو جو اکثر اپنی کامیڈی میں علماء،مدارس،اذان اور دیگر چیزوں کا تذکرہ تمسخرانہ انداز میں کرتا رہا، ان پر کامیڈی کرتا رہا،دوسرے الفاظ میں ان چیزوں کو نشانہ بناکر توہین کرتا رہا،ان کو اس مسجد میں لوگوں کے سامنے ممبر پر کھڑا کردیا گیا،ایسے شخص کو ممبر حوالے کرکے گویا مسجد کی توہین کی گئی اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سب کرنے والے لوگ کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی لوگ ہیں،خبر کے مطابق مقبول اسٹینڈ اپ کامیڈین اور بگ باس 17 کے فاتح منور فاروقی نے جمعہ کے روز حیدرآباد کے مشیر آباد میں واقع تاریخی جامع مسجد کا اچانک دورہ کیا،جس سے انکے مداح حیران رہ گئے۔مزاحیہ اداکار نے نہ صرف جمعہ کی نماز ادا کی بلکہ مسجد کے اندر انھیں بیان (اسلامی گفتگو) بھی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔اس دورے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور اس پر بحث کا بازار گرم ہوگیا،سوال یہ نہیں ہے کہ اس اداکار نے اپنے بیان میں کیا کہا سوال یہ ہے کہ اسلام میں مساجد کا،ممبر ومحراب کا ایک مقام اور وقار قائم ہے کیا ان جگہوں کو،ممبر کو،مسجد کو ہر شخص کے حوالے کیا جا سکتا ہے؟کیا ہم اور آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ آخر ہم کس طرح کی پستی میں ڈھکیلے جا رہے ہیں،ہمارا معیار اتنا نیچا کیوں ہو گیا کہ جہاں سے دین ومذہب،دینی تعلیم اور اسلام کے احکامات کی تشریح کی جاتی ہے،اس کو پھیلایا جاتا ہے، کیا اب دین ایسے لوگوں سے سیکھا جائے گا جو دین و شریعت کا مذاق اڑاتے ہیں،ناچ گانا اور مسخرہ پن جنکا پیشہ اور جنکی زندگی کا مقصد ہو، کیا اب ایسے لوگوں سے دین سیکھا جائے گا آخر ہم یہ کیسے زوال کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے؟ ذرا آپ بھی سوچئے!
ایک دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ 12 ربیع الاول کے دن شہر کی ایک معروف عیدگاہ،عیدگاہ بلالی،ہاکی گراؤنڈ،ماں صاحب ٹینک میں جشن عید میلاد النبی کے موقع پر کچھ لوگوں نے باجماعت نماز ادا کی اور اسے نماز عید کا نام دیا گیا،یہ خبر جیسے ہی عام ہوئی اور ویڈیو وائرل ہوئی،گفتگو اور بحث و مباحثے کا بازار گرم ہوگیا، پھر خبر یہ آئی کہ عیدگاہ کی انتظامیہ کمیٹی نے پولس میں ایف آئی آر درج کرائی ہے،بعد میں ان لوگوں نے معافی بھی مانگی،یہ واقعہ شہر میں پہلی بار رونما ہوا،سوال یہ ہے کہ جب ہمارے پاس مکمل اسلام موجود ہے،اسلام کی تعلیمات موجود ہیں تو پھر اس طرح کی چیزوں کا مقصد کیا ہے؟ سوائے انتشار کے،اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کے اسکا مقصد اور کیا ہوسکتا ہے؟آخر یہ کون لوگ ہیں جو اسطرح کی جرأت کا مظاہرہ کررہے ہیں؟کیا انجمن غلامان مصطفی اور اس جیسے ملتے جلتے نام رکھ کر قوم کو گمراہ کیا جارہا ہے؟بھولے بھالے مسلمانوں کو یہ باور کرا کر کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں،کیا اپنے نبی سے محبت کا دعوی ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم ان کی لائی ہوئی شریعت، ان کے لائے ہوئے دین و مذہب میں کوئی نئی چیز اپنی طرف سے بنا کر پیش کریں جس کا کوئی ثبوت نہ صحابہ کے زمانے سے ہو نہ تابعین کے زمانے سے ہو نہ دیگر اولیاء اور بزرگان دین کے زمانے سے ہو،پھر ہمیں یہ اختیار کیسے حاصل ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی جانب سے کوئی نئی چیز بنا کر ان کی امت کے سامنے دین و مذہب کے نام پر پیش کر دیں،کیا ان چیزوں سے سماج میں،معاشرے میں مزید انتشار پیدا نہیں ہوگا؟آخر اس طرح کی چیزیں کن کے اشارے پر انجام دی جا رہی ہیں؟ کیا دین وشریعت کو مذاق بنالیا گیا ہے؟اسکے پیچھے آخر کونسی طاقتیں کام کررہی ہیں؟۔

یہ بھی دیکھیں: آر ایس ایس سو سالہ جشن

ماہ ربیع الاول میں نبی اکرم ﷺ کی ولادت بھی ہوئی ہے اور وفات بھی،ولادت کی تاریخ میں اختلاف ہے اور وفات کی تاریخ میں بھی،اس سے پتہ چلتا ہے صحابۂ کرام جن سے زیادہ نبی اکرم ﷺ سے کوئی محبت کر ہی نہیں سکتا،انہوں نے کوئی یوم ولادت نہیں منایا،اگر یوم ولادت و یوم وفات مناتے تو ان تاریخوں میں کوئی اختلاف نہ ہوتا،نبی اکرم ﷺ سے محبت کا تقاضہ ہے کہ آپ کی مکمل پیروی کی جائے،آپ کی سنتوں کو سینے سے لگایا جائے اور آپ کے اسوے کو اپنایا جائے،آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کو عام کیا جائے، نبی اکرم ﷺ کا یومِ ولادت منانا اور عید میلادالنبی کے نام پر ناچ گانے کی محفلیں سجانا اور شور ہنگامہ کرنا جہالت و گمراہی ہے اور نبی اکرم ﷺ سے عداوت و بغاوت ہے۔برسوں سے شہر حیدرآباد میں میلاد جلوس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور جلوس نکالا جاتا ہے،اس بار اس جلوس میں دین دار انجمن نامی جماعت کے لوگ بھی شریک ہوئے، یہ لوگ مکہ مسجد کے سامنے میلاد کے اسٹیج پر مائک میں نعرہ لگاتے دیکھے گئے یہ وہ جماعت ہے جسے اہل سنت والجماعت کے تمام علماء و مشائخ نے متفقہ طور پر کافر قرار دیا ہے کیونکہ ان کا نظریہ ان کے عقائد اور ان کی تعلیمات اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صدیق دین دار انجمن نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت کی صورت میں جلوہ گر ہوئے ہیں،مرزا غلام احمد قادیانی ایسا شخص ہے جسے ساری مسلم دنیا کافر مانتی ہے،دین دارانجمن کے لوگ اس کو مجدد اور مسیح مانتے ہیں،ان کی کتابوں اور تقریروں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء کی عزت اور مقام کو کم کرنے والی باتیں پائی جاتی ہیں یہ جماعت صحابہ کرام اور بزرگوں پر بے جا اعتراضات کرتی ہے،یہ لوگ نماز،روزہ اور دیگر عبادات میں عجیب و غریب اور من گھڑت تاویلات کرتے ہیں،تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کر سکیں،اسلئے برصغیر کے تمام علماء کرام نے متفقہ طور پر ان پر کفر کا فتوی لگا کران سے دور رہنے کی تاکید کی ہے،ایسے میں میلاد النبی کے اسٹیج پر ان کی موجودگی نہ صرف بے ادبی بلکہ عاشقان رسول کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور اسلام کی روایات کو پامال کرنے کے مترادف ہے،یہ ضرور کسی سازش کا نتیجہ ہے،گمراہ فرقے کے لوگ جب ہمارے پروگراموں میں شرکت کرنے لگیں تو یہ بہرحال افسوس کا مقام ہے۔جس مبارک ہستی کی ولادت باسعادت نے ساری دنیا میں تعلیمی،اخلاقی اور فکری انقلاب پیدا کیا آج شہر حیدرآباد میں اسی ہستی کی میلاد کے موقع پر غیر شرعی و نازیبا امور،ازراہ حصول ثواب انجام دئے جا رہے ہیں،گانوں کی دھن پر نعتیں پڑھی جا رہی ہیں اور اس پر رقص و سرور ہورہا ہے،عورتوں اور مردوں کا اختلاط ہورہا ہے،رات بھر سڑکوں پر تیز رفتار گاڑیاں چلائی جارہی ہیں اور چیخ و پکار ہورہا ہے،لب سڑک رہنے والوں کے لیے شب میلاد سونا مشکل ہو گیا ہے،ایسی ناگفتہ بہی صورتحال میں ائمہ و خطباء کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اپنے طریقہ اصلاح و تبلیغ پر ہر زاویے سے غور و فکر کریں اور نوجوانوں کی ذہنی و فکری تربیت میں ناکامی کا جائزہ لیں،اس کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی درکار ہے،ابتدائی مرحلے میں ائمہ خطباء کی ترجیح ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں بچوں اور نوجوانوں سے متعلق سروے کریں کہ کتنے بچے اور نوجوان ان کے زیر اثر علاقوں میں اسکولز اور کالجز کا رخ نہیں کرتے اور اکتساب علم کے بجائے کسب معاش میں اپنے زندگی کے سنہرے حصے کو ضائع کرتے ہیں،ایسے بچوں اور نوجوانوں کو ذہنی، فکری،بنیادی اور دینی تربیت کے لئے ہفتہ واری،جز وقتی کورسز ترتیب دے کر ان کو راغب کرنا اور ان کی تربیت کرنا اور ان تک اسلام کی درست تعلیمات پہونچانا ائمہ خطبہ اور مسلم تنظیموں کے ذمہ داران کا اہم فریضہ ہے۔

ضرورت ہے کہ مسلم نوجوانوں کے ان جذبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی سنت پر عمل کی جانب موڑ دیا جائے،انھیں سمجھایا جائے کہ یہ وقت روڈ پر احتجاج کا نہیں ہے،یہ وقت سنت نبوی کے عملی اظہار کا ہے،آپ کو زندگی کا ثبوت دینا بھی ضروری ہے مگر اتحاد،بصیرت، صبرو تحمل اور حکمت عملی بھی ضروری ہے۔1992 کے فسادات کے بعد ممبئی کے مسلمانوں میں دینی روایات اور اسلامی شعائر پر عمل کا بے پناہ اضافہ ہوا،پہلے نقاب و حجاب کا چلن کم تھا ممبئی کی شناخت فلم نگری،بھیا گیری تھی مگر فساد نے ایمانی غیرت کو جھنجھوڑ دیا، تکلیف نے مالکِ حقیقی سے جوڑ دیا، وہاں دین پر عمل کی خرچ کرنے کی ایک لہر چل پڑی،تبلیغی جماعت نے رخ کو بھانپ لیا اور نوجوانوں کو دعوت سے جوڑدیا،کبھی ممبئی میں پورے بھنڈی بازار میں نقاب کی صرف ایک دوکان ہوا کرتی تھی،آج محمد علی روڈ پر پچاسوں دوکانیں کھل گئ ہیں۔اس لئے ایسے مواقع نوجوانوں کو بیدارئی دین کے لئے استعمال کر لئے جائیں۔جب کشتی بھنور میں پھنستی ہے تو انسان مالک کو یاد کرتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسکے لئے تیار ہیں یا پھر اسی طرح پستی اور زوال کی جانب بڑھتے رہیں گے؟ مولانا عبدالحمید نعمانی صاحب کے بقول
بعض اوقات ایسے حالات بھی آتے ہیں،جب اہل علم کے لئے اپنے علم کا اظہار ضروری ہوجاتا ہے،آج بھی وہ وقت آگیا ہے،علماء اورخطباء مساجد کو بتانا چاہیے کہ اسلام کیا ہے؟ اور غیر اسلام کیا ہے؟ان کو بتانا پڑے گا کہ عارف محمد خان اقتدار پرست ہیں،ان کا بتوں کے سامنے سجدہ ریزی کے ساتھ قرآن مجید کی آیات کے حوالے سے بات چیت کرنا،محض فریب ہے،وہ مسلم سماج اور اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں،وہ مسلمانوں اور علماء پر تنقید اپنی جگہ بنانے کے لئے کرتے ہیں،اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھ کر اسے خدا کی بتانا،یہود کا عمل ہے نہ کہ مسلمانوں کا،وہ انڈیا ٹی وی پر لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ مسلمانوں نے دین کو بدل دیا ہے،ایسا تو خدا ناترس،مفاد پرست اور خود غرض لوگ ہی کر سکتے ہیں،جن میں عارف محمد خان خود شامل ہیں،وہ اپنے آئینے میں دوسروں کا چہرہ کیوں دیکھتے ہیں؟

*(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔